بہار کی سیاست اس وقت ایک ایسے موڑ پر کھڑی ہے جہاں ووٹ کا حق آئینی شق نہیں بلکہ بقا کی لڑائی بن چکا ہے۔ راہل گاندھی کی قیادت میں جاری ’ووٹر ادھیکار یاترا‘نے سیمانچل کی زمین کو احتجاج، سوال اور مزاحمت کے ایک بڑے اسٹیج میں بدل دیا ہے۔آج اتوار کو پورنیہ کی سڑکوں پر راہل گاندھی بلٹ موٹر سائیکل پر سوار ہوکرعوامی سیاست کو نئے روپ میں پیش کرنے کی حکمت عملی اپنائی ۔ کانگریس کے ریاستی صدر راجیش رام ان کے پیچھے بیٹھے اور تیجسوی یادو ایک دوسری بائیک پر تھوڑے فاصلے پر رہے۔ اس منظر نے کارکنوں کو نعرے اور جوش کے طوفان میں بہا دیا۔
راہل گاندھی کا یہ عوامی اوتار کوئی پہلا نہیںہے۔ وہ کبھی کسانوں کے کھیتوں میں پانی بھرے گڑھوںمیں جوتے اتار کر جا پہنچتے ہیں،کبھی مکھانہ مزدوروں کے بیچ بھٹی کے قریب بیٹھ کر ان کی محنت دیکھتے ہیں۔ بہار کی وہ زمین جو دنیا کا90 فیصد مکھانہ پیدا کرتی ہے،مگر کسان کو ایک فیصد بھی منافع نہیں ملتا،وہاں راہل گاندھی نے خود جاکر اس ناانصافی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ یہی کسان‘ جو بیشتر دلت اور پسماندہ طبقوں سے تعلق رکھتے ہیں‘اپنی ریڑھ کی ہڈی توڑ دینے والی مشقت کے باوجود محرومی کا شکار ہیں۔اس تضاد کو راہل نے اپنی تقریروں میں بار بار اجاگر کیا اور صاف کہا کہ محنت 99 فیصد بہوجن کرتے ہیں‘مگر منافع صرف 1 فیصد دلالوں کی جیب میں جاتا ہے۔
راہل گاندھی نے نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے نفاذ کے بعد بہار کو بے روزگاری کا مرکز قرار دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ بہار کے لاکھوں نوجوان روزگار کیلئے دہلی،ممبئی اور دوسرے شہروں کی طرف ہجرت پر مجبور ہیں۔ کسان قرض کے بوجھ تلے دبے ہیں،لیکن ان کے قرض معاف نہیں ہوتے،جبکہ ارب پتیوں کے ہزاروں کروڑ کے قرض باآسانی صاف کر دیے جاتے ہیں۔ ایک عام آدمی جب قرض مانگتا ہے تو بینک اس کے ساتھ تحقیرآمیز سلوک کرتا ہے اور جب اڈانی یا امبانی ہاتھ پھیلاتے ہیں تو سرکاری بینک ان پر خزانے لٹا دیتے ہیں۔ یہ عدم مساوات محض معاشی بدحالی نہیں بلکہ سیاسی بددیانتی ہے جس کے نتائج براہ راست ووٹر کے حقوق پر پڑتے ہیں۔
راہل گاندھی کا کہنا ہے کہ یہ سب اس لئے کیا جا رہا ہے کہ دلتوں اور پسماندہ طبقات کو ووٹ کے حق سے محروم کیا جا سکے۔ یہ یاترا صرف جلسے جلوس نہیں بلکہ بی جے پی اور الیکشن کمیشن کے خلاف عوامی چارج شیٹ ہے۔ میڈیا پر راہل نے جو طنز کیا وہ بھی نشانے پر تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ لاکھوں لوگ بارش اور گرمی میں سڑکوں پر نکلے ہیں،’ووٹ چور گڈی چھوڑو‘ کے نعرے گونج رہے ہیں،مگر ٹی وی اس پر خاموش ہے کیونکہ وہ غریبوں کا نہیں بلکہ ارب پتیوں کا میڈیا ہے۔
یہ تصویر واضح کرتی ہے کہ بہار کی سیاست میں اگلاایک ہفتہ کس قدر فیصلہ کن ہونے والے ہیں۔ یکم ستمبر کو پٹنہ میں جو جلسہ ہوگا وہ محض سیاسی ریلی نہیں بلکہ ووٹ کے حق پر عوامی فیصلہ ہوگا۔ دوسری طرف الیکشن کمیشن کا رویہ بھی کسوٹی پر ہے۔ اگر وہ واقعی غیر جانب دار ہے تو اسے تمام شکوک کا صحیح صحیح جواب دینا ہوگا۔ ورنہ ’ووٹ چوری‘کا نعرہ صرف بہار نہیں بلکہ پورے ملک میں بی جے پی اور کمیشن کے کردار پر سوالیہ نشان لگا دے گا۔
یہ لڑائی محض بی جے پی اور کانگریس کے بیچ نہیں،بلکہ آئین اور ووٹ کے بیچ ہے۔ اگر ووٹ محفوظ نہیں تو جمہوریت کا وجود بھی محفوظ نہیں۔ بہار کے کسانوں، مزدوروں،دلتوں اور پسماندہ طبقات کی آنکھیں اس بار صرف بیلٹ باکس پر نہیں بلکہ اس پر بھی ہوں گی کہ کیا ان کا نام ووٹر لسٹ میں باقی ہے یا نہیں۔ بہار کی سیاست کا المیہ یہ ہے کہ یہاں ہر انتخاب صرف نمائندوں کا نہیں بلکہ آئین کے مستقبل کا امتحان بن جاتا ہے۔ آج پھر وہی مرحلہ آن پہنچا ہے۔ سوال یہ نہیں کہ راہل گاندھی نے بائیک چلائی یا کھیتوں میں اترے،سوال یہ ہے کہ کیا ہندوستانی جمہوریت ووٹ کے حق کو محفوظ رکھ پائے گی یا اسے ارب پتیوں کی جیب میں گروی رکھ دیا جائے گا؟ وقت کی گھڑی بتائے گی،لیکن بہار کی مٹی ایک بار پھر تاریخ لکھنے کے دہانے پر کھڑی ہے۔
edit2sahara@gmail.com