مذہبی، نسلی اور جغرافیائی تقسیم کاآغاز

0

بیرین سنگھ
حکومت منی پور کو مذہبی، نسلی اور جغرافیائی طور پر تقسیم کرنے میں پوری طرح کامیاب ہوگئی ہے۔تقسیم کی ایسی لکیر کھینچ دی گئی ہے کہ جو ریاست کے لوگوں کو نہ صرف جغرافیائی بلکہ نسلی اعتبار سے بھی مکمل طور پر الگ کرتی ہے۔عیسائی اکثریت والے کوکی قبائل کو پہاڑوں اور جنگلاتی علاقوںمیں دھکیل کروادی امپھال کے میدانی علاقوںکو ہندو اکثریت والے میتیئی قبائل کیلئے مکمل طور پر خالی کر ا لیا گیا ہے۔وادی سے کو کی قبائل کی جبراً بے دخلی کے بعد بی جے پی کی اتحادی کوکی پیپلز الائنس (کے پی اے)نے آج اپنی حمایت واپس لینے کا بھی اعلان کردیاہے۔منی پور کی60رکنی اسمبلی میں کے پی اے کے دو ارکا ن ہیں۔
میدانی علاقہ سے کوکی قبائل کو بے دخل کرنے کا سلسلہ یوں تو 3 مئی سے ہی شرو ع ہوگیاتھا، چار ماہ تک مسلسل بے دخلی اور کوکیز کو ہندومیتیئی قبائل سے الگ کرنے کی کوششوں کا آخری مرحلہ اس وقت مکمل ہواجب کہ 3 ستمبر کی دیر رات وزیراعلیٰ بیرین سنگھ کی پولیس نے امپھال سے آخری 5 کوکی خاندان کے 24 افراد کو عملی طور پر اغوا کر لیا اور انہیں زبردستی ایک کار میں بٹھا کر کوکی اکثریتی علاقوں میں لے جاکر چھوڑ دیا۔ 3 مئی کو نسلی تشدد شروع ہونے کے بعد ریاستی دارالحکومت امپھال کے وسط میں رہنے والے تقریباً 300 قبائلی کوکی خاندان بتدریج وہاں سے نکلتے رہے تھے، تاہم پانچ خاندان کے 24 ارکان کسی بھی طرح وہاں سے ہٹنے کو تیار نہیں تھے،مگر زبردستی انہیں وہاں سے ہٹایاگیا۔آخری کوکی خاندان کی اس منتقلی پر وہاں کی سول انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہ افراد وہاں ایک غیر محفوظ ہدف بن گئے تھے، اس لیے انہیں وہاں سے ہٹایاگیا۔
مگر حقیقت یہ ہے کہ انہیں جس طرح سے ان کے گھر سے راتوں رات نکالاگیا، وہ عملاً اغوا کی ہی ایک شکل ہے۔وادی امپھال سے ہٹائے جانے والے خاندان کے ایک بزرگ 78سال کے ایس پرائم وائیفی کا کہنا ہے کہ وہ 1990سے وہاں رہتے آئے ہیں، اس وقت بھی انہوں نے وہ علاقہ نہیں چھوڑا جب وہاں تشدد عروج پر تھا۔وہاںایک طرح سے انہیں محصور کردیاگیا تھا، اشیائے ضرورت کی فراہمی متصل مسلم علاقوں میں رہنے والے مسلمان کررہے تھے، مگراس کے باوجودمیتیئی لوگوں کو وہاں ان کی موجودگی پسند نہیں تھی۔سیکورٹی فورسز نے بھی بار بار ان سے دوسری جگہ منتقل ہونے کو کہا مگر اچانک 3ستمبر کی دیر رات سیکورٹی فورسزا ور پولیس اہلکار ان کے گھرمیں گھس آئے اور انہیں فوری طور پر گھر خالی کرنے کو کہا گیا۔ انہیں اپنا تمام سامان حتیٰ کہ اہم کاغذات اور دستاویزات بھی لے جانے کا موقع نہیں ملا جس لباس میں وہ رات کو سوئے ہوئے تھے، اسی میں انہیں گاڑی میں بٹھاکر لے آئے۔اس اغواجیسی جبراً بے دخلی پر ان لوگوں نے احتجاج بھی کیا لیکن ان کی ایک نہ سنی گئی۔اب صورتحال یہ ہے کہ برسوں بلکہ دہائیوں سے امپھال میں رہنے والے کوکی قبائل بے گھر ہوچکے ہیں اور انہیں کھلے آسمان تلے پناہ لینی پڑ رہی ہے۔
اس واقعہ کے بعد سے یہ بات صاف ہوگئی ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی نے منی پور میں جاری نسلی تشدد کے معاملے میں خاموشی کیوں اختیار کررکھی تھی۔چار مہینوں میں ایک بار بھی انہوں نے قیام امن کی کوئی اپیل کی نہ اس پر تشویش کا ہی اظہار کیا۔ وزیراعظم نے اپنی خاموشی کے ذریعہ غالباً بالواسطہ یہ پیغام دیا کہ یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔ تشدد روکنے میں ناکام و نااہل وزیراعلیٰ بیرین سنگھ کو ہٹانے کے مطالبات کو نہ صرف مسترد کردیاگیا بلکہ پارلیمنٹ میں کھڑے ہوکر وزیر داخلہ امت شاہ نے یہ اعلان بھی کرڈالاکہ بیرین سنگھ، مرکزی حکومت سے تعاون کررہے ہیں اورہدایت کے مطابق کام کر رہے ہیں۔
منی پور میں بی جے پی کی بیرین سنگھ حکومت جو کچھ کرتی رہی اور اب بھی وہاں جو کچھ ہورہاہے، وہ آرایس ایس – بی جے پی کے منصوبہ کے عین مطابق ہے۔ سیکڑوں افراد کی ہلاکت، اپنے ہی وطن اور اپنی ہی زمین پر لاکھوں افراد کو بے گھر کرنا، یہ سب اسی منصوبہ کا حصہ ہے جو آر ایس ایس اور بی جے پی پورے ہندوستان میں کرنا چاہتی ہے۔ لوگوں کو مذہبی، نسلی اور جغرافیائی اعتبار سے تقسیم کرکے ایک دوسرے کا دشمن بناکر، قومی اور ثقافتی ہم آہنگی کی تباہی کی قیمت پر اپنی حکمرانی قائم رکھنا بی جے پی کا اولین مقصد ہے۔چار مہینوں کی کوششوں میں بی جے پی حکومت نے پورے امپھال کو میتیئی ہندوئوں کا علاقہ بناکر ایک تجربہ کیا جو آنے والے دنوں میں پورے ہندوستان میں بھی دوہرایا جاسکتا ہے اورا گر ایسا ہوا توپھر ملک کو تباہ ہونے سے کوئی نہیں بچاسکتا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS