محمد حنیف خان
مذہب کی سیاست نے انسان سے انسانیت کو اس طرح کھرچ کر پھینک دیا ہے جیسے وہ انسان کے لیے آلائش ہو۔ در اصل حکومت، کرسی اور عہدے کے لیے اس سیاست کا استعمال بطور سازش کیا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب ہر طرف مذہب کے بگولے اٹھتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ان بگولوں میں انسان اڑ گیا اور اس کے اندر موجود انسانیت کا خاتمہ ہوگیا۔
جو کھیل آزادی سے قبل شروع ہوا تھا وہ بیسویں صدی کے اواخر میں رتھ یاتراؤں کے ساتھ عوام کو اس میں شامل کرنے کے لیے بلندیوں پر پہنچا اور اب یہ نقطہ عروج پر ہے۔پہلے مذہب کی سیاست بھی عبادت گاہوں تک تھی لیکن دھیرے دھیرے یہ کاروباری اداروں تک پہنچ گئی، جس نے انسانیت کے بعد انسان کے آذوقہ حیات پر بھی شب خون مار دیاہے۔گزشتہ چند برسوں میں جس طرح اقلیتوں کے ساتھ کاروبار اور خرید و فروخت پر سماجی سطح پر پابندیوں کی بات کی گئی اور چھوٹے چھوٹے کام کرنے والوں کو ان کے مذہب کی بنیاد پر نشانہ بنایا گیا اور خرید و فروخت سے دست کش ہوا گیا وہ مذہب کے جنون کی انتہا ہے۔
ابھی حال میں ہی اترپردیش کی راجدھانی لکھنؤ میں انٹرنیشنل کاروباری کمپنی ’’لولو‘‘نے جب خرید و فروخت کے لیے اپنا مال کھولا تو یہاں دو طرح کے مسائل نے بڑی شدت کے ساتھ سر اٹھایا۔اول اس کاروباری مرکز میں نماز کی ادائیگی اور دوم یہاں کام کرنے والے افراد کا مذہب۔ اول الذکر سے معاملہ شروع ہوا اور یہاں اکثریتی طبقے افراد بھی ہنومان چالیسہ کے لیے پہنچ گئے۔آخری الذکر اس سے کہیں زیادہ اہم اور سنگین معاملہ ہے جس پر زیادہ گفتگو نہیں ہوئی، البتہ اکثریتی طبقے کی طرف سے اس پر سوال اٹھایا گیا جس کا جواب کمپنی نے تحریری طور پر دیاتھا۔کمپنی پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ چونکہ کمپنی کا مالک ایک مسلمان ہے، اس لیے اس میں کام کرنے والوں کی اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ الزام عائد کرنے والوں نے صاف طور پر اس مال میں خریداری کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھاجس پر کمپنی نے تحریری طور پر بتایا کہ یہاں 80 فیصد غیرمسلم اور 20 فیصد مسلم کام کر رہے ہیں۔یہ تناسب بھی مذہب کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اپنی قابلیت کی بنیاد پر ان افراد کو ملازمت دی گئی ہے اور چونکہ ہم ایک کاروباری ادارہ ہیں، اس لیے یہاں مذہب کے بجائے قابلیت دیکھی جاتی ہے اور اسی کی بنیاد پر انتخاب بھی کیا جاتاہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اکثریتی طبقے کے ذہن میں یہ بات کیوں آئی کہ اس ادارے میں زیادہ مسلمانوں کو ملازمت دی گئی ہے؟ در اصل سیاست دانوں اور مذہب کا کاروبار کرنے والوں نے عوام کے ذہنوں میں یہ راسخ کردیا ہے کہ مسلمان تعصبی اور نفرتی ہوتے ہیں۔سدرشن ٹی وی چینل نے تو کھلے عام نوکری جہاد کے نام سے پروگرام نشر کیا تھا۔اسی ذہنیت نے لوگوں کے ذہنوں کو مسموم کیا اور ایک خالص کاروباری ادارے میں مذہب تلاش کیاجانے لگا جہاں صرف سیم وزر اور منافع پر توجہ دی جاتی ہے۔کوئی بھی کمپنی عالمی سطح پر مذہب کے ساتھ کاروبار نہیں کرسکتی ہے بلکہ اس کے لیے اس کو پروفیشنل ہونا ہی پڑے گا۔مندرجہ بالا کمپنی عالمی سطح پر کاروبار کرتی ہے، اس کے باوجود اس طرح کے الزامات عائد کیے گئے جسے اس نے بے بنیاد قرار دے دیاہے۔
یہ بات سب ہر عیاں ہے کہ ہندوستان میں مسلمان معاشی اور سماجی سطح پر حد درجہ پسماندگی کے شکار ہیں، وہ نہ تو کاروباری سطح پر مضبوط ہیں اور نہ ہی سرکاری و غیر سرکاری ملازمتوں میں ان کے پیروں تلے زمین ہے۔ وزارت اقلیتی بہبود نے 13 مختلف بینکوں میں سبھی اقلیتی طبقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی تفصیلات جاری کی ہیں جن میں مسلمانوں کی حالت بہت غیر ہے۔رپورٹ کے مطابق اقلیتوں میں عیسائی ہر زمرے میں آگے ہیں۔قومی بینکوں میں 33527 عہدے افسران کے ہیں جن میں سے 13771 عیسائی ہیں جبکہ مسلموں کی تعداد محض8128 ہے،6072سکھ،3515 بودھ، 2011 جین اور 4 پارسی افسر ہیں۔کلرک کے عہدوں پر عیسائی 9189، مسلمان 5854، سکھ4283، بودھ 1460، جین 1170 اور پارسی 11 ہیں۔سب اسٹاف میں عیسائی 2096، مسلمان 3316، سکھ3090 بودھ 470، جین 45 اور پارسی صفر ہیں۔
جنوری 2022 میں سینٹر فار ڈیولپمنٹ پالیسی اینڈ پریکٹس(سی ڈی پی پی) نے ایک رپورٹ ’’ڈیولپمنٹ آف مسلمس ان اترپردیش، پالیسی امپلی کیشن‘‘جاری کی تھی۔ اس رپورٹ کے یہ اعداد و شمار دیکھئے۔36.5 فیصد مسلمانوں کا تعلق کھیتی کسانی سے ہے، 26.2مینوفیکچرنگ، 10.3 تعمیرات اور 27 فیصد مختلف سروسز میں ہیں۔جہاں تک بات سرکاری ملازمت کی ہے تو 10.08 فیصدمسلم اوبی سی ملازمت میں ہیں جبکہ ان کے مقابلے ہندو اوبی سی کی ذاتیں 65.48 فیصد سرکاری ملازمت میں ہیں۔کلاس اے میں 5.76 فیصد، کلاس بی میں 3.98 فیصد، کلاس سی میں 1.73 فیصد اور کلاس ڈی میں 5.75 فیصد مسلم اوبی سی ہیں۔جبکہ ان کے مقابلے بالترتیب غیر مسلموں کی تعداد کچھ یوں ہے، کلاس اے 80.92،کلاس بی82.83،کلاس سی 82.55 اور کلاس ڈی 73.55 غیر مسلم اوبی سی سرکاری ملازمت میں ہیں۔رپورٹ میں زمین کے مالکانہ حق پر روشنی ڈالی گئی ہے اور دونوں طبقات کا تقابل کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق 48.05 فیصد مسلمانوں کے پاس زمین ہی نہیں ہے، جبکہ غیر مسلموں کا یہ فیصد محض 25.83 ہے۔ 59.47 فیصد مسلمانوں کے پاس ایک ایکڑ زمین ہے جبکہ 83.4 فیصد غیر مسلم ایک ایکڑ زمین کے مالک ہیں، 0.80 مسلم ساڑھے سات ایکڑ سے لے کر 10 ایکڑ زمین کا مالکانہ حق رکھتے ہیں جبکہ .1 87فیصد مسلم 10 ایکڑ زمین سے زیادہ کے مالک ہیں۔
اس سے ملک اور اترپردیش دونوں جگہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں کی کیا معاشی حالت ہے، اس کے باوجود اگر پرائیوٹ کاروباری اداروں میں نوکری جہاد کی بات کی جاتی ہے تو اس کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ مسلمانوں کو بھوکا مار دیاجائے، جس کے لیے ایسے افراد پرائیویٹ کمپنیوں پر اس طرح دباؤ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔اسی سیاست اور دباؤ کا نتیجہ ہے کہ پرائیویٹ کمپنیوں میں اب بھیدبھاؤ کیا جانے لگاہے۔یوٹیوب پر متعدد ایسی ویڈیوز مل جائیں گی جن میں نوکری کے خواہشمند کسی مسلم نوجوان کے ساتھ بھیدبھاؤ کیا گیا ہو اور مذہب کی بنیاد پر اسے نوکری نہ دی گئی ہو۔ایسے ویڈیوز اس وقت بنائے جاتے ہیں جب اس طرح کی وبا عام ہو گئی ہو اور یہ مقصد ہو کہ کسی بھی طبقے کے ساتھ اس کے مذہب کی بنیاد پر بھید بھاؤ نہ کیا جائے۔
حکومت چونکہ آئینی سطح پر سب کی محافظ ہے، اس لیے یہ اس کی ذمہ داری ہے کہ اولاً اس کے اداروں میں مذہب کی بنیاد پر بھید بھاؤ اور تقرری نہ ہو، دوم غیر سرکاری اداروں میں بھی اس طرح کے برتاؤ کو روکا جانا چاہیے۔ حالانکہ سرکار کے پاس ایسا کوئی نظام نہیں ہے جس کے ذریعہ وہ اس پر نظر رکھ سکے،لیکن جب یہ وبا عام ہوتی جارہی ہے تو ایسے میں یہ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسا میکانزم تیار کرے جس سے ہر شہری کو اس کی قابلیت کی بنیاد پر جانچا پرکھا جائے اور اس کو ترقی کے مواقع مہیا کرائے جائیں۔جب تک مذہبی تعصب سے پاک روزگار اور ملازمت کے مواقع نہیں مہیا کرائے جائیں گے، اس وقت تک نہ تو کوئی طبقہ ترقی کرسکتا ہے اور نہ ملک و ریاست ترقی کی شاہراہ پر دوڑ سکتی ہے۔
[email protected]