تنگ نظری، مفاد پرستی اور حقیر مفادات کے لئے بنائی گئی ریاستوں اورملکوں کا انجام ہمیشہ اچھا نہیں رہتا۔ یہ بات 1947 اور 1971 میں ثابت ہوئی۔ جب ایک عظیم ہندوستان کو مذہبی بنیاد پر تقسیم کرنے کی کوشش کی گئی تو پورے ملک میں فرقہ وارانہ منافرت اور سیاسی اتھل پتھل دیکھنے کوملا۔ اس کا نتیجہ 1947میں دیکھا گیا جب مذہبی بنیادوں پر اس عظیم ملک کو تقسیم کردیا گیا۔ یہ تقسیم کئی اعتبار سے غلط اور غیرسائنٹفک تھی۔ مذہبی بنیاد پر ملکوں کو بنایا تو جاسکتا ہے مگر یہ ممالک سماجی، اقتصادی اور دیگر لحاظ سے وہ ترقی نہیں کرپاتے جو غیر منقسم اور مل جل کر ساتھ رہنے والے معاشروں میں دکھائی دیتی ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ انگریزوں نے وہ تمام سرزمینیں ، علاقے اور ممالک کو اپنے سامراج کی گرفت میں لے لیا تھا، ان کو آزاد کرتے کرتے ایسے زخموں سے دوچار کیا جوکہ آج تک نہیں بھرپائے ہیں۔ اس میں ہم مغربی ایشیا کی پوری سیاست اور برصغیر ہندوپاک کی تاریخ کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ غیرمنقسم ہندوستان کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو اندازہ ہوگا کہ یہ خطہ کس قدر وسائل سے دوچار تھا۔ 1947سے قبل اور اس سے بھی پہلے 1857 سے قبل ہندوستان کی معیشت کتنی مضبوط، سماج جتنا متنوع تھا اتنا دنیا کا شاید ہی کوئی خطہ رہا ہو۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ ہندوستان کے عظیم دانشور ششی تھرور نے آکسفورڈ یونیورسٹی میں اپنی تقریر میں برطانیہ اور دیگر سامراجی طاقتوںکو آئینہ دکھاتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ممالک اپنی طاقت کے بل پر برصغیر ہندوستان میں اپنے پنجے گاڑنے کے بعد انہوں نے سب سے پہلا کام یہاں کی معیشت اور خوشحال سماج کو برباد کیا۔ ششی تھرور نے کس قدر واضح انداز میں عالمی برادری کی توجہ برطانوی سامراج کی غیرانسانی حرکتوں کی طرف دلائی تھی۔ مغلوں کے زوال سے قبل ہندوستان ایک بڑی معیشت تھا۔ یہ بات انہوں نے اپنی ایک کتاب میں کہی۔
بہرکیف 1947 میں ہندوستان تقسیم ہوا اور ایک ملک پاکستان معرض وجود میں آیا، جس کا ایک سرا سمندرکے اس پار تھا تو دوسرا اس پار۔ ظاہر ہے کہ محدود نظریات پر مبنی اور دو جغرافیائی حصوں میں تقسیم اس نئے ملک کے مستقل کے بارے میں کوئی بھی صاحب نظر اچھی رائے نہیں دے سکتا تھا۔ اس وقت اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے حکمراں طویل مسافت طے کرکے کس طرح ڈھاکہ کو کنٹرول کرتے، یہ بات نظرآرہی تھی کیونکہ پاکستان کا معاشرہ تمام تر بلند وبالا دعوئوں اور خواہشوں کے باوجود اپنے سماج کی بنیادی خامیوں کو نہ صرف سمجھ پایا اورنہ ہی ان کو دورکرنے کی کوشش کی گئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ناعاقبت اندیش قیادت نے منہ کی کھائی اور پاکستان کے دوٹکڑے ہوگئے۔ زبان، رسم ورواج، رہن سہن، علاقائی، جغرافیائی اور ثقافتی رویوں سے طے ہوتا ہے، صرف محض مذہب سے نہیں ہوتا۔ آپ مذہب کی بنیاد پر کسی ایک طبقے کو ایک خاص زبان، ایک خاص لہجہ اختیار کرنے کے لئے مجبور نہیں کرسکتے۔ اسلام آباد کے حکمرانوں نے طاقت کے زور پر وہ تمام حرکتیں کیں جو ایک دوراندیش حکومت یا قیادت نہیں کرسکتی۔ زبردستی ایک خاص زبان کو اور ایک ایسی زبان کو جس کو محبت کی زبان کہتے ہیں زبردستی تھوپنا تباہ کن ثابت ہوا۔ اختلافات بڑھتے گئے اور 1971میں اس کا نتیجہ سامنے آگیا۔ بنگلہ دیش بنا اوریہ بنگلہ دیش بھی آج بھی ایک زبردست بحران سے گزر رہا ہے۔ 2009سے یعنی 14سال سے بیگم حسینہ واجد بنگلہ دیش پر حکمرانی کر رہی ہیں۔ وہ دوالیکشن غیرمعمولی اکثریت سے جیتیں۔ انہوں نے الیکشن جیتنے کے بعد زبردستی اور غیرآئینی طورپر انتخابی نظام میں وہ ترمیمیں کیں جس سے ان کی حکومت تادیر برقرار رہے اور اپوزیشن کا صفایا ہوجائے۔ ان کی حریف خالدہ ضیا جوکہ بنگلہ دیش کی سیاست میں شیخ حسینہ واجد کی طرح ایک اہم مقام رکھتی ہیں، بڑی غلطی کرگئیں اور انہوںنے حکمراں جماعت کی دھاندلیوںکو دیکھ کر تقریباً سپر ڈال ہی دی اور انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا، جس سے شیخ حسینہ واجد کو واک اوور مل گیا۔ انہوں نے بعد میں ہوس اقتدار میں الیکشن سے قبل کے ان تمام قوانین کو بدل دیا جوکہ ملک میں ایک غیرجانبدار انتخابات کے لئے بنائے گئے تھے۔ انہوں نے قانون میں تبدیلی کرکے اس آئینی التزام کومسترد کردیا جس کے تحت انتخابات ایک غیرجانبدار انتظامیہ کے زیرنگرانی ہوتے۔ اس التزام سے جمہوریت کو تقویت ملتی ہے اور الیکشن غیرجانبدار ہوتے ہیں۔
گزشتہ تقریباً15سال کی حکومت میں حسینہ واجد وہ تمام حرکتیں کر رہی ہیں جو اس سے قبل یعنی 1971سے قبل پاکستانی حکمراں کر رہے تھے۔ اس وقت بنگلہ دیش میں تقریباً ڈکٹیٹرشپ لاگو ہے۔ کوئی پرندہ پر نہیں مار سکتا، حکومت کے خلاف تقریریں کرنا، مظاہرے کرنا ناممکن ہوگیا ہے۔ کسی بھی جمہوری ملک میں الیکشن کے دوران اس قسم کی پابندیاں عائد کرنا خوش آئند نہیں قرار دیا جاسکتا۔ نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ طویل مدت سے ملک کے تقریباً تمام علاقوں میں حکمراں شیخ حسینہ واجد کے خلاف مظاہرے ہورہے ہیں۔ حالات اتنے خراب ہیں کہ امریکہ کو بھی مداخلت کرنی پڑ رہی ہے۔ امریکہ نے پچھلے دنوں بارہا شیخ حسینہ واجد کی قیادت والی سرکار کو تنبیہ دی ہے کہ وہ الیکشن کے وقت جبرواستبداد سے اجتناب کرے۔ ملک میں جمہوری عمل میں رکاوٹ نہ ڈالے۔ انتخابات صاف ستھرے اور بنیادی اصولوں کی روشنی میں کئے جائیں۔ یہ بات شیخ حسینہ واجد کو بری لگ رہی ہے۔ مگر دنیا کے کئی ممالک اس بابت توجہ دلاچکے ہیں کہ اپوزیشن پارٹیوں، لیڈروں کو جیلوںمیں بند کرنا، تقریر اور اجتماعات کی اجازت نہ دینا انتخابات کے بنیادی اصولوں اور جمہوری قواعد کی منافی ہے۔ بغیراپوزیشن کے کوئی بھی ملک جمہوری نظام والا قرار نہیں دیا جاسکتا، کیونکہ انتخابات جب شفاف نہیں ہوںگے تو ایک جوابدہ ذمہ دار حکومت کامنتخب ہونا ممکن نہیں ہے۔ لیکن شیخ حسینہ واجد ملک کے آئین میں ترمیم کرکے اپنے آپ کو زیاہ طاقتور اور کسی جوابدہی سے بالاتر بنانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان تمام حالات کا اثر ملک کی فضا، معیشت اور سماجی رویہ پر پڑنا لازمی ہے۔ وہ ممالک جو بنگلہ دیش کو ہر طریقے سے مدد فراہم کر رہے تھے ان حالات میں ان کے رویے میں بھی تبدیلی نظرآرہی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے وقت میں شیخ حسینہ واجد کس حد تک اپنی ذمہ داری پوری کرتی ہیں۔ ٭
5لاکھ سیاسی کارکنان کی گرفتاری
بنگلہ دیش میں عام انتخابات سے قبل تشدد اور مظاہروں کے درمیان حکمراں جماعت نے کلیدی اپوزیشن پارٹی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کے پانچ لاکھ کارکنان کو گرفتار کرلیا۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر گہری نظر رکھنے والے ادارے ہیومن رائٹس واچ نے اس بات کی تصدیق کی ہے۔ بنگلہ دیش میں 7؍جنوری کو پولنگ ہونی ہے۔ اس سے قبل پورے ملک میں زبردست احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ مغربی ممالک خصوصاً امریکہ نے بنگلہ دیش کے اندرونی حالات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ بنگلہ دیش میں سیاسی کارکنان کی بڑے پیمانے پر جبری گمشدگی کی خبریں آرہی ہیں۔ امریکہ کے سفیر نے بیگم حسینہ واجد کے اقتدار میں زبردستی لاپتہ افراد کے اہل خانہ سے ملاقات کرچکے ہیں۔ اس لئے حسینہ نے امریکہ پر الزام لگایا تھا کہ وہ ملک میں اقتدار تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ انہوںنے وکٹیم کارڈ کھیلتے ہوئے کہا کہ دنیا بھر میں مسلم ممالک اسی طرح کی صورت حال سے دوچار ہیں۔ شیخ حسینہ واجد کی عوامی لیگ کی قیادت ملک کے اندرونی امور میں مبینہ طورپر غیرملکی مداخلت کی نکتہ چینی کر رہی ہیں۔بنگلہ دیش میں حکومت کے خلاف مہم چلانے کے الزام میں صحافیوں کے خلاف کارروائی کی خبریں سامنے آئیں۔ پچھلے دنوں مقامی زبان کے میڈیا ہائوس کے رپورٹر شمس الزماں کے خلاف مہنگائی کے بارے میں گمراہ کن اطلاعات شائع کرنے پر ڈیجیٹل سیکورٹی ایکٹ کے تحت کارروائی کی گئی۔اس سے قبل اپوزیشن پارٹیاں حکومت کے استعفیٰ اور ایک غیرجانبدار حکومت کی نگرانی میں الیکشن کرانے کا مطالبہ کر رہی ہیں اور شیخ حسینہ کے استبدادی اقدام کے خلاف زبردست احتجاجی مہم چلا رہی ہے۔ اس کا براہ راست اثر وہاں کی معیشت پر پڑ رہا ہے۔