عبدالعزیز
مسلمان کو سب سے پہلے اپنے ایمان اور اسلام کی فکر کرنی چاہئے اور اسے ہر حال میں بچانے کی کو شش کرنی چاہئے، اگر یہ دو چیزیں کسی مسلمان کے پاس ہیں پہلی تزکیہ نفس اوردوسری تطہیر قلب کے اثرات تو یقینا اس کی زندگی پراچھے اثرات مرتب ہوں گے۔ اس کو اپنے اخلاق و کر دار کو سنوارنے اور نشو و نما کرنے میں مدد ملے گی۔ ایمان کے تین درجات احادیث میں بیان کئے گئے ہیں اورآخری درجے کے ایمان کو کمزور ترین ایمان کہا گیا ہے۔ اس کے بعد رائی کے برابر بھی ایمان نہیں ہوتا۔ آخری درجے کے بعد ایمان کی سرحد ختم ہوجاتی ہے۔
تزکیہ نفس:تزکیہ نفس کے معنی ہے پاک و صاف کرنا، نکھارنا، نشو و نما کرنا، میل و کچیل صاف کرنا۔ انسانی نفس کی ہر قسم کی نجاستوں اور آلودگی سے نکھار کر صاف ستھرا کرنا یعنی اس آئینے زنگ کو دور کر کے اس میں جلا پیدا کرنا، قرآن مجید میں اللہ کے رسول ﷺ کے بارے میں چار صفات ایسے ہیں جو چار مقامات پر بیان کئے ہیں جن میں تلاوت قرآن ، تزکیہ، کتاب و حکمت کی تعلیم۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: یتلوا علیہم ایاتہ و یزکیہم و تعلمہم الکتب و الحکمۃ و ان کانوا من قبل لفی ضلال مبین۔(الجمعہ:2)
’’جو انہیں اس کی آیات سناتا ہے ، ان کی زندگی سنوارتا ہے، ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔‘‘(الجمعہ:2)
صاحبِ تفہیم القرآن نے مذکورہ آیات کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ
’’رسول اللہ ﷺ اللہ کی آیات سنا رہے ہیں جن کی زبان ، مضامین، اندازِ بیان، ہر چیز اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ فی الواقع وہ اللہ ہی کی آیات ہیں۔ وہ لوگوں کی زندگیاں سنوار رہے ہیں، ان کے اخلاق اور عادات و معاملات کو ہر طرح کی گند گیوں سے پاک کر رہے ہیں اور ان کو اعلیٰ درجے کے اخلاقی فضائل سے آراستہ کر رہے ہیں۔ یہ وہی کام ہے جو اس سے پہلے تمام انبیاء کرتے رہے ہیں۔ پھر وہ صرف آیات ہی سنانے پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ ہر وقت اپنے قول و عمل سے اور اپنی زندگی کے نمونے سے لوگوں کو کتابِ الٰہی کی منشا سمجھا رہے ہیں اور ان کو اس حکمت و دانائی کی تعلیم دے رہے ہیں جو انبیاء کے سوا آج تک کسی نے نہیں دی ہے۔ یہی سیرت اور کر دار اور کام ہی تو انبیاء کے وہ نمایاں اوصاف ہیں جس سے وہ پہچانے جاتے ہیں۔‘‘
امام حمید الدین فراہی ؒ نے اپنی کتاب’’ حکمتِ قرآن‘‘ میں اللہ کے رسولؐ کی چار صفات کے بارے میں لکھا ہے کہ آپؐ کی یہ چار صفات قرآن مجید میں چار مواقع پر آئی ہیں۔ پہلی مرتبہ ان کا ذکر سورہ بقرہ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس دعا میں ہے جو انہوں نے نبی کریمؐ کی بعثت اور آپ کی امت کے بارے میں کی تھی۔ اس دعا میں تزکیہ کا ذکر باقی صفات کے بعد ہوا ہے، جب کہ تین مواقع میں تزکیہ کو تلاوت آیات کے بعد اور تعلیم کتاب و حکمت سے پہلے جگہ دی گئی ہے۔ ان تینوں مواقع پر بغیر کسی فرق کے اسی ترتیب کا لحاظ رکھا گیا ہے جو شخص اس فرق پر غور کرے گا تو اس پر یہ بات مخفی نہیں رہ سکتی کہ یہاں تزکیہ اصل مقصود ہے جس کو پانے کے لئے کئی منزلیں طے کرنی پڑتی ہیں۔ اس لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا میں اس کو مؤخر کر دیا ہے۔ رہا دوسری آیات میں اس کو تعلیم اورکتاب و حکمت پر مقدم رکھنا تو یہ حضور ﷺ کی اصل ذمہ داری کو نمایاں کرنے کے لئے ہے۔‘‘
امام فراہی ؒ کے شاگرد مولانا امین احسن اصلاحیؒ نے اپنی کتاب ’’ تزکیہ ٔ نفس ‘‘میں قرآن مجید کے چار مقامات پر چار آیتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انبیائے کرام کی بعثت سے پہلے اللہ تعالیٰ کا حقیقی مقصود نفوس، انسانی تزکیہ ہے۔ موصوف اس کے لئے بطور دلیل فرماتے ہیںکہ نبی اکرمؐ کی بعثت کا اصلی مقصدکیا ہے، اس کی حیثیت سے جس چیز کا ذکر ہوا ہے وہ تزکیہ ہے۔ باقی اس کے ساتھ دوسری چیزیں تلاوت ِ آیات ، تعلیم کتاب و حکمت جو مذکورہ ہوئی ہیں وہ اصلی مقصد کی حیثیت سے نہیں بلکہ اصلی مقصد کے وسائل اور ذرائع کی حیثیت سے مذکورہ ہوئی ہیں۔ موصوف آگے لکھتے ہیںکہ نبیؐ کی تمام جدو جہد اور ان کی تمام سر گرمیوں کا محور و مقصود اصل تزکیہ ہی ہے۔ کیونکہ اصل مقصد کی ہی اہمیت ہوتی ہے کہ وہ شروع میں بھی ایک کام کرنے والے کے پیش نظر ہوتا ہے اور آخر میں بھی وہی اس کی تمام سرگرمیوں کا نقطہ اختتام بھی ہوتا ہے۔ وہیں سے وہ اپنا سفر شروع کرتا ہے اور وہیں اس کو ختم بھی کرتا ہے۔‘‘ (ص:22)
مولانا سید سلیمان ندویؒ نے اپنی مشہور آفاقی کتاب’’ سیرت النبیؐ‘‘ میں ’’اسلام اور اخلاقِ حسنہ‘‘ کے باب میں تزکیہ کا ذکر کیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی درج ذیل حدیث کا بھی ذکر کیا ہے۔’’ میں حسنِ اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہوں۔‘‘( موطاامام مالک حسنِ اخلاق)
میرے خیال سے تزکیہ یا تطہیرِ قلب اور تعمیر ِ اخلاق ہی کے ذرائع اور سائل ہیں۔ علامہ سید سلیمان ندویؒ نے بادشاہ نجاشی کی دربار میں حضرت جعفر طیارؓ کی اس تقریر کا ذکر کیا ہے، جسے انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کی ہے۔ تقریر کے چند فقرے :
’’ اے بادشاہ! ہم لوگ ایک جاہل قوم تھے، بتوں کو پوجتے تھے، مردار کھاتے تھے، بدکاریاں کرتے تھے، ہمسایوں کو ستاتے تھے، بھائی بھائی پر ظلم کرتا تھا، زبر دست زیر دستوں کو کھا جاتے تھے، اس اثناء میں ایک شخص ہم میں پیدا ہوا، اس نے ہم کو سکھایا کہ ہم پتھروں کو پوجنا چھوڑ دیں، سچ بولیں، خونریزی سے باز آئیں، یتیموں کا مال نہ کھائیں، ہمسایوں کو آرام دیں، پاک دامن عورتوں پر بدنامی کا داغ نہ لگائیں۔‘‘
مولانا سید سلیمان ندویؒ نے سیرت النبیؐ میں تزکیہ کے لفظی معنی لکھنے کے بعد سورہ الشمس، سورہ اعلیٰ اور سورہ عبس کی آیتوں کے حوالے سے کہا ہے کہ ان آیتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ’’ قرآن پاک میں تزکیے کا کیا مفہوم ہے، جس کو انہوں نے پیغمبر اسلامؐ کی خاص خصوصیت قرار دی ہے، اس سے یہ بھی معلوم ہوتا کہ محمد رسول اللہؐ کی نبوت اور رسالت کا سب سے بڑا فریضہ بھی یہی تھا کہ وہ نفوسِ انسانی کو جلابخشیں، ان کو برائیوں اور نجاستوں کی آلودگی سے پاک کریں اور ان کے اخلاق و اعمال کو درست و صاف ستھرا بنائیں۔ چنانچہ جو واقعات رسول اللہؐ کے ساتھ ر ونما ہوئے ہیں اکثر و بیشتر ثابت ہوتا ہے کہ دوست اور دشمن دونوں آپ کی ان خصوصیت کے قائل تھے۔‘‘
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ’’ قد افلح من زکٰھا وہ قد خاب من دسٰھا۔‘‘۔ یقینا فلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا وہ جس نے اس کو دبا دیا۔( سورہ الشمس، آیت:9-10)
مولانا سید ابو الا علیٰ مودودی ؒ مذکورہ آیتوں کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ’’تزکیہ کے معنی ہیں پاک کرنا، ابھارنا اور نشو ونما دیناسیاق وسباق سے اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ جو اپنے نفس کو فجور سے پاک کر ے، اس کو ابھار کر تقویٰ کی بلندی پر لے جائے اور اس کے اندر بھلائی کو نشو ونما دے وہ فلاح پائے گا۔ اس کے مقابلے میں دَسٰھَاکا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کے معنی دبانے، چھپانے، اغوا کر نے اور گمراہ کر دینے کے ہیں۔ سیاق و سباق سے اس کا مطلب بھی واضح ہو جاتا ہے کہ وہ شخص نامراد ہو گا جو اپنے نفس کے اندر پائے جانے والے نیکی کے رجحانات کو ابھارنے اور نشوونما دینے کے بجائے ان کو دبادے، اس کو بہکا کر برائی کے رجحانات کی طرف جائے اور فجور کو اس پر اتنا غالب کر دے کہ تقویٰ اس کے نیچے اس طرح چھپ کر رہ جائے جیسے ایک لاش قبر پر مٹی ڈال دینے کے بعد چھپ جاتی ہے ۔مولانا امین احسن اصلاحی کی ایک کتاب’’ تزکیہ نفس‘‘ جس کا تذکرہ مضمون کے اوپرکی سطروں میں آچکا ہے، بہت ہی جامع کتاب لکھی گئی ہے جو مرکزی مکتبہ اسلامی ، پبلشرز ، نئی دہلی-25 سے شائع ہوئی ہے۔ اس کتاب میں تزکیہ نفس پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے اور بعد میں تزکیہ عمل پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ ایک مختصر سے مضمون میں اس کی گنجائش نہیں ہے کہ تزکیہ عمل پر روشنی ڈالی جائے۔
تطہیرِ قلب: علمائے کرام نے دلوں کی تطہیر اور ان کے تزکیہ کے بارے میں لکھا ہے کہ اللہ کے یہاں اس کے لئے ایک خاص ضابطہ ہے کہ ’’جو لوگ نیکی اور تقویٰ کی راہ پر چلتے ہیں اگر اثناء راہ میں ان کو کوئی ٹھو کر لگ جاتی ہے، وہ گرپڑتے ہیں، لیکن گرنے کے بعد پھر اٹھ کھڑے ہو تے ہیں اور توبہ و اصلاح کے ذریعہ سے دامن جھاڑ کے پھر چل کھڑے ہو تے ہیں تو خواہ ہزار بار گریں اور اٹھیں، لیکن ان کے دامن دل پر میل جمنے نہیں پا تا، اللہ ان کی توبہ و اصلاح کو ان کے لیے کفارہ ٔسیات بناتا رہتا ہے۔ لیکن جو لوگ برائی اور نافرمانی ہی کو اپنا پیشہ بنا لیتے ہیں اور گنا ہوں کی کیچڑہی میں لت پت رہنے میں لذت و راحت محسوس کر تے ہیں، آہستہ آہستہ ان کے دلوں پر اتنی سیاہی جم جاتی ہے کہ ان پر کوئی صیقل بھی کار گر نہیں ہوتا، پھر خدا انہیں جہنم کی بھٹّی ہی کے لیے چھوڑ دیتا ہے ‘‘۔
رسول اللہؐ کی مشہور حدیث ہے : ’’مومن جب کوئی گناہ کر بیٹھتا ہے تو اس کے سبب اس کے دل پر ایک سیاہ دھبّا پڑجاتا ہے۔ پھر اگر وہ توبہ کر لیتا ہے، اس گناہ سے باز آجاتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ لیتا ہے تو اس کے دل کا وہ دھباّ صاف ہو جاتا ہے۔ اور اگر اس کے گناہوں میں اضافہ ہو تا رہتا ہے یہاں تک کہ ان کی سیاہی اس کے پورے دل پر چھا جاتی ہے تو یہی وہ رین ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ’’ ہرگز نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال کی سیاہی چھاگئی ہے ‘‘۔(المطففین:41)
قلبِ سلیم تمام بھلائی کا سر چشمہ اور بذات خود بڑی نعمت ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ’’ جس دن نہ مال کام آئے گا اور نہ اولاد بجز اس کے کہ کوئی صحیح سالم دل لے کر خدا کے پاس آیا ہو۔‘‘ ایک حدیث جو حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے، جس میں حضورؐ نے تقویٰ کامبداء اور مستقر دل کو قرار دیا ہے۔ تقویٰ یہاں ہے تین باراپنے سینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:علامہ محمد بن ابی بکر ابن القیم الجوزیہ تحریرفرماتے ہیں ،بلا شک وریب چاندی اورتانبے کی طرح دل بھی زنگ آلود ہوجاتا ہے اور اس کی صفائی اللہ کے ذکر سے ممکن ہے ،ذکر الٰہی دل کو( صیقل کرکے) چمکتے ہوئے آئینہ کی طرح کردیتا ہے اور جب ذکر کو ترک کردیا جاتا ہے تو دل پھر زنگ آلود ہوجاتا ہے۔جب کہ زنگ لگنے کے دوسبب ہیں:1: غفلت ، 2:گناہ
اور زنگ آلود دل کی صفائی کے بھی دوطریقے ہیں :1- استغفار ،2-اللہ رب العزت کا ذکر ۔
کثر ت غفلت سے قلب انسانی پردبیز تہہ جم جاتی ہے اور جب قلب زنگ آلود ہوجاتا ہے تو معلومات کی حقیقی تصاویر اس میں منعکس نہیں ہوتیں۔پھر اس وجہ سے اس کے نزدیک حق وباطل میں تمیز نہیں رہتی ،وہ حق کو باطل اور باطل کو حق سمجھنے لگتا ہے۔ کیونکہ جب اس کے دل پر تہہ درتہہ زنگ جم جاتا ہے تو اسکا دل تاریک ہوجاتاہے یہاں تک کہ حقائق کی اصل تصاویر اْس پر ظاہر ہی نہیں ہوتیں۔پھر مزید سیاہ ہوکر اس پر ’’رین ‘‘جم جاتا ہے۔اس کا تصور اورادراک فاسد ہوجاتا ہے۔جس کی وجہ سے وہ نہ تو حق کو قبول کرتا ہے اور نہ ہی باطل کا انکار کرتا ہے اور یہ دل کے لیے سخت سزا ہے اور اس کا سبب غفلت اور خواہشات نفسانی (کی کثرت) ہے۔ کیونکہ یہ دونوں چیزیں دل کے نور کو مٹا کر بصیر ت کو اندھا کردیتی ہیں جیسا کہ اللہ رب العز ت کا ارشادہے’’اور نہ پیروی کیجئے اس (بدنصیب)کی جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے اوروہ اپنی خواہش ( نفس )کی پیروی کرتا ہے اور اس کا معاملہ حد سے گزرگیاہے۔ (الکھف۔82)(الوابل الصیب )
امام فخر الدین رازی تحریر فرماتے ہیں :جہنم میں داخل ہونے کا سبب اللہ کے ذکر سے غفلت ہے اور عذاب جہنم سے چھٹکارا اللہ کے ذکر سے ہی ممکن ہے۔ اصحاب ذوق و محبت فرماتے ہیں ،جب دل اللہ کے ذکر سے غافل ہوجاتا ہے اور دنیا اور اس کی خواہشات کی طرف متوجہ ہوکر حرص میں پڑجاتا ہے اور پھر وہ ایک رغبت سے دوسری رغبت کی طرف اور ایک طلب کی طرف سے دوسری طلب کی طرف منتقل ہوتا رہتا ہے۔حتیٰ کہ تاریکیوں میں گر جاتا ہے لیکن جب انسان کے دل پر اللہ کے ذکر اور معرفت کا دروازہ کھولتا ہے تو ان تمام آفات اورمصائب سے نجات مل جاتی ہے اور اللہ رب تعالیٰ کی معرفت کا شعور حاصل ہوجاتا ہے۔ (تفسیر کبیر)
مگر ان صحیح اور پاکیزہ امور کے ساتھ بھی وہی معاملہ پیش آیا جو دوسرے اسلامی علوم و افکار کے ساتھ پیش آیا۔ چنانچہ ان امور نے بھی باقاعدہ ایک علم کی شکل اختیار کرلی اور اس کا موضوع یہ ٹھہرا کہ وہ علم ہے جو انسان کے اخلاق و کر دار کو ہموار کرتا ہے اور اس کے لئے زندگی کا ایک مخصوص طرز وضع کرتا ہے۔ اس مخصوص طرز کے مراحل ذکر، عبادت اور معرفت خدا وندی ہیں اور اس کی غایت جنت کا حصول اور اللہ کی رضا جوئی ہے۔ علم تصوف کی یہ قسم جسے میں ’’علوم تربیت وسلوک‘‘ کا نام دیتا ہوں۔ بلا شبہ اسلام کا لب لباب اور اس کا مغز و جوہر ہے اور بلا شبہ صوفیائے کرام نے اس علم کی بدولت قلوب کے علاج و اصلاح اور تہذیب و تزکیہ میں اونچا مقام حاصل کرلیا ہے کہ دوسرے ماہرین تربیت و اصلاح کے اس مرتبے تک ہر گز نہیں پہنچ سکے۔ صوفیاء نے اس اسلوب کی مدد سے لوگوں کو اللہ کے بتائے ہوئے فرائض ادا کرنے، اس کے نواہی سے اجتناب کرنے اور اس کے ساتھ سچی توبہ رکھنے کا ایک عملی نمونہ اور منصوبہ بتایا اور اس پر چلایا گو اکثر و بیشتر حالات میں یہ منصوبہ مبالغہ آرائی سے محفوظ نہیں رہا۔‘‘(ص:130-131) ٭٭