کورونا سے جنگ میں بیر ونی امداد

0

قزاق اجل کورونا وائرس کی شکل میں ہندوستان پر بزن بول چکا ہے اور قدرت کی اشرف مخلوق انسانوں کو جانوروں کے ریوڑ کی طرح ہانک کر مقتل کی طرف لے جارہاہے۔ چہارجانب پھیلے موت کے بھیانک منظر دیکھ کرآنکھیں پتھرا گئی ہیں۔ گرتی لاشوں کو تھامنے اور مریضوں کی اشک سوئی کا بھی اب کسی میں یارا نہیں رہا ہے۔ان سفاک حالات کے درمیان بھی حکومتیں اپنی انا کوبلند رکھنے کیلئے سفید جھوٹ بول رہی ہیں۔ آکسیجن اور ضروری دوائوں کی کمی نہ ہونے کا ڈنکا بجایاجارہاہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ملک کی راجدھانی دہلی سے لے کر پسماندہ ریاستوں بہار، جھارکھنڈ، اڈیشہ، تری پورہ تک میں آکسیجن کی قلت انسانی جانوں کی ہلاکت کا سب سے بڑا سبب بن رہی ہے۔ اسپتالوں میں تل دھرنے کی جگہ نہیں بچی ہے۔ دھوپ، تپش اور جہنم برسارہے آسمان کے نیچے انسان اپنی ایک ایک سانس کیلئے جدو جہد کررہاہے۔صورتحال اتنی بھیانک ہوگئی ہے کہ کبھی اس کا تصور تک نہیں کیاجاسکتا تھا۔ملک کی جو حالت ہے وہ نظام کی مکمل ناکامی کی بدترین مثال بن کر دنیا کے سامنے آئی ہے۔
16سال پہلے دوسرے ممالک سے مدد، تعاون، عطیہ نہ لینے کا فیصلہ کرتے ہوئے ہندوستان نے جو کشکول توڑ دیاتھا، آج ہندوستان کے ہاتھوں میں ایک بار پھر وہی کشکول نظرآرہاہے۔ گزشتہ برسوں میں ہم نے ہندوستان کو تیزی سے ترقی کرتی معیشت کا تمغہ خود اپنے ہاتھوں سے دیاتھا اور آج حال یہ ہوگیا ہے کہ دنیا کے بیشتر ممالک ہمیں امداد اور تعاون دے رہے ہیں۔کچھ ممالک رضاکارانہ طور پرہماری امداد کررہے ہیں اور کچھ ملکوں پر وہاں کے عوام کا دبائو ہے کہ اس آڑے وقت میں ہندوستان کی مدد کی جائے۔ اس دبائو کے بعد اب چین بھی ہماری مدد کو تیار ہوگیا ہے۔ چین اپنے یہاں وینٹی لیٹر تیار کرا رہا ہے۔ دوسرے ممالک سے بھی آکسیجن سلنڈر اور ٹینکروںمیں بھر بھر دوائیں، آلات اور دوسرے سامان ہندوستان پہنچنے لگے ہیں۔ سعودی عرب اور دوسرے خلیجی ممالک ہوائی جہازوں سے آکسیجن کے ٹینکر بھیج رہے ہیں۔ پاکستان نے بھی کشادہ قلبی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے آکسیجن اور ایمبولینس بھیجنے کی پیش کش کی ہے لیکن بوجوہ ہم اسے قبول کرنے سے گریزاں ہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ دنیا کے دوسرے ملکوں سے اس وبا کا خاتمہ ہو چکا ہے اور ہندوستان اکیلے ہی اس کی زد میں ہو دنیا کے درجنوں ممالک اب بھی اس مرض الموت سے نبردآزما ہیں، ایسے میں ان ممالک کے وسائل بھی محدودہیں اور دوسروں کی امداد کرنے کی ایک حد ہے۔ برطانیہ کے وزیر صحت و سماجی تحفظ میٹ ہینکوک نے اپنے ملک سے دی جانے والی امداد کے ساتھ یہ وضاحت بھی کردی ہے کہ ان کے ملک کے پاس کووڈ سے بچائو کیلئے ویکسین کا کوئی اوو ر اسٹاک نہیں ہے۔برطانیہ کے پاس اس کی اپنی ضرورت کے مطابق ہی ویکسین ہے اورا سے اسٹاک نہیں سمجھاجاناچاہیے، اس لیے وہ ہندوستان کو ویکسین نہیں دے سکتا ہے۔برطانیہ کی جانب سے ماسوا ویکسین وینٹی لیٹرس اور دوسرے ضروری میڈیکل آلات نئی دہلی بھیج دیے گئے ہیں۔ دیکھا جائے تو برطانیہ کے جوحالات ہیں، وہاں اب وینٹی لیٹرس کی ضرورت نہیں رہ گئی ہے لہٰذااب یہ ہندوستان بھیجے جارہے ہیں۔جہاں تک ویکسین کا سوال ہے ہندوستان میں برطانیہ کی ہی ٹیکنالوجی پر مشتمل ویکسین تیار ہورہی ہے، ہمیں ویکسین کے لیے دوسرے کا سہارا ڈھونڈنے کے بجائے خود اپنی پیداوار میں اضافہ کرنا چاہیے۔ بہرحال ہندوستان کی حالت ایسی ہے کہ ہمیں جہاں سے جتنی مدد ملے اسے خندہ پیشانی سے قبول کرنا ہوگا حتیٰ کہ بنگلہ دیش اور پاکستان کی بھی مدد قبول کرنے میں ہمیں کوئی عار نہیں ہونا چاہیے۔
کورونا کی سفاکی اور اپنے نظام صحت کی ناکامی کے بعد جو ممالک بھی ہماری مدد کررہے ہیں، ان کی مدد کو معمولی نہیں سمجھنا چاہیے۔ موجودہ حالات میں یہ مدد خالص انسانی بنیادوں پر کی جارہی ہے۔وزیرخارجہ ایس جے شنکرنے بجاطور احسان مندی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا سے جو مددآرہی ہے ہندوستان اس کا احسان مند ہے ہم یہ احسان کبھی نہیں بھولیں گے جب بھی کسی ملک کو ہماری مدد کی ضرورت ہوگی ہم ساتھ کھڑے رہیں گے۔
افسوس کا مقام یہ بھی ہے کہ ابتلا اور بحران کے اس دور میں ہمارے نظام صحت کی قلعی اتر ہوگئی اور ناکامی مقدر بنی ہوئی ہے۔دنیا سے جو مدد آرہی ہے اس پر منحصر رہنے کے بجائے اگر ہم اپنی تیاریاں بھی جاری رکھیں اور اپنے نظام صحت کے بگاڑ کو درست کریں تو ان بدترین حالات میں کچھ نہ کچھ کمی ضرور آسکتی ہے۔ بیر ونی امداد کے ساتھ ساتھ اپنی پوری توانائی اور وسائل جھونک کر بھی اگر ان حالات میں ذرا سی بھی بہتری پیدا کرسکیں تو ہمیں کرناچاہیے۔کشکول بہرحال بری چیز ہے اور اسے زیادہ دیر تک تھامے رکھ کر ہم قومی عزت و وقار کو دائو پر لگادیں گے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS