یوگیندر یادو
اکثریت پسندی کی مخالفت کرنے میں ہم کو دراوڑ سیاست کے تین نظریاتی کی طرف وٹنا ہوگا وہ علاقائیت، قوم پرستی اور سماجی انصاف۔نئے زاویے سے دیکھنا ہوگا۔
کیا آپ نے کبھی دنیا کا ایسا نقشہ دیکھا ہے جس میں جنوب اوپر کی طرف ہو۔ اگر اس طرح کا نقشہ آپ دیکھیں گے تو آپ کا نقطۂ نظر بدل کر بالکل ہی مختلف ہوجائے گا۔ واقعی میں !
آپ کو دکھائی دے گا کہ ہمارے بالکل نیچے آسٹریلیا اور درمیان میں افریقہ ہوگااور لاطینی امریکہ کو اہمیت حاصل ہوجائے گی۔ اس طریقے سے جنوب کا حصہ یوروپ کی طرف چلا جائے گا اور نارتھ امریکہ اس کی جگہ لے گا۔ آپ کو احساس ہوگا کہ یہ سب باتیں پہلے سے ہی ہونی چاہیے تھیں۔ کیونکہ زمین گول ہے اور ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ زمین کو دیکھنے کا ٹھیک زاویہ کیا ہے۔ ہم اگر شمال کو اوپر کی طرف دیکھتے ہیں ، جس کے ہم عادی بھی ہیں یہ صرف ہمارے نقطۂ نظر کا فرق ہے اور یہ نقطۂ نظر ہم پر سامراجی طاقتوں نے تھوپا ہے۔
اسی طرح ہمارا ہندوستان کا نقشہ ایسا کیوں نہیں ہے جس میں ہمیں جنوب اوپر کی طرف دکھائی دیتا ہو۔ یہ سوال میں نے بھارت جوڑو یاترا کے پہلے دن ہی کیا تھا۔ میں کنیا کماری میں تھا اور کیپ کیمروئین پوائنٹ پر کھڑا تھا جو کہ سرزمین ہند کے سب سے دورد راز جنوبی حصے پر ہے۔( میں یہاں پر ہندوستان کی بات نہیں کررہا جس کا سب سے آخری جنوبی کنارے پر نکوبار جزائر ہیں)اس کو تریوینی سنگم کہتے ہیں۔ یہاں پر تین سمندر ملتے ہیں ۔ بحر بنگال ، بحر عرب اور بحر ہند۔ میرے پیچھے کی طرف وویکانند راک میموریل اور شاندار تھیرووالووار کا مجسمہ ہے۔ میں کشمیر کی طرف دیکھا ہوں جہاں یہ یاترا ختم ہونی ہے اور مجھے محسو س ہوا کہ وہ حصہ ہے جہاں سے ہندوستان شروع ہوتا ہے۔ کنیا کماری سے یاترا کا شروع ہونا ہندوستان کو نئے خواب دکھاتا ہے۔
پروفیسر جی این دیوی نے اپنے خواب کو ایک نام دیا ہے: دکشنیان۔یہ اس تحریک کا نام ہے جو انہوں نے دوسرے قلمکاروں کے ساتھ 2016میں شروع کی تھی۔ میں اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ میں اس یاترا کی شروعات کا حصہ بنا۔ میں ناشتے کی میز پر تھا اور میرے سامنے اڈلی سامبر تھی اور میں اپنی جنوبی ہند کی سب سے پسندیدہ فلٹر کافی کا مزہ لے رہا تھا۔ دیوی اپنے نظریے دکشنیان کی وضاحت اس طرح پیش کرتے ہیں ، ان سے ہم ان کی بیوی سرولیکھا کے بارے میں جانکاری حاصل کرتے ہیں۔پروفیسر دیوی دکشنیان کے نظریے کی طرف دو وجوہات سے متوجہ ہوئے تھے۔ یہ جنوبی ہندوستان کی فطرت میں داخل ہے کہ وہ شمالی ہند کے نظریے ’اترایان ‘ کی مخالفت کرے۔ یہ اپنے آپ میں سیاسی علامت بھی ہے۔ ان لمحات کے لیے جب دن چھوٹے اور راتیں لمبی ہوتی ہیں۔
بھارت جوڑو یاترا اس طرح اپنے آپ کو دکشنیان کا لمحہ ہے۔ راتیں لمبی ہیں اور دن چھوٹے ہیں۔ آگے کی طرف ہم جاتے ہیں تو ہمیں جنوب سے رہنمائی ملتی ہے۔ ہم کو اپنے نظریہ کے لیے جنوب کی طرف پلٹنا ہوگا اور بنیادی تبدیلی کے اس لمحے میں جس سے ہم اپنے ملک کو ہمکنار کررہے ہیں۔ جنوبی ہندوستان ہم کو ایک امید کی کرن دکھائی دیتی ہے اور ہمیں یہاں سے نظریاتی اثاثہ ملتا ہے۔
جنوبی ہندوستان ہم کو ایک خصوصی سبق دیتا ہے
جنوبی ہندوستان ہمارے لیے صرف اس لیے خاص نہیں ہے کہ وہ ہم کو اس خاص اس نے آپ آر ایس ایس اوراس کے ہمنوائوں کے جارحانہ ثقافتی حملہ سے محفوظ رکھا۔
آر ایس ایس جس نے پہلی مرتبہ 1991میں پہلی کامیابی حاصل کی اور کچھ حد تک اس نے تلنگانہ میں بھی فائدہ حاصل کیا ہے اور اب کیرالہ میں بھی اس نے کافی حد تک اپنی موجودی دکھائی ہے۔ اس کے باوجود جنوبی ہندوستان میں قوم پرستی کے بھارتیہ جنتا پارٹی کے نظریہ نے کچھ خاص اثرورسوخ حاصل نہیں کیا ہے، جو کہ جنوبی ہندوستان یا مغرب کے حصوں میں نظرآتا ہے۔ کیرالہ میں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں پر بالکل الگ قسم کا سیاسی ڈھانچہ ہے جو کہ تمل ناڈو میں یا کسی اور جگہ پر دکھائی نہیں دیتا ہے۔
یہ خصوصی سبق جو ہم سیکھ رہے ہیں وہ صرف حکمرانی تک محدودنہیں ہے۔ یہ بات صحیح ہے کہ جو بھی ملک میں گھومتا ہے وہ سب چیزیں محسوس کرتا ہے کہ سرکار سے لے کر ریستوراں تک زندگی کا ہررخ جنوب کے وندھیالیہ میں نظرآتا ہے۔ اس کے برخلاف شمالی ہندوستان میں ایک بڑی خلیج نظرآئے گی جس کا ذکر آر ایس نیلا کننتن نے اپنی کتاب جنوب برخلاف شمال ایک بڑا چیلنج میںکیا ہے۔ اس کتاب میں جنوب کے مذکورہ بالا تمام تضادات کو بہتر طریقے سے پیش کیا گیا ہے۔ اگر ہم سرسری طو ر پر ہی نگاہ ڈالیں اور یہاں کے اقتصادی ، تعلیمی اور صحت کے اعدادوشمار کا جائزہ لیں تو ہمیں مصنف کے نقطۂ نظر کی تصدیق ملتی ہے۔ جنوبی ہندوستان کی ریاستوں میں بچوں کی صحت کے پیمانے بہتر اور اطمینان بخش ہیں۔ جس کے نتیجے میں ان کی زندگی شمالی ہندوستان کے بچوں کے مقابلے میں پر اثر اور بہتر ہے۔ اسی طرح کیرالہ کے خواندگی کے ماڈل ہندوستان کے لیے قابل تقلیدہیں۔ کرناٹک ادب کے معاملے میں ہم کو راہ دکھاتا ہے۔ ہم تامل ناڈو سے یہ سیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح ہم فلاحی اسکیمیں چلائیں۔ آندھرا پردیش ہم کو بتاتا ہے کہ ہم کو آرگینک زراعت کس طرح کرنی چاہیے اور اسی طریقے سے پورا ہندوستان سیکھ سکتا ہے کہ ہم اپنی سرکار روں کا نظام کس طرح چلائیں اور کس طرح بہتر طریقے سے کریں۔
ہندوستان کے لیے دراوڑ لمحہ
اگرچہ جنوبی ہندوستان کی ریاستوں میں بہتر طریقے سے سرکاریں چلائی جاتی ہیں لیکن کنیا کماری سے بھارت جوڑو یاترا شروع کرنے کا صرف یہی نہیں ہے۔ میرے ذہن میں ’دکشنیان‘ کی نظریاتی اور آئیڈولوجیکل اہمیت ہے۔ جب میں تمل ناڈو میں کھڑا ہو ں تو مجھے دکھائی دیتا ہے کہ دراوڑ تحریک کی کیا وراثت ہے۔ 20ویں صدی میں یہ ایک مسئلہ کے طور پر ہمارے سامنے کھڑا تھا جو ہندوستان کے نظریۂ قوم پرستی کے لیے ایک بڑا چیلنج تھا۔ آج کی یہ نظریاتی لہر ، ہماری قوم پرستی کو نئے مفہوم پہنا رہی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ یہ ہمارے ملک اور جمہوری نظام کو بچانے کی اہلیت رکھتی ہے۔ اگرچہ موجودہ اکثریتی جارحانہ نظام جس کی ہم کو مزاحمت کرنی ہے تو ہم کو اپنے دراوڑ سیاست کے ستون کی طرف دیکھنا ہوگا جو تین نکات پر مبنی ہے وہ نکات علاقہ پروری ، حق پسندی اور سماجی انصاف ہیں۔ ہم یقینی طور پر ان تین نظریات کو اپنے پرانے فارمیٹ میں نہیں ڈھال سکتے ہیں۔ علاقہ پرستی یا علاقائیت کو تمل ایلم نظر سے نہیں دیکھنا ہوگا جس میں ثقافت کو بالادستی حاصل ہے۔ لہٰذا ہم تمل قوم پرستی کو ہندوستان کی وحدت اور حقیقی فیڈرل ازم کے مقابلے میں بی جے پی اور آر ایس ایس کی ثقافتی بالادستی والے اتحاد کے طور پر پیش کرسکتے ہیں ۔ یہ تصور اس بات کا متقاضی ہے کہ ملک کس طرح معرض وجود میں نہ آئے جس طرح ایک نیشن اسٹیٹ نہ ہو بلکہ تمام مختلف مذاہب ثقافتوں کا ایک مجموعہ ہو۔ بلکہ اس طرح کی اسٹیٹ نیشن ہو جو ہر سماجی اور ثقافتی ہم رنگا رنگی کا احترام کرنے والی ہو۔
اسی طریقے سے سماجی انصاف کی کوشش کو ہم برہمن مخالف سیاست سے آگے کی طرف سوچیں۔ پیدائشی بنیاد پر مبنی عدم مساوات کو ختم کرنے کا مطالبہ ہم کو اسی طریقے سے مسئلہ سے ہمکنار کرسکتا ہے۔ اس مسئلہ سے نمٹنے کے لیے ہم کو ذات پات پر مبنی نظام کو تحلیل کرنے اور دیگر سماجی نابرابریوں بشمول صنعتی نا برابری کو ختم کرنے کی طرف توجہ دینی چاہے۔ لہٰذا حقیقت پسندی کو ہمیںصرف مذہب مخالف نظریے کے طور پر ہی نہیں بلکہ ان تمام نظریاتی گروہ بندی پر مبنی استحصال ، تشدد اور پابندیوں کے خلاف جدوجہد کے طور پر دیکھنا ہوگا۔ یہ ہم کو سیکولرزم کی نئی تشریح سے آگاہ کرے گا جس کی ہم کو فوری طور پر ضرورت ہے۔
جہاں میں جنوبی ہندوستان کے سب سے دور دراز کونے میں اپنے آپ کو اتفاقی طور پر پاتا ہوں وہاں مجھ کو ایک ایسے سائوتھ ایشیا کا نقشہ نظرآتا ہے جو ایک زمانے میں ہیمال سائو تھ ایشیا- میں شائع ہوا تھا۔ ہیمال سائوتھ ایشیا پہلا جنوبی ایشیائی میگزین ہے جو ایک زمانے میں بہت پڑھا جاتا تھا مگر اب وہ بند ہوگیا ہے۔ اس نے سری لنکا کو سائوتھ ایشیا کے نقشے پر سب سے اوپر رکھا تھا اور اس نقشے کا نام دیا گیا تھا جنوبی ایشیا کی ’درست سمت سب سے اوپر ‘میرے خیال سے ہم کو اپنے ہندوستان کے نظریے کو بناتے وقت اسی پہلو کو پیش نظر رکھنا چاہیے: اسے سیدھی طرف اوپر ۔ شاید کنیا کماری سے بھارت جوڑو یاترا ہم کو یہ امکانات فراہم کرتی ہے۔
مضمون نگار سوراج انڈیا سوراج ابھیان کے بنیاد گذار اور سماجی رضاکار ہیں۔
بھارت جوڑو یاترا نے نئے خواب دکھائے ہیں
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS