بنگلہ دیش میں ایک بارپھر بیگمات کی جنگ چھڑی ہوئی ہے۔ یہ جنگ فیصلہ کن موڑ پر پہنچ چکی ہے۔ اس مرتبہ معرکہ آرپار کا لگتا ہے۔ اس کی بازگشت سات سمندر پار تک سنائی دے رہی ہے۔
یہ دونوں خواتین خالدہ ضیاء اور حسینہ واجد 72اور 70 سال کی ہیں۔ ان دونوں بیگمات کا گزشتہ تین دہائیوں سے 1971 میں معرض وجود میں آئے ملک بنگلہ دیش کی سیاست پر غلبہ ہے۔ حسینہ واجد 2009 سے بنگلہ دیش کی وزیراعظم ہیں اور تقریباً 15سالہ دور اقتدار میں انہوں نے آئینی ترمیمات کی ہیں جنہوں نے بنگلہ دیش کی سیاست کی سمت بدل دی ہے۔ ان کا ارادہ اقتدار کو چھوڑنے کا نہیں ہے۔ اس مقصد کے تحت وہ ہر ہتھکنڈہ اختیار کر رہی ہیں۔ بنگلہ دیش میں کئی مرتبہ فوجی بغاوتیں ہوئی ہیںمگراس مرتبہ جمہوری طورپر منتخب حکومت کو جمہوریت کا پاٹھ پڑھانا پڑ رہا ہے۔ اس مرتبہ مدرس امریکہ ہے۔ امریکہ براہ راست اور سخت موقف کے ساتھ حکمراں جماعت اور ارباب اقتدار کو متنبہ کر رہا ہے۔ حکمراں جماعت عوامی لیگ کی صدر شیخ حسینہ واجد مجیب الرحمن کی بیٹی ہیں۔ مجیب الرحمن نے بنگلہ دیش کو پاکستان کے ڈکٹیٹروں سے نجات دلانے اور ملک کو آزاد کرانے میں کلیدی رول ادا کیا تھا۔ ہندوستان کے تعاون کے ساتھ پاکستان سے ٹوٹ کر بنگلہ دیش قائم ہوا تھا۔ مجیب الرحمن کو بنگلہ دیش کے قیام کے چند سال بعد 1975 میں فوجی تختہ پلٹ میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔ اس بغاوت میں شیخ مجیب الرحمن کے خاندان کے کئی لوگ بھی مارے گئے تھے، مگر شیخ حسینہ بچ گئی تھیں کیونکہ وہ اس وقت بنگلہ دیش میں نہیں تھیں۔ جبکہ خالدہ ضیا کے شوہر ضیاء الرحمن فوجی افسر تھے اور شیخ مجیب الرحمن کے خلاف بغاوت کرکے انہوں نے ملک کے اقتدارپر قبضہ کرلیا تھا۔ اس طرح اپنے قیام کے چار سال کے اندر مجیب الرحمن اور ان کے خاندان کے افراد کو موت کے گھاٹ اتاردیا گیا تھا۔ فوج کے ذریعہ اقتدارپر قبضہ کرنے کے بعد 1977 سے 1981 تک ملک کے صدرہے، بعد میں ان کا بھی قتل کردیا گیا تھا۔
شروع ہی سے خالدہ ضیاء اور شیخ حسینہ واجد اوران دونوں کے خاندانوں کے درمیان تنازع رہا ہے۔ قیام کے بعد سے ہی تقریباً اب تک دونوں خاندان اوران کے وفادار سیاست داں اورجماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ برسرپیکار ہیں۔ اس ترشی نے ملک کو ابھی تک جہنم بنا رکھا ہے۔ دونوں بہت سنگین انتقامی جذبہ رکھتی ہے اور دونوں اپنے اپنے دوراقتدارمیں ایک دوسرے کو ٹھکانے لگانے پر آمادہ رہتی ہیں۔ مگر 2009 میں اقتدار میں آنے کے بعد شیخ حسینہ واجد کا رویہ بہت تلخ اور زیادہ انتقامی ہوگیا ہے۔ 2014 میں الیکشن سے قبل شیخ حسینہ واجد نے اقتدار نگراں حکومت کو منتقل کرنے سے انکار کردیا اوراس فیصلہ کے خلاف خالدہ ضیا نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ کلیدی سیاسی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) نے یہ سیاسی غلطی کی اور اس سے حسینہ واجد کی عوامی لیگ کی پوزیشن مستحکم ہوگئی۔ سڑکوںپر تشدد اور مظاہروں کے درمیان عوامی لیگ کی لیڈر حسینہ واجد کو غیرمعمولی سبقت ملنے سے ایوان میں غیرمعمولی پوزیشن حاصل کرلی۔ شیخ حسینہ پر کرپشن کے الزامات لگے اور ہر صورت ملک میں تشدد اورسیاسی انتقامی کارروائیوںکا لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا۔
٭٭٭
بنگلہ دیش : جمہوری نظام کا امتحان
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS