خواجہ عبدالمنتقم
ڈاکٹر امبیڈکر جنہیں ہم بابا صاحب ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کے نا م سے جانتے ہیں، ان کا جنم 14اپریل، 1891میں مہو، مدھیہ پردیش میں مہار ذات کے ایک معمولی خاندان میں ہوا۔ اس ذات کو ایک نچلی ذات سمجھا جاتا تھا اور اس ذات کے ماننے والوں کو اچھوت کہا جاتا تھا اور ان کے ساتھ چھوت چھات برتی جاتی تھی اور قانونی طور پر چھوت چھات کا یہ سلسلہ تب بند ہوا جب 1950میں بھارت کے آئین کے نفاذ پر آئین کی دفعہ 17کے ذریعہ چھوت چھات کا خاتمہ کردیا گیا۔ اب اس طرح کی ذاتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو قانونی طور پر درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل سے تعلق رکھنے والے افرادکے طور پر جانا جاتا ہے اور عرف عام میں ان کے لیے ’دلت‘ جیسی اصطلاح کا استعمال کیا جاتا ہے جبکہ اس لفظ کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے اور ہماری معلومات کے مطابق اس لفظ کا آج تک ہمارے ملک کے کسی بھی قانون میں استعمال نہیں کیا گیا ہے۔ یہ بات دوسری ہے کہ ہماری عدالتوں کے بہت سے فیصلوں میں اور قانون کی کتابوں میں لفظ دلت کا استعمال ضرور کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر ترلوکی ناتھ کی ایک تحقیق کے مطابق لفظ ’دلت‘ کا استعمال پہلی مرتبہ سوامی شردھانند نے کیا تھا۔ ڈاکٹر ترلوکی ناتھ کی یہ تھیسس انڈین لا انسٹی ٹیوٹ،جسے اب ڈیمڈ یونیورسٹی کا درجہ حاصل ہوچکا ہے، کی لائبریری میں موجود ہے۔
ڈاکٹرامبیڈکر کے والدچاہتے تھے کہ ان کا بیٹااعلیٰ تعلیم حاصل کرے۔ ڈاکٹرامبیڈکر نے ایک مؤدب اور لائق فرزند ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے اتنی اعلیٰ تعلیم حاصل کی جو اس دور میںاعلیٰ ذات سے تعلق رکھنے والے افراد میں سے بھی کچھ ہی کو نصیب تھی۔یہ وہ دور تھا جب صرف چند جماعت پڑھے ہوئے لوگوں کو تحصیلدار یا اعزازی مجسٹریٹ بنادیا جاتا تھا اور جیسا کہ ہم پرانی فلموں میں دیکھتے ہیں، مکانوں کے باہر فلاں فلاں بی اے کی تختیاں لگی ہوئی نظر آتی تھیں۔
ڈاکٹرامبیڈکرکواپنے بچپن سے ہی ایسی تکلیف دہ تفریقی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا جس کے باعث انہوں نے بڑے ہوکر دبے کچلے لوگوں کے لیے آواز اٹھائی اور ایک ایسے مصلح ثابت ہوئے جس کی مثال ملنا آسان نہیں۔ پڑھائی کے دوران ان کے ساتھ چھوت چھات کا برتاؤ کیا گیا اور مختلف طریقوں سے ان کی تذلیل کی گئی مگر وہ اس صورت حال کا انتہائی صبر واستقلال کے ساتھ مقابلہ کرتے رہے اور اپنی تعلیم جاری رکھی۔ میٹرک پاس کرنے کے بعد گھر کی مالی حالت ایسی نہیں تھی کہ کالج میں داخلہ لے سکیں لیکن ان کے والد کے ایک دوست انہیں بڑودہ کے راجہ گائک واڈ کے یہاںلے گئے۔ گائک واڈ نے ان کے لیے وظیفے کا انتظام کردیا اور اس طرح ڈاکٹرامبیڈکر نے 1907 میں میٹرک پاس کرنے کے بعد بمبئی کے ایلیفسٹن کالج سے 1912میں بی اے تک کی تعلیم مکمل کی۔ اس کے بعد ڈاکٹرامبیڈکر نے کچھ عرصے تک ریاست بڑودہ میں سرکاری ملازمت کرلی۔ اس کے بعد 1913میں مہاراجہ گائک واڈ کے دیے گئے وظیفے کی بدولت امریکہ کی کولمبیا یونیورسٹی میں ایم اے (معاشیات) میں داخلہ لیا اور 1915میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور کولمبیا یونیورسٹی سے ہی 1917میں پی ایچ ڈی کی۔ ان کے تحقیقی مقالے کا موضوع تھا: “National Dividend of India – A Historic and Analytical Study”۔اسی سال انہوں نے لندن اسکول آف اکنامکس میں داخلہ لیا لیکن مالی حالات خراب ہونے کے باعث اپنی تعلیم مکمل نہیں کرپائے اور ہندوستان واپس آگئے۔ یہاں آکر کچھ دن تک ریاست بڑودہ میں ملٹری سیکریٹری رہے۔ اس کے بعد بڑودہ سے بمبئی آگئے۔ کچھ دنوں تک وہ سڈینہیم کالج میں پولٹیکل سائنس کے پروفیسر رہے۔ اسی دوران ڈپریسڈ کلاسز کانفرنس سے وابستہ رہے اور اس طرح سرگرم سیاست میں حصہ لینے کی شروعات ہوئی لیکن اس سے پہلے کہ یہ سلسلہ آگے بڑھتا، وہ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے لیے دوبارہ لندن چلے گئے۔ وہاں پر رہ کر نہ صرف ایم۔ اے کی تعلیم حاصل کی بلکہ ایم اے، پی ایچ ڈی، ایم ایس سی، بار ایٹ لا کی ڈگریاں حاصل کیں۔ انہوں نے بچپن، جوانی اور زندگی کے ہردور میں ہرشعبۂ حیات میں دلتوں اور پسماندہ لوگوں کے ساتھ جو غیرمنصفانہ رویہ دیکھا اور خود بھگتا بھی تھا، اس سے وہ نہ صرف بے انتہاخائف،رنج زدہ اور متاثر تھے بلکہ اس کے مداوا کے متلاشی بھی تھے اور ان طبقات کے لیے کوئی ایسا بڑا کام کرنا چاہتے تھے جس سے ناانصافی کا یہ دور ختم ہوسکے۔ وہ ہندوستانی معاشرے میں خصوصاً ہندو مذہب کے ماننے والوں میں جو درجاتی نظام ایک عرصۂ دراز سے قائم تھا، اس کے سخت مخالف تھے اور وہ ایک ایسی سماجی جمہوریت کے قائل تھے جس میں سب کو انصاف ملے اور سب کے ساتھ بغیر کسی امتیاز کے برابر کا سلوک کیا جائے۔انہیں ملک کے لیے اس خدمت کا موقع تب ملا جب انہیں آئین کی ڈرافٹنگ سے متعلق کمیٹی کا سربراہ بنا یا گیا۔آج ہمارے آئین میں درج فہرست ذاتوں ودرج فہرست قبائل اور اقلیتوں و پسماندہ طبقات سے متعلق واضح التزامات موجود ہیں لیکن اس کے باوجود کمزور طبقات کے ساتھ جسمانی، مالیاتی و نفسیاتی زیادتیوں کی خبریں برابر ملتی رہتی ہیں۔
ڈاکٹرامبیڈکر بہت ہی صاف گو انسان تھے اور ان کو کسی بھی مذہب یا معاشرے میں کوئی کمی نظر آتی تھی تو وہ بنا کسی لاگ لپیٹ کے اس کی تنقید کرتے تھے۔ ان کی تصانیف میں ہمیں بہت سی ایسے باتیں ملیںگی جن سے واضح طور پر ان کی اس سوچ کا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ہندو اور مسلمانوں میں پائی جانے والی بہت سی دقیانوسی روایات کے خلاف تھے۔ وہ ہمیشہ معاشرے کی اصلاح کے کوشاں رہے۔
آزاد ہندوستان میں بھی وزیر قانون کی حیثیت سے وہ اپنا مصلحانہ رول برابر نبھاتے رہے۔ ہندو کوڈ بل ان کی اسی سوچ کا نتیجہ تھا۔ اس بل کی مخالفت سے انہیں کافی صدمہ بھی پہنچاحالانکہ ان کے انتقال کے بعد بہت سے ایسے قوانین بنائے گئے جن میں ان کی سوچ اور نقطۂ نظر کی بالواسطہ یا بلاواسطہ جھلک نظر آتی ہے اور آج کوئی بھی نہ تو ایسی پالیسی بنائی جاتی ہے اور نہ ہی ایسا کوئی قانون وضع کیا جاتا ہے جس میں سماج کے مختلف طبقات کے ساتھ ساتھ دلت سماج کے مفاد کو ملحوظ خاطر نہ رکھا گیا ہو۔
کسی کی شخصیت، اس کی کارگزاری اور اس کی حصولیابیوں کا صحیح اندازہ کرنے کے لیے ہمیں اس کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کا مجموعی جائزہ لینا پڑتا ہے۔ مختلف ممالک اور مختلف مذاہب کے لوگوں سے رابطہ قائم ہونے اور ان کے قریب آنے سے اس کے خیالات بدل جاتے ہیں۔ ڈاکٹر امبیڈکر جیسی عظیم شخصیت کا اندازہ لگانے کے لیے بھی ہمیں یہی پیمانہ اپنانا ہوگا۔
آج کے حالات میں بھی ان کے اس قول کی معنویت کہ سماجی آزادی کے بغیر قانون کے ذریعہ عطا کی گئی آزادی بے معنی ہے، تا ہنوز باقی ہے۔ ڈاکٹر امبیڈکر کافی عرصہ تک سخت بیمار رہے اور 6دسمبر، 1956 کو اپنی دہلی کی رہائش گاہ پر آخری سانس لی اور ان کی آخری رسومات 7دسمبر، 1956کو چوپاٹی میں سمندر کے کنارے بودھ رسم ورواج کے مطابق ادا کی گئیں چونکہ انہوں نے تبدیلیٔ مذہب کے بعدبودھ مذہب اختیارکرلیا تھا۔
(مضمون نگارماہر قانون، آزاد صحافی،مصنف،سابق بیورکریٹ و بین الاقوامی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تا حیات رکن ہیں)
[email protected]