اموات کو روکنے کیلئے بہتر نگرانی ضروری

فضائی آلودگی کی نگرانی کا وسیع نیٹ ورک بنانے کیلئے سستے سینسرس سے پیدا ہوئی نئی امید

0

آرتی کھوسلا

حال ہی میں نیچر کمیونی کیشن نام کی ایک میگزین میں شائع ریسرچ پیپر کا دعویٰ ہے کہ دنیا میں فوسلزایندھن(fossil fuel) جلانا روک کر 2017میں 10.05لاکھ اموات روکی جاسکتی تھیں۔ باریک پارٹیکولیٹ میٹر(پی ایم) کے سبب پیدا ہونے والی فضائی آلودگی کے رابطہ میں طویل وقت تک رہنے سے پوری دنیا میں ہر سال اوسطاً40لاکھ لوگوں کی موت ہوتی ہے۔ ان میں امراض قلب، پھیپھڑے کا کینسر، پیرالائسس، سانس کی نلی میں انفیکشن اور ٹائپ ٹو ذیابیطس سے ہونے والی اموات بھی شامل ہیں۔ ریسرچ میں استعمال بڑے ڈاٹا سیٹ20سے زیادہ انفرادی آلودگی کے ذرائع کی عالمی شراکت کا اندازہ لگانے کے لیے استعمال ہونے والا پہلا ڈاٹا سیٹ ہے۔ ان 20انفرادی آلودگی کے ذرائع میں زراعت، ٹرانسپورٹیشن، توانائی کی پیداوار، فضلہ اور گھریلو بجلی کے استعمال جیسے شعبے شامل ہیں۔ یہ مخصوص ایندھن جیسے ٹھوس بائیوماس، کوئلہ، تیل اور قدرتی گیسوں کو جلانے کے سبب پیدا ہونے والی آلودگی کے عالمی اثرات کا اندازہ کرنے کے لیے اپنی طرح کی پہلی ریسرچ بھی ہے۔ ماحولیاتی پی ایم2.5فیصد کی شرح اموات کے بوجھ میں ہندوستان اور چین کی حصہ داری 58%ہے۔ دونوں ممالک میں کل ملاکر فضائی آلودگی سے ہونے والی اموات کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ ریسرچ میں مقامی سطح پر ہوا کی کوالٹی میں بہتری لانے کی حکمت عملی تیار کرنے کی اہمیت کو نشان زد کیا گیا ہے۔ جیسے چین اور ہندوستان میں گھروں سے نکلنے والے آلودگی پھیلانے والے عنصر (Polluting element)، پی ایم2.5کے اوسطاً ایکسپوزر اور اس سے ہونے والی اموات کے سب سے بڑے ذرائع ہیں۔

مہاراشٹر پولیوشن کنٹرول بورڈ کے ذریعہ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، کانپور اور بلومبرگ فلانٹروفیز کے تعاون سے 7ماہ کے دوران کیے گئے ابتدائی مطالعہ(Pilot study) کے نتائج یہ بتاتے ہیں کہ مقامی سطح کے اسٹارٹ اپس کے ذریعہ تیار کیے گئے کم لاگت والے سینسرس نے ریگولیٹری کٹیگری والے نگرانی کے آلات کے مقابلہ85-90فیصد مؤثر طریقہ سے کام کیا۔ یہ نتائج مستقبل میں پولیوشن مانیٹرنگ سینٹرس کے وسیع نیٹ ورک کے تصور کو نئی بنیاد بھی دیتے ہیں۔ ایک مرتبہ این سی اے پی میں یہ سستے سینسر نافذ ہوگئے تو تصویر کچھ اور ہی ہوگی اور معلومات کی بنیاد پر صحیح قدم اٹھانا مشکل ضرور پر ناممکن نہیں ہے۔

ہندوستان میں فضائی آلودگی کو کنٹرول کرنے کے لیے نیشنل کلین ایئرپلان(این سی اے پی) سال 2019میں ہی شروع ہوا تھا۔ اس کے تحت 300کروڑ کی لاگت سے 102آلودہ شہروں کی ہوا صاف کرنا شروع ہوا لیکن اس میں فی الحال رکاوٹیں نظر آرہی ہیں۔
حال ہی میں ہوئی ریسرچ میں پایا گیا کہ ہندوستانی شہروں میں این سی اے پی کے تحت کی گئی شجرکاری منصوبہ بند طریقہ سے نہ کیے جانے کے سبب غیرمؤثر ہیں۔ زیادہ تر معاملات میں شجرکاری مہم اہم آلودگی والے ہاٹ اسپاٹ سے یا تو دور ہیں یا پھر ایسی نسلوں کا استعمال کیا گیا جو آلودگی کو اپنے اندر جذب نہیں کرتی ہیں۔ لیگل انی شیٹو فار فاریسٹ اینڈ انوائرمنٹ(لائف) کے ذریعہ کیے گئے نئے تجزیہ میں پایا گیا کہ اس پروگرام میں دیہی فضائی آلودگی یا مقامی آلودگی کے ذرائع پر غور نہ کرکے قومی اور شہری سطح کی کارروائیوں نے ایک غیرسائنسی نقطہ نظر پر عمل کیا۔
وہیں دوسری جانب ایئر کوالٹی مانیٹرنگ میں سستے سینسر گیم چینجر بن رہے ہیں۔ آلودگی کی بڑھتی مار کے دوران پورے ہندوستان میں اس کی سطحوں پر نظر رکھنے کے لیے ضروری نیٹ ورک کی توسیع کی بہت ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔ اس کے لیے بڑی سرمایہ کاری کی شکل میں بڑی رکاوٹ سامنے ہے۔ ایسے میں کم لاگت والے سودیشی سینسر کے آلات(سینسر) امید پیدا کرتے ہیں۔
مہاراشٹر پولیوشن کنٹرول بورڈ کے ذریعہ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، کانپور اور بلومبرگ فلانٹروفیز کے تعاون سے 7ماہ کے دوران کیے گئے ابتدائی مطالعہ(Pilot study) کے نتائج یہ بتاتے ہیں کہ مقامی سطح کے اسٹارٹ اپس کے ذریعہ تیار کیے گئے کم لاگت والے سینسرس نے ریگولیٹری کٹیگری والے نگرانی کے آلات کے مقابلہ85-90فیصد مؤثر طریقہ سے کام کیا۔ یہ نتائج مستقبل میں پولیوشن مانیٹرنگ سینٹرس کے وسیع نیٹ ورک کے تصور کو نئی بنیاد بھی دیتے ہیں۔ ایک مرتبہ این سی اے پی میں یہ سستے سینسر نافذ ہوگئے تو تصویر کچھ اور ہی ہوگی اور معلومات کی بنیاد پر صحیح قدم اٹھانا مشکل ضرور پر ناممکن نہیں ہے۔
(مضمون نگار کلائمیٹ ٹرینڈس کی ڈائریکٹر ہیں)
(بشکریہ: دینک بھاسکر)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS