پڑوسی ملک بنگلہ دیش میں سال رواں کے اوائل میں عام انتخابات ہوئے تھے اور شیخ حسینہ زبردست کامیابی کے ساتھ برسراقتدار آئی تھیںوہ چوتھی مرتبہ الیکشن جیت کر اقتدار میں آئی تھیں، لیکن اپنی چوتھی میقات میں انہوںنے رویے کی تبدیلی کے بجائے اور سختی پیدا کرلی۔ اپوزیشن جس کو وہ دوسری ٹرم میں ہی فنا کرچکی تھیں کے ساتھ ان کا کوئی مذاکرہ، کوئی مکالمہ ، کوئی ملاقات نہیںتھا۔
انہوںنے اپنے پرانے انداز کو دہراتے ہوئے ایسے غیر معقول اقدام کیے جس سے ان کے خلاف زبردست ناراضگی پیدا ہوئی۔ انہوںنے 1971میں بنگلہ دیش کی آزادی میں سرکردہ رول ادا کرنے والے افراد کے اہل خانہ کو ملازمتوں میں 30فیصد ریزرویشن دینے کا اعلان کردیا۔ یہ اعلان بغیر دوراندیشی صلاح ومشورہ سے کیا گیا تھا اور اس اقدام سے ان کی خود کی سیاسی جماعت اوران سے ہمدردی رکھنے والے عوام کو فائدہ پہنچانے کی نیت سے کیا گیا تھا۔ ظاہر ہے کہ چھوٹے سے ملک میں جہاں کی معیشت ایک پڑائو کے بعد کئی لگاتار بحرانوں سے دوچار ہیں وہاں پر ایسا اقدام عام آدمی کو مشتعل کرنے والا تھا اس اعلان کا براہ راست اثر نوجوانوں پر پڑا ۔ خاص طور پر طلبا کو لگا کہ اگر یہ قانون نافذ ہوجاتا ہے تو ان کی زندگی کے آگے اندھیرا چھا جائے گا اوران کے روزگار کے امکانات کم ہوجائیں گے۔
خیال رہے کہ بنگلہ دیش کی کئی سیاسی پارٹیاں اور خاص طور پر بنگلہ دیش کی نیشنلسٹ پارٹی یعنی پر شیخ حسینہ انتخابات میں حصہ نہیں لے رہی ہیں ان پارٹیوں کی شکایت ہے کہ حکمراں لیگ قانون میں بڑی تبدیلی کرکے آزادانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کا دروازہ بند کردیا ہے اور اس سے حکومت کی مشینری او راس کے حامیوں کی دھاندلی کے امکانات وسیع ہوگئے ہیں اور ہوا بھی یہی کہ اپوزیشن کی غیر موجودگی میں حکمراں عوامی لیگ لگاتار چار مرتبہ سے بغیر کسی مقابلہ کے الیکشن جیت رہی ہے اور پورے سماج پر اس نے ایسی گرفت بنا لی ہے یا آزادانہ فکر رکھنے والے سیاست دانوں اور رضاکاروں کا کام کرنا مشکل ہوگیا۔
شامت اعمال یہ کہ سرکاری مشینری میں اس قدر کرپشن بڑھ گیا کہ اس سے عوام آدمی کے مسائل بڑھتے چلے گئے۔ ابتدائی چند سالو ںمیں تو ایسا لگا کہ شیخ حسینہ واجد اقتصادی ترقی کی پالیسیاں کارگر ہیں اور غیر متوقع طور پر بنگلہ دیش کا شمار ایشیا کی موثر اور مضبوط معیشتوں میں ہونے لگا۔ مگر بعد ازاں کرپشن میں اضافے اور سرکاری دفاتر میں شکایات نہ سنے جانے کی وجہ سے بدنظمی پیدا ہوئی جس کے نتائج مختلف سانحات اور حادثات میں نظرآنے لگے۔
مگر ان سب کے باوجود شیخ حسینہ واجد کی فتوحات اور ترقیات کا سلسلہ چلتا رہا اور الیکشن کے چند ماہ بعد ہی انہوںنے 30فیصد ریزرویشن دے کر بنگلہ دیش کے سب سے طاقتور نوجوان اور طلبا کے شعور کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اگرچہ سپریم کورٹ نے اپنی مداخلت کرکے ریزرویشن کو گھٹا کر 5فیصد کردیا مگر اس کے باوجود بھی عوام میں شیخ حسینہ کے خلاف اس قدر ناراض تھے کہ طلبا کی تحریک عوامی تحریک میں تبدیل ہوگئی۔ طلبا کے ہڑتال شروع ہونے سے تین ہفتوں کے اندر اندر 300سے زیادہ لوگوں کا ماراجانا اور خاص طو ر پر اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ہلاکت نے پہلے سے بھری بیٹھی عوام کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ۔ طلبا یونینوں نے ریزرویشن کم کیے جانے کے بعد بھی اپنی تحریک جاری رکھی ۔ طلبا کا مطالبہ تھا کہ حکومت نے تحریک کو دبانے کے لیے جو ظالمانہ اقدام کیے تھے ان کا ازالہ کیا جائے۔
حکومت معافی مانگے ۔ جن لوگوں کو تین ہفتے کی اس تحریک کے دوران گرفتار کیاگیا تھا، رہا کیا جائے۔ مہلوکین کو معاوضہ دیا جائے اور عوامی لیگ کی طلبا شاخ جو احتجاج کررہے ہیں وہ طلبا کے خلاف بدترین تشدد میں ملوث تھی ان کے خلاف کارروائی کی جائے اور اس کو کالعدم قرار دیا جائے۔ شیخ حسینہ واجد لگاتار عوام سے کٹ رہی تھیں ان کے طور طریقوں سے ڈکٹیٹر شپ کی بو آرہی تھی ۔
شیخ حسینہ نے سختی کے ساتھ اس تحریک کو کچلنے کی کوشش کی مگر اس کا الٹا ہی اثر ہونے لگا۔ یہ تحریک اور مضبوط ہوتی چلی گئی ۔ بڑی تعداد میں سرکاری عملے اور پولیس اہلکار اور نیم فوجی دستوں کے ذریعہ نوجوان کی ہلاکت کو دیکھتے ہوئے فوج کی ایک بڑی تعداد نے اس کی مخالفت کی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ معزول وزیر اعظم نے فوج کے سربراہ جنرل وقار کو بھی بدلنے کی کوشش کی جو ناکام کردی گئی۔ عوامی ناراضگی کی کئی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی بتائی بھی جاتی ہے کہ اس ہنگامہ آرائی میں حسینہ نے ہندوستان اور چین کا دورہ کیا جس سے یہ تاثر ملا کہ ان کو ملک کی حالات کی بالکل پروا نہیں اور حالات اتنے بگڑے کہ مشتعل طلبا نے سرکاری دفاتر وزراء اور وزیر اعظم کے گھروں ، دفاتروں اور یہاں تک کہ پارلیمنٹ ہائوس تک پر بھی حملہ کردیا۔ یہی وہ صورت حال تھی جس سے فرار ہو کر شیخ حسینہ بھاگی تھیں۔ کچھ خبروں میں یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ ہندوستان آنے سے پہلے امریکہ او ربرطانیہ کے دروازے پر دستک دی تھی مگر دونوں ملکوں نے قبول کرنے سے انکار کردیا ۔ واضح رہے کہ ان دونوں ممالک سمیت پوری مغربی دنیا نے شیخ حسینہ کے طور طریقوں پر نکتہ چینی کی تھی وہ زور ڈال رہے تھے کہ ملک میں غیر جانبدارانہ اور آزادانہ طور پر انتخابات کرائے جائیں۔
rvr
بنگلہ دیش: کیا پھر تاریخ دہرائی جارہی ہے
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS