پروفیسر اسلم جمشید پوری
ہندوستان ایک بڑا ملک ہے۔اس میں تقریباً 28ریاستیںاور8 یونین ٹیریٹریز ہیں۔یہ سبھی ایک مر کز سے جڑی ہیں۔آزادی سے قبل ہندوستان آج سے کافی بڑا تھا۔ اس میں پاکستان اور بنگلہ دیش بھی شامل تھے۔جن ریاستوں کو تقسیم کے وقت زیادہ نقصان پہنچا، ان میں پنجاب، جموں و کشمیر،اترپردیش،بہار، بنگال،آندھرا پر دیش وغیرہ ہیں۔ان میں سب سے زیادہ نقصان مغربی بنگال کو پہنچا۔جس کے مزید دو ٹکڑے ہوگئے۔(ویسے 1905 میں ہی انگریز وائسرائے لارڈ کرزن کے حکم سے بنگال کے دو ٹکڑے ہوگئے تھے۔بنگال کی یہ تقسیم مذہب کی بنیاد پر ہوئی تھی۔ہندو اکثریتی علاقے کو مغربی بنگال اور مسلم اکثریتی علاقے کو مشرقی بنگال بنا دیا گیا تھا۔یہ انگریزوں کی ایک چال تھی۔)مشرقی بنگال تقسیم کے وقت مشرقی پاکستان بنا،جہاں زبان کے امتیاز کو لے کر پاکستانی انتظامیہ سے دوریاں بڑھنے لگیں۔دوریوں نے فوجی بغاوت اور پھر عوامی بغاوت کی شکل اختیار کرلی۔1971 میں ہندوستان کی مدد سے مشرقی پاکستان،بنگلہ دیش کی شکل میں نئے ملک کے طور پر ابھرا۔
بنگال کا ایک حصہ تقسیم ہو کر، نیا ملک بن گیا تھالیکن پورے بنگال کی زبان ایک ہی رہی۔غیر منقسم بنگال کی زبان ’بنگلہ‘ ہی تھی۔بنگال میں رہنے والے اور بنگلہ زبان بولنے والے،بنگالی کہلائے۔نئے ملک بنگلہ دیش کی بھی زبان اردو نہیں ’بنگلہ‘ ہی تھی۔یہ بھی صحیح ہے کہ بنگلہ دیش میں بنگلہ بو لنے والے مسلمان زیادہ تھے۔ مسلمان مغربی بنگال میں بھی ہیں،مگر اقلیت میں ہیں۔
بنگلہ دیش دنیا کا مسلم اکثریتی ملک ہے۔ یہاں ہندو اقلیت میں ہیں۔زبان ہی وہ وجہ تھی کہ تقسیم ہند کے بعد ہی بنگلہ دیش میں پاکستان اور اس کی قومی زبان اردو کے خلاف ایک تحریک شروع ہو گئی تھی۔ یہ تحریک پورے بنگلہ دیش میں پھیل گئی۔اس میں پر تشدد واقعات رونما ہو نے لگے۔بالآخر 1971 میں ہندوستان کی مدد سے پاکستان سے جنگ ہوئی،جس میں پاکستانی افواج کی بری طرح ہار ہوئی اور بنگلہ دیش کا سیاسی وجود دنیا کے سامنے آیا۔بنگلہ دیش کا کل رقبہ14لاکھ 8ہزار 460مربع کلو میٹر ہے۔یہاں کی خاص صنعت ٹیکسٹائل اور گارمینٹس ہے۔ویسے بنگلہ دیش میں کھیتی باڑی،انجینئرنگ سیکشن،جوٹ اور جوٹ کی اشیا، چمڑا کی چیزیں، سمندری غذائیں،چائے وغیرہ کی بھی تجارت بڑے پیمانے پر ہوتی ہے۔اس کی آبادی 17کروڑ 14 لاکھ 66 ہزار 990 ہے۔ بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمن ہیں۔یہاں خاص کر دو ہی پارٹیاں حکومت کرتی آئی ہیں۔عوامی لیگ، جس کی سر براہ شیخ حسینہ کچھ دن قبل تک وزیراعظم تھیں۔ بنگلہ دیش نیشنل پارٹی،جس کی سربراہ خالدہ ضیاء کئی بار وزیراعظم رہ چکی ہیں۔آج کل بنگلہ دیش میں عبوری حکومت ہے جس کے حکمراں محمد یونس ہیں۔ان سب کے باوجود بنگلہ دیش کے بہت سے لوگ مختلف اوقات میں ہندوستان آتے اور بستے رہے ہیں۔ ہماری مرکزی سر کاریں نہ صرف اس کی مخالفت کرتی رہی ہیں بلکہ بہت سارے لوگوں کو ملک بدر بھی کرتی رہی ہیں۔ ہندوستان کی سرحدی ریاستیں آسام، میگھالیہ، تریپورہ، میزورم اور مغربی بنگال کافی زمانے سے اس مسئلے سے نبرد آزما رہی ہیں۔ان میں دو ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے۔جہاں آج کل اس مسئلے کو نیا رنگ دیا جارہا ہے۔
مغربی بنگال، آج کل جہاں ترنمول کانگریس کی حکومت ہے۔ممتابنرجی وہاں کئی ٹرم سے حکومت میں ہیں۔پہلے یہاں مارکسوادی حکو مت تھی۔اسے لیفٹ کا اٹوٹ گڑھ بھی کہا جاتا تھا۔جیوتی بسو نے یہاں لمبے وقفے تک حکومت کی۔بی جے پی کافی زمانے سے یہاں پیر جمانے کی کوشش کرتی رہی ہے،کبھی فساد کراکے،کبھی کوئی فتنہ پھیلا کر اور کبھی مرکزی ایجنسیوں ای ڈی اور سی بی آئی کا غلط استعمال کر کے۔مگر بی جے پی کا یہاں کے قبضے کا خواب،خواب ہی رہا۔ابھی 2021 میں اسمبلی الیکشن کے وقت بی جے پی نے کیا نہیں کیا؟وزیراعظم نے داڑھی بڑھائی تاکہ وہ رابندر ناتھ ٹیگور کا روپ دھار سکیں اور بنگال کے عوام ان کی چکنی چپڑی باتوں کے جال میں پھنس جائیں۔وزیراعظم سمیت بی جے پی کے قد آوار سیاسی لیڈران نے پے در پے انتخابی میٹنگیں کیں۔بنگال کو کھنگال کے رکھ دیا،مگر نتیجہ بالکل الٹ گیا۔ممتا کے جادوکے آگے بی جے پی بلکہ وزیراعظم بھی پھیکے ثابت ہوئے۔دراصل بنگال کی مٹی میں ممتا کی جڑیں کافی گہری ہیں۔وہ بنگالی عوام کی مسیحا ہیں۔ہر دکھ درد کو نہ صرف سمجھتی ہیں بلکہ ان کا تدارک بھی کرتی ہیں۔ان کی زبان سمجھتی اور بولتی ہیں کیو نکہ ان کی مادری زبان بھی بنگلہ ہے۔
اب جو کچھ بنگالیوں خاص کر بنگالی مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے،وہ انتہائی غلط اور ناجائز ہے۔دراصل بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں خاص کر اوڈیشہ، دہلی، یوپی اور آسام میں ایک خاص اسکیم کے تحت کام ہو رہا ہے۔اگلے سال بنگال میں اسمبلی انتخابات ہو نے ہیں،یہ سب اسی کا شاخسانہ ہے۔کسی نہ کسی طریقے سے مغربی بنگال کی حکومت کو متزلزل کرنا اور ممتا بنر جی کی مقبولیت کے گراف کو نیچے لا نا ہے۔پوری ریاست میں طرح طرح کے فتنے پھیلائے جا رہے ہیں۔درگا پوجا اور محرم کے جلوس کو لے کر متعلقہ لوگوں کو حکومت کے خلاف بھڑکایا جا رہا ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کسی نہ کسی بہانے سے یہ لوگ بنگال کومنفی طور پر سر خیوں میں رکھتے ہیں۔ ان کو شاید یہ پتہ نہیں کہ ممتابنرجی کی بنگال،بنگالیوں اور بنگلہ زبان پر کتنی گہری گرفت ہے۔اگر مان بھی لیا جائے کہ آئندہ اسمبلی انتخاب میں ممتابنرجی حکومت میں واضح اکثریت نہیں لا پاتی ہیں تو بھی بی جے پی کی قسمت میں چھنکا نہیں۔لیفٹ پارٹیاں، کانگریس اور آزادامید وار ہیں،جن کو ملا کر ترنمول کانگریس سر کار بنا لے گی۔
مرکزی سرکار نے اب بنگلہ دیشی مورچہ کھول دیا ہے، جس کے تحت مغربی بنگال کے بنگالیوں کو نہ صرف ہراساں کیا جا رہا ہے بلکہ انہیں الٹے سیدھے الزامات لگا کر جیلوں میں بند کیا جا رہا ہے۔خاص کر مغربی بنگال کے وہ مسلمان جو کسی دوسری جگہ رہتے ہیں،انہیں حد درجہ پریشان کیا جا رہا ہے۔گڑگائوں اور دہلی کے مختلف علاقوں میں ایسے لوگوں کو بنگلہ دیشی قرار دے کر گرفتار کیا گیا ہے۔یہی حال یوپی کے مختلف علاقوں،اوڈیشہ اور آسام میں کیا جارہا ہے۔ان بیچارے مظلوم لوگوں کی بودو باش اور زبان تو بنگالیوں والی ہے۔جس پر ہم آسانی سے بنگلہ دیشی ہونے کا الزام لگا سکتے ہیں۔کل تک جب بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کی سر کار تھی اور بنگلہ دیش ہندوستان کا دوست تھا۔تب یہ معاملے اتنے زور و شور پر نہیں تھے۔ہندوستان کی موجودہ سر کار نے شیخ حسینہ کو پناہ بھی دی جبکہ پورا حزبِ اختلاف اس اقدام کے خلاف تھا۔بنگلہ دیش میں یونس سرکار اور اگلے سال بنگال میں اسمبلی انتخاب کے پیش نظر مر کزی سر کار بنگالیوں کو پریشان کر رہی ہے۔یہی نہیں مرکز ممتا سر کار کے خلاف ای ڈی،سی بی آئی اور دوسری مرکزی ایجنسیوں کو بھی استعمال کر رہی ہے۔
بی جے پی کا ملک بھر میں بنگالیوں کو بنگلہ دیشی ثابت کرنے کا جو منصوبہ ہے،اس کی مغربی بنگال کی سر کار اور خاص کر اس کی وزیر اعلیٰ ممتابنر جی نے پر زور مخالفت شروع کر دی ہے۔ہر محاذ اور ہر مورچہ پر ممتا اپنے لوگوں کو بچانے کی کوشش کر رہی ہیں۔گزشتہ دنوں مغربی بنگال حکومت نے ’’زبان ‘‘ تحریک چلائی ہے،جس کے تحت کوئی بھی کسی زبان کو اپنا سکتا ہے۔بنگلہ بولنے والے بنگالی،صرف زبان کی بنیاد پر غیر ملکی،یعنی بنگلہ دیشی نہیں ہوسکتے۔ان کا حلیہ اور زبان انہیں بنگلہ دیشی نہیں بناتے۔
جبکہ ان کے پاس آدھار کارڈ،راشن کارڈ اور ووٹر آئی ڈی بھی ہیں۔ بی جے پی خواہ کوئی بھی طریقہ یا حربہ استعمال کرلے، مگر بنگالیوں کا ووٹ نہیں حاصل کرسکتی۔ نہ ہی ممتاسرکار کے خلاف عوام کی اکثریت کو ورغلا پائے گی۔اس کے بر عکس اپنے ان اعمال و افعال کی بنا پر بنگال میں اپنی قبر کھودنے کا کام کر رہی ہے۔نہ ہی اس بات کی کوئی گارنٹی کہ ممتا سر کار سے ناراض لوگ اس کی جھولی میں آجائیں گے۔اب عوام کو اچھی طرح سمجھ میں آگیا ہے کہ کون ان کے ساتھ ہے اور کون نہیں ہے؟ کون ریاست کے مفاد میں کام کررہا ہے اور کون صرف ورغلانے اور بہکانے کا کام کر رہا ہے۔؟یہ ٹیگور ، نذر الاسلام،مدر ٹریسا اورامرتیہ سین کی سر زمین ہے۔ یہاں ’’ایکلا چلو رے‘‘، ’’کوربو، لڑبو مربو‘‘ کا فلسفہ چلتا ہے۔ یہاں فرقہ پرستی نہیں،قومی یکجہتی اور آپسی بھائی چارے کا راج ہے۔یہ بنگال ہے۔یہاں کے لوگ بنگالی ہیں اور بنگلہ زبان بو لتے ہیں۔یہاں سبھی مذہب کے لوگ مل جل کر رہتے اور ایک دوسرے کا احترام کر تے ہیں۔
aslamjamshedpuri@gmail.com