عبیداللّٰہ ناصر
شام میں بشار الاسد کی حکومت کے زوال سے وہاں گزشتہ چھ دہائیوں سے جاری ظالم آمریت کا خاتمہ ضرور ہوگیا ہے لیکن اس کے جو دوررس نتائج برآمد ہوں گے، وہ عالم عرب اور عالم اسلام کیلئے مستقبل قریب میں خوش آئند نہیں ہوںگے۔ ایران کی ایٹمی تنصیبات پر خطرہ بڑھا ہے جبکہ فلسطینی مزاحمت کمزور ہوگی۔ایسا نہیں کہ بشار الاسد کوئی مرد مجاہد تھے جو عالم اسلام یا عالم عرب یا فلسطینی مزاحمت کے لیے سینہ سپر رہے ہوں لیکن ان کی موجودگی کی وجہ سے ایران کو حماس اور حزب اللہ کو اسلحہ اور دیگر امداد پہنچانے کا راستہ ملاہوا تھا جو اب بند ہوگیا ہے۔ دوسری طرف اسرائیل نے بشار الاسد کے فرار ہونے کے بعد تابڑ توڑ حملے کر کے شام کی رہی سہی فوجی طاقت بھی ختم کر دی ہے تاکہ شام کے نئے حکمرانوں کے ہاتھ میں وہ اسلحہ نہ لگیں جو وہ اسرائیل کے خلاف استعمال کر سکیں۔ اتنا ہی نہیں اسرائیل نے مقبوضہ اور الحاق شدہ گولان پہاڑیوں میں آباد اسرائیلی شہریوں کی تعداد دوگنی کر دینے کا فیصلہ کیا ہے اور اس کے لیے اسرائیلی کابینہ نے ایک کروڑ 10 لاکھ ڈالر کی ابتدائی رقم مختص کر دی ہے۔ ظاہر ہے اسرائیل کے اس قدم سے کئی دہائیوں سے مصائب میں گھرے عوام کے لیے مزید مشکلات پیدا ہوں گی اور مغربی ایشیا میں امن اور استحکام خواب ہی رہ جائے گا۔ گولان کی ان پہاڑیوں میں زیادہ تر دروز قبیلہ کے لوگ آباد ہیں جو شامی عرب ہیں۔گولان پر اسرائیل نے 1967کی جنگ میں قبضہ کر لیا تھا اور عالمی برادری کے دباؤ نیز سلامتی کونسل کی قرار داد کے باوجود اسے 1981 میں اسرائیل میں قانونی طور سے شامل کر لیا تھا۔ عالمی برادری نے اسرائیل کے اس اقدام کی مخالفت کی تھی مگر امریکہ نے اسے تسلیم کر لیا تھا۔اس طرح وسیع تر اسرائیل کا صہیونی خواب حقیقت بننے کی جانب ایک قدم اور آگے بڑھ گیا ہے۔ حسب دستور عرب ملکوں نے اسرائیل کے اس فیصلہ کی مذ مت کی ہے اور کہا ہے کہ شام کی علاقائی خود مختاری کا احترام کیا جانا چاہیے۔ بیچارے عرب حکمران اس سے آگے اور کچھ کر بھی نہیں سکتے، زبانی جمع خرچ کے علاوہ ان کے پاس اور ہے ہی کیا ؟
یہاں ایک غلط فہمی کا ازالہ ضروری ہے جو بر صغیر کے مسلمانوں میں پھیلی ہوئی ہے اور وہ بشار الاسد کے زوال کو ایران اور شیعوں کی شکست کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ بشارالاسد اور ان کے نصیری قبیلہ کو شیعہ مسلک کی کوئی شاخ سمجھا جاتا ہے جبکہ حقیقت میں وہ مسلمان ہی نہیں ہے کیونکہ نہ وہ وحدانیت کے قائل ہیں اور نہ ہی قیامت پر ان کا اعتقاد ہے بلکہ وہ ہندوؤں کی طرح روح کے آواگمن پر اعتقاد رکھتے ہیں۔ شام میں مختلف قبائل ہیں جن میں ایک قبیلہ نصیریوں یا علویوں کا بھی ہے جو وہاں کی کل آبادی کا 5-10فیصد کے آس پاس ہی ہے۔ بشار کے والد حافظ الاسد جب شام کے وزیر دفاع ہوئے تو انہوں نے فوج میں اپنے قبیلے کے لوگوں کو بھر دیا۔ 1967کی جنگ میں شامی فوج نے بنا کسی خاص مزاحمت کے گولان کی پہاڑیاں خالی کر دی تھیں جس پر اسرائیل کا قبضہ ہو گیا۔ جنگ کے خاتمہ کے بعد جب یہ معا ملہ اٹھا تو صدر نور الدین العطاشی نے جانچ کا حکم دیا، جواب میں حافظ الاسد نے اپنے وفادارعلوی فوجیوں کی مدد سے ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور خود صدر بن بیٹھے اور پھر تاحیات آہنی ہاتھوں سے شام پر حکومت کی اور انتقال سے پہلے لندن میں زیر تعلیم اپنے ڈاکٹر بیٹے بشار الاسد کو حکومت سونپ دی۔ لندن میں تعلیم یافتہ اور وہاں کے سیاسی کلچر سے بخوبی واقف بشارالاسد سے امید تھی کہ وہ شام میں ایک نئے دور کا آغاز کریں گے اور ملک میں حقیقی جمہوری نظام نافذ کریں گے، لیکن وہ بھی اپنے مرحوم باپ اور دیگر عرب ڈکٹیٹروں کی طرح ہی سفاک و ظالم نکلے اور اپنے باپ کی طرز حکومت کو ہی بحال رکھا۔2011میں جب تیو نیشیا سے عرب بہاریہ کا آغاز ہوا اور کئی عرب ڈکٹیٹر اس کی زد میں آئے تو شام میں بھی بغاوت شروع ہو گئی اور بشارالاسد نے ایران اور روس کی مدد سے اسے بے رحمی سے کچلا لیکن اب انجام سامنے ہے۔
صحیح معنوں میں دیکھا جائے تو بشار الاسد بہت ہی ظالم ہی نہیں، بہت کائیاں قسم کا انسان تھا، وہ ایران اور اسرائیل دونوں کو اپنے مفاد میں استعمال کرتا تھا، یہی وجہ ہے کہ اسرائیل نے اس کے دور میں کبھی شام کے فوجی تنصیبات اور اس کی فوج کونشانہ نہیں بنایا بلکہ وہ شام کی سرزمین پر موجود ایرانی تنصیبات اور وہاں تعینات ایرانی افسران کو ہی نشانہ بناتا تھا۔ اس نے بڑی چالاکی سے خود کو پیچھے ہٹا کر اسرائیل اور ایران کو لڑوا دیا تھا۔ امریکہ اور شاید اسرائیل بھی ویسے توباغیوں کی مدد کرتے تھے لیکن بشار الاسد کی حکومت کا زوال بھی نہیں چاہتے تھے، وہ شام کو خانہ جنگی میں الجھائے رکھ کر اسرائیل کو تحفظ فراہم کرنا چاہتے تھے، اس کے لیے بشارالاسد اس کا بہترین مہرہ تھے۔ ترکیہ کے وزیر خارجہ نے بھی انکشاف کیا ہے کہ جوبائیڈن جب 7سال قبل اسرائیل ہوتے ہوئے ترکیہ آئے تھے تو انہوں نے کہا تھا کہ ہم نہیں چاہتے کہ اسد شام سے چلے جائیں، اس وقت ہم سمجھ گئے تھے کہ یہ امریکہ نہیں بلکہ اصل میں اسرائیل کی خواہش ہے جسے جو بائیڈن بول رہے ہیں۔
شام میں بشار الاسد کے فرار ہونے اور باغیوں کی حکومت کے قیام کے بعد بڑے پیمانہ پر بدلے کی کارروائی اور تشدد کا جو خطرہ تھا، وہ دور ہو گیا اور نئے باغی حکمرانوں نے بدلے کی کارروائی کے بجائے ملک میں استحکام کو ترجیح دی جوخوش آئند ہے، ورنہ عرب اور مسلم ملکوں کے ریکارڈ اس معاملہ میں بے حد داغدار رہے ہیں۔یہاں تک کہ شام میں مقیم فلسطین کے وہ مزاحمتی گروپ جو بشار الاسد کے ساتھ تھے اور گز شتہ پانچ دہائیوں سے ان کی البعث پارٹی سے وابستہ ہی نہیں رہے بلکہ بشار کی فوج کے ساتھ باغیوں کے خلاف فوجی کارروائی میں بھی شرکت کی تھی صرف حماس ان سے الگ تھا اور تنظیم آزادی فلسطین(پی ایل او) کا دفتر حسب معمول کام کر رہا ہے۔اطلاعات کے مطابق فلسطین کے ان سبھی مزاحمتی گروپوں نے کہا ہے کہ شام کے نئے حکمرانوں سے انہیں کوئی پریشانی نہیں ہو رہی ہے۔ان لوگوں نے دمشق کے نواح میں قائم اپنے تربیتی کیمپ خالی کر دیے ہیں اور اپنا اسلحہ بھی وہیں چھوڑ دیا ہے جو باغیوں کے ہاتھ لگ گیا ہے۔
شام کے نئے نظام کو فی الحال روس اور ایران کو چھوڑ کر دنیا بھر سے تعاون مل رہا ہے، برطانیہ نے 50ملین پونڈ کے امدادی پیکیج کا اعلان کیا ہے، ترکیہ اور قطر نے شام میں اپنے اپنے سفارتخانہ بحال کر دیے ہیں، ترکیہ نے تو نئی عبوری حکومت کو اسلحہ فراہم کرنے کا بھی عندیہ ظاہر کیا ہے۔ ترکیہ کے وزیر دفاع نے کہا ہے کہ ان کا ملک شام کے حالات پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ انہوں نے شام کی نئی حکومت کے سربراہ کے اس بیان کوامید افزا بتایا ہے کہ شام میں تمام اداروں کا احترام کیا جائے گا اور اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا۔ ادھر امریکہ نے بھی شام پر عائد پابندیوں کواٹھا لینے کا اعلان کیا ہے اور عبوری حکومت کو ہر ممکن تعاون دینے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ امریکی خارجہ سیکریٹری بلنکن نے کہا ہے کہ امریکی انتظامیہ ھئیۃ تحریر الشام سے مستقل رابطہ میں ہے ۔ا نہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم شام کے حالا ت پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور اگر وہاں کی نئی حکومت نے عالمی قوانین کی پابندی نہ کی توہم پھر پابندیاں عائد کر دیں گے ۔
بشار الاسد کے زوال سے فی الحال یہ ضرور ہوا ہے کہ ایران کی ایٹمی تنصیبات پر اسرائیلی حملے کا خطرہ بڑھ گیا ہے جو ایک بڑی جنگ کا پیش خیمہ بھی ہوسکتا ہے کیونکہ اگر اسرائیل نے یہ حماقت کی تو ایران بھی اس کا منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے اور پھر یہ جنگ لمبی کھنچ سکتی ہے، جس کے معاشی مضمرات پوری دنیا پر اثر انداز ہوں گے۔ دوسرے فلسطین کی مزاحمت بہت کمزور ہو جائے گی کیونکہ حماس اور حزب اللہ کو اب ایران سے ویسی مدد نہیں مل سکے گی یعنی آزاد اور خود مختار فلسطینی مملکت کا خواب جس کی راجدھانی یروشلم ہو، اب مستقبل قریب کے مستقبل بعید میں بھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکے گا جبکہ وسیع تر اسرائیل کا صہیونی خواب حقیقت سے چند قدم اورنزدیک ہوگیا ہے۔ ویسے بھی ٹرمپ کہہ چکے ہیں کہ اسرائیل بہت چھوٹا ملک ہے اور اس کی سرحدوں کی توسیع ہونی چاہیے۔دیکھیں یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔