صبیح احمد
آئندہ چند مہینوں میں کسی بھی وقت بہار میں اسمبلی انتخابات کا اعلان ہونے والا ہے۔ سیاسی بساط بچھنے لگی ہے۔ مہرے سجائے جانے لگے ہیں۔ سیاسی پارٹیاں اپنے حساب سے بیانیہ گڑھنے میں مصروف ہو گئی ہیں۔ ویسے تو ریاستی سطح پر انتخابی ایشوز کی کوئی کمی نہیں ہے لیکن سیاسی پارٹیوں کی جانب سے اپنی اپنی سہولت کے مطابق ایشوز طے کرنے کی تگ و دو جاری ہے، خواہ وہ ایشوز مقامی ووٹروں کے مسائل سے مطابقت رکھتے ہوں یا نہیں، اس سے کوئی مطلب نہیں۔ صرف اتنا خیال رکھا جاتا ہے کہ ووٹروں کو بے وقوف بنانے کے لیے یہ ایشوز پارٹی کا آلہ کار بن سکتے ہیں یا نہیں۔ ابھی کچھ سالوں سے ہمارے انتخابی نظام میں ایک نیا چلن وبا کی طرح شروع ہو گیا ہے کہ الیکشن خواہ ریاستی یا بلدیاتی سطح کے ہوں لیکن ایشوز قومی سطح کے اچھالے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ بعض دفعہ توفلسطین، شام، ایران، چین اور امریکہ کے حالات اور ان ملکوں کے ساتھ رشتے جیسے بین الاقوامی موضوعات کو بلدیاتی انتخابات میں بھی ایشو بنا دیا جاتا ہے۔ حکمراں جماعت کی اکثر یہ کوشش ہوتی ہے کہ اس طرح کے ایشوز کو چھیڑ کر مقامی مسائل سے توجہ ہٹا دی جائے۔ بالخصوص گزشتہ کچھ برسوں سے حکمراں جماعت کی سیاست شخصیت پرستی پر مرکوز ہوکر رہ گئی ہے۔ بس، اس کے پاس ایک ہی چہرہ ہے جسے کامیابی کی ضمانت تسلیم کر لیا گیا ہے۔ اس لیے یہ ان کی مجبوری ہو گئی ہے کہ جب اسی ایک چہرہ کے بھروسے ہی الیکشن لڑنا ہے تو پھر کوئی بھی الیکشن ہو، قومی ایشوز کا لا محالہ داخلہ لازمی ہو گیا ہے۔ پھر پوری طاقت اسی حساب سے بیانیہ طے کرنے میں لگا دی جاتی ہے۔ اپوزیشن پارٹیوں کو بھی نہ چاہتے ہوئے حکمراں جماعت کے طے کردہ بیانیہ کو رد کرنے میں اپنی طاقت صرف کرنی پڑتی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اصل اور مقامی ایشوز پیچھے چھوٹ جاتے ہیں۔ اس دوران ووٹر بھی اتنے کنفیوژ ہو جاتے ہیں کہ اپنے مسائل انہیں یاد ہی نہیں رہتے اور گمراہی میں ووٹ ان لوگوں کو دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں جن کا ان (ووٹروں) کے مسائل سے کوئی سروکار ہی نہیں ہوتا۔
بہرحال جیسے جیسے بہار میں انتخابات کا وقت قریب آرہا ہے، سڑکوں سے لے کر میڈیا تک سیاسی ہلچل تیز ہوگئی ہے۔ ووٹر لسٹ پر نظرثانی کی خصوصی مہم (ایس آئی آر) کے حوالے سے اپوزیشن سڑکوں پر ہے اور معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچ گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے فی الحال ووٹر لسٹ میں نام شامل ہونے کے لیے ضروری دستاویزات میں آدھار کارڈ، راشن کارڈ اور ووٹر شناختی کارڈ کو شامل کرنے پر غور کرنے کا مشورہ دیا ہے( حکم نہیں)۔الیکشن کمیشن کی جانب سے کی جانے والی خصوصی مہم پر کسی قسم کی روک نہیں لگائی گئی ہے بلکہ اسے جاری رکھنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ عدالت نے معاملے کی اگلی سماعت 28 جولائی مقرر کی ہے جبکہ الیکشن کمیشن نے ووٹر فارم جمع کرانے کے کام کی حتمی تاریخ 25 جولائی طے کی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں فریق عدالتی موقف کو اپنی فتح قرار دے رہے ہیں۔ دریں اثنا ’ایس آئی آر‘ مہم کے دوران بے ضابطگیاں بھی سامنے آنے لگی ہیں۔ تحقیقاتی صحافت کے ذریعہ سوشل میڈیا میں ایسے انکشافات ہو رہے ہیں جس سے الیکشن کمیشن کی پوری کارروائی پر سوال کھڑے ہو گئے ہیں۔ اپوزیشن لیڈران نے بھی ان انکشافات کا نوٹس لے کر سوال کھڑے کیے ہیں۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ ان بے ضابطگیوں کو دور کرنے کے بجائے انہیں سامنے لانے والے صحافی کو ہی کٹہرے میں کھڑے کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان کے خلاف ایف آئی آر تک درج کر دی گئی ہے۔ الیکشن کمیشن اپنی کارروائی کو درست ٹھہرانے کی کوشش میں یہ بھی کہہ رہا ہے کہ بہار میں غیر قانونی تارکین وطن بھی ووٹر بن گئے ہیں۔اس لیے ان کی چھان بین ضروری ہے۔ الیکشن کمیشن کا دعویٰ ہے کہ فیلڈ ورکرس نے بہار میں جاری ووٹر لسٹ کے سنجیدہ جائزہ کے دوران پایا کہ اس میں نیپال، بنگلہ دیش اور میانمار کے لوگوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔ سوال یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کیسے دعویٰ کر رہا ہے کہ کوئی نیپال یا بنگلہ دیش کا ہے؟ اگر آدھار کارڈ، راشن کارڈ یا دیگر دستاویز ہیں تو کس بنیاد پر لوگوں کو فہرست سے ہٹایا جائے گا؟ جب کوئی شناختی کارڈ یا دستاویز مانگا ہی نہیں جا رہا ہے تو صرف نام اور والد کا نام پوچھ کر کیسے طے ہو رہا ہے کہ کوئی غیر ملکی ہے؟ ایس آئی آر کے تحت فارم اپلوڈ کیے جانے سے متعلق الیکشن کمیشن کے دعوؤں پر بھی سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ یہ پورا عمل ہی مشکوک ہو کر رہ گیا ہے۔ بہار کے لوگ اسے کیسے لیں گے، یہ تو انتخابی نتائج سے ہی پتہ چلے گا۔
جمہوریت میں ہر معاملے کو عوام کے فیصلے کی کسوٹی میں کسا جاتا ہے اور بہار اسمبلی انتخابات اس سال اواخر میں ہونے والے ہیں۔ یعنی آپریشن سندور ہو یا ووٹر لسٹ پر نظر ثانی کی الیکشن کمیشن کی خصوصی مہم یا کوئی اور موضوع، سب کو بہار کے عوام کی عدالت کی کسوٹی پر جلد پرکھا جائے گا۔ بہار الیکشن میں علاقائی اور مقامی ایشوز کے علاوہ جو سلگتے ہوئے قومی مسائل ہوں گے، ان میں 3 ایشوز سب سے نمایاں ہوں گے۔ پہلگام میں دہشت گردانہ حملہ،جواب میں پاکستان کے دہشت گردانہ ٹھکانوں پر ہندوستانی فضائیہ کے کامیاب حملے اور اس کے بعد اچانک ہونے والا سیز فائر۔ انہیں ملک کے عوام نے کس طرح لیا ہے، بہار الیکشن کا نتیجہ اس کا اشاریہ ہوگا، کیونکہ پہلگام میں دہشت گردوں کے ہاتھوں معصوم سیاحوں کی ہلاکت کے فوراً بعد وزیر اعظم نریندر مودی نے بہار میں اپنی پہلی عوامی میٹنگ کی تھی، جس میں انہوں نے اعلان کیا تھا کہ اس حملے کے قصوروار دنیا کے کسی بھی کونے میں چھپے ہوں، انہیں بخشا نہیں جائے گا اور انہیں ایسی سزا دی جائے گی کہ ان کی روح کانپ جائے گی۔ ’آپریشن سندور‘ کی کامیابی کو بی جے پی اور این ڈی اے وزیراعظم کے اس عزم کی تکمیل کے طور پرپیش کریں گے۔ لیکن اپوزیشن یعنی کانگریس، آر جے ڈی اور بائیں بازو کی جماعتوں کا عظیم اتحاد یہ معاملہ اٹھا کر حکمراں جماعت کو گھیرنے کی بھر پور کوشش کرے گا کہ فوج کی شاندار کامیابی کے بعد اچانک جنگ بندی کیوں ہوئی؟ اور کیا ہندوستان نے امریکہ کے دباؤ میں ایسا کیا؟ جیسا کہ صدر ٹرمپ مسلسل دعویٰ کر رہے ہیں اور اس جنگ میں ہندوستان کا کیا نقصان ہوا؟
بہارمیں نظم و نسق کی بگڑتی صورتحال سے عوام میں دہشت کا ماحول پیدا ہو گیا ہے۔ گزشتہ ایک دو مہینے میں قتل کی کئی وارداتیں ہو چکی ہیں۔ پٹنہ میں بی جے پی کے ایک لیڈر کو گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔ سیتامڑھی میں تاجر کو گولی مار دی گئی، پٹنہ میں ہی ایک دکاندار قتل ہوگیا، نالندہ میں نرس کو گولی مار دی گئی، کھگڑیا میں نوجوان کو قتل کر دیا گیا، گیا اور نالندہ میں 2افراد کو جان سے مار دیا گیا۔ ریاست میں ہر طرف غنڈوں کی گولیاں برس رہی ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ حکومت فی الحال اس پر قابو پانے اور عوام کی جان و مال کی حفاظت کی اولین ذمہ داری نبھانے میں بے بس نظر آ رہی ہے۔ خاص طور پر حکمراں طبقہ کے لیے انتخابی سال میں یہ صورتحال کافی تشویشناک ہے۔ اپوزیشن نے اس صورتحال کو انتخابی ایشو بنانے کے لیے کمر کس لی ہے۔ نتیش کمار تقریباً 20 سال سے بہار میں برسراقتدار ہیں۔ درمیان میں ایک چھوٹی سی مدت کو چھوڑ کر بی جے پی ان کے ساتھ اقتدار میں شراکت دار رہی ہے۔ نتیش کمار اور بی جے پی ہر الیکشن میں لالو راج کو ’جنگل راج‘ بتا کر بہار کے لوگوں کو دہشت زدہ کرتے رہے ہیں، لیکن بہار میں جس طرح سے جرائم، قتل اور لوٹ مار میں اچانک اضافہ ہوا ہے، خود حکمراں طبقہ کے لیڈر بھی اس سے پریشان ہیں۔ مرکزی وزیر چراغ پاسوان کھلے عام بہار میں لاء اینڈ آرڈر پر تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔ نائب وزیر اعلیٰ وجے سنہا اس کے لیے پولیس نظام کو ذمہ دار بتا رہے ہیں جبکہ دوسرے نائب وزیراعلیٰ نتیانند رائے اس کے لیے ریت مافیا اور شراب مافیا کو قصوروار ٹھہرا رہے ہیں۔ مجموعی طور پر نتیش کمار کی قیادت میں الیکشن میں اترنا بی جے پی کے لیے مجبوری بھی ہے اور مسئلہ بھی۔ جے ڈی (یو) کے ساتھ ساتھ بی جے پی بھی حکومت کی ہر ناکامی کی ذمہ دار ہے اور اگر ریاست میں امن و امان کی صورتحال ایسی ہی رہی تو ہر بار کی طرح اس بار این ڈی اے کا ’جنگل راج‘ کا ’برہماستر‘ کمزور پڑ سکتا ہے۔ ایک اور بڑا ایشو وزیر اعلیٰ نتیش کمار خود بننے والے ہیں۔ ان کی صحت کے ساتھ ساتھ ان کی عمر اور لمبی اننگز بھی اپوزیشن لیڈروں کے رڈار پر ہے۔
اپوزیشن کے عظیم اتحاد میں شامل تیجسوی کی جارحیت، راہل گاندھی کے سماجی انصاف کے نعرہ اور بائیں بازو کی جماعتوں کی تنظیمی طاقت کا بھی امتحان ہوگا۔ جہاں آر جے ڈی نے تیجسوی کو اپنا چہرہ قرار دیا ہے، وہیں کانگریس یہ تو کہہ رہی ہے کہ تیجسوی اتحاد کے رہنما ہیں، لیکن وزیراعلیٰ کے بارے میں فیصلہ انتخابات کے بعد کیا جائے گا۔ دوسری طرف راہل گاندھی اپنی ’سنویدھان بچائو‘ کانفرنسوں کے ذریعہ سماجی انصاف کا نعرہ لگا رہے ہیں اور کانگریس دلت اور ای بی سی ووٹروں کو اس سے جوڑنے کی کوشش کر رہی ہے۔ انہیں پورا یقین ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ کے ساتھ ہے۔ اس لیے بہار کے انتخابات میں ایشوز کے ساتھ ساتھ نتیش، مودی، راہل اور تیجسوی کی دھار بھی جانچی جائے گی۔