بنگلہ دیش :کمزور جمہوریتوں کیلئے تازیانہ عبرت : عبدالعزیز

0

عبدالعزیز
برصغیر جنوبی ایشیا کے ممالک (ہندستان، پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا، مالدیپ، نیپال، بھوٹان) میں حالات ایک دوسرے سے بہت کچھ ملتے جلتے ہیں۔ نیپال اور سری لنکا میں تقریباً وہی کچھ ہوا جو آج کل بنگلہ دیش میں ہوا ہے یا ہورہا ہے۔ نیپال میں بھی عوام کا احتجاج اور شورش کامیاب ہوئی اور بادشاہِ وقت کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا گیا، فوج نے شورش زدہ عوام پر گولی چلانے سے انکار کیا۔ سری لنکا میں بھی اس سے ملتی جلتی صورت حال پیش آئی اور وہاں کی حکومت بھی تبدیل ہوگئی۔ بنگلہ دیش میں 5 اگست 2024کو محترمہ شیخ حسینہ واجد کو بنگلہ دیش کے فوجی سربراہ وقار الزماں کے مشورے پر مجبوراً استعفیٰ دینا پڑا۔ کئی ہفتوں سے بنگلہ دیش میں کوٹہ سسٹم کے خلاف طلبا کے احتجاج اور مظاہرے بڑے پیمانے پر ہو رہے تھے۔
3 اگست کو چٹاگانگ میں لوگوں کا اژدھام تھا اور مذکورہ مظاہرے اور احتجاج اس قدر بڑے پیمانے پر ہو ئے کہ جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اسی مظاہرے کے تحت 5 اگست کو ڈھاکہ میں لانگ مارچ کرنے کا اعلان کیا گیا اور ان سب کی جوہات کو نہ سسٹم کا اعلان تھا، بتادیں کہ بنگلہ دیش میں پہلے سرکاری نوکریوں میں جو 56 فیصد ریزرویشن اور اب مزید30% بنگلہ دیش کی جنگ آزادی میں حصہ لینے والے خاندان کے لوگوں کو ریزرویشن دیے جانے کی تیاری ہورہی تھی ، جس کی مخالفت میں اتنا بڑا کارنامہ ہوا۔ مذکورہ تمام اس احتجاج میں تین سو طلبہ جاں بحق ہوچکے تھے۔ طلبہ کی ہلاکت یا شہادت سے احتجاج کرنے والے طالب علموں کا غصہ بڑھتا گیا۔ ایک وجہ تو یہ تھی کہ جس سے شیخ حسینہ واجد کے استعفیٰ کا مطالبہ شروع ہوگیا۔
دوسری بڑی وجہ یہ تھی کہ طلبہ کو جو احتجاج کر رہے تھے ان کو حسینہ واجد نے رضاکار (جن کو بنگلہ دیش میںغدار سمجھا جاتا تھا)، دہشت گرد جیسے الزامات اور القابات سے نوازنا شروع کردیا تھا۔ اس چیز نے آگ میںگھی ڈالنے کا کام کیا۔ بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے 30فیصد ریزرویشن کو 5فیصد تک محدود کردیا تھا۔ شیخ حسینہ واجد نے ’’تحریک امتیازی سلوک‘‘ کے نمائندوں سے بات چیت کرنے کی بھی دعوت دی، لیکن احتجاج کرنے والوں نے اس دعوت کو ٹھکرادیا اور ان کا ایک ہی مطالبہ ہوگیا کہ وہ کسی قیمت پر شیخ حسینہ واجد کے استعفیٰ کے سوا کسی اور چیز پر رضامند نہیں ہوں گے۔
5اگست کے لانگ مارچ میں طلبہ اور عوام کا سیلاب امڈ پڑا اور ایسا منظر دکھائی دینے لگا کہ سارا شہر شیخ حسینہ واجد کی رہائش گاہ کی طرف رواں دواں ہے۔ فوجی سربراہ جنرل وقار الزماں اور پولس کے سربراہ نے مظاہرین پر گولی چلانے سے انکار کردیا اور محترمہ شیخ حسینہ واجد کو جلد سے جلد استعفیٰ دینے کا مشورہ دیا۔ کہا جاتا ہے کہ پہلے اس مشورہ کو ماننے سے انھوں نے انکار کیا ۔ پھر فوجی سربراہ نے ان کی بہن شیخ ریحانہ سے اپنی بہن کو سمجھانے کا مشورہ دیا۔ شیخ حسینہ واجد نے اپنی بہن کے مشورے کو بھی تسلیم نہیں کیا۔ فوجی سربراہ نے شیخ حسینہ واجد کے بیٹے سجیب واجد جوائے سے رابطہ قائم کیا اور ماں کو سمجھانے کے لئے کہا۔ بیٹے کے سمجھانے پر ماں کو راضی ہونا پڑا۔شیخ حسینہ واجد کو آناً فاناً کچھ سامان لے کروزیر اعظم کے محل کو چھوڑنا پڑا۔ کہا جاتا ہے کہ پندرہ بیس منٹ کی دیر ہوتی تو ان کی جان خطرے میں پڑ سکتی تھی۔
سوشل میڈیا میں بنگلہ دیش میں ہونے والے مظاہروں کے کئی مناظر وائرل ہورہے ہیں۔ اس میں سے ایک منظر وہ ہے جب سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد جو دو تین منٹ پہلے وزیر اعظم بنگلہ دیش تھیں اپنے رفقاء کار کے ساتھ وزیر اعظم کے محل سے نکل کر جہاز پر سوار ہونے جارہی ہیں۔ ان کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ مایوسی، نا امیدی، گھبراہٹ کے آثار چہرے پر نمایاں تھے۔ اس وقت ان پر کیا گزر رہی ہوگی ان کے سوا شاید ہی کوئی سمجھ سکتا ہے یا محسوس کرسکتا ہے۔
دوسرا ایک منظر اس وقت کا ہے جبکہ غازی آباد کے ایئربیس میں ان کو اترتے ہوئے دکھایا گیا۔ یہ منظر بھی سابقہ پیش کردہ منظر سے کچھ کم عبرت ناک نہیں ہے۔ ان مناظر سے بھی کہیں زیادہ جو منظر لرزہ خیز ہے اور دلوں کو ہلادینے والا ہے وہ منظر ہے ان سیکڑوں شہید نوجوانوں کی لاشیں جو سفید کپڑوں میں لپٹی ہوئی ہیں اور سب کا چہرہ اور سر کھلا ہوا ہے۔ اس منظر کو جو بھی دیکھے گا اس کی آنکھوں میں آنسو آئے بغیر نہیں رہے گا۔ لاشوں کے چاروں طرف لوگ یا تو کھڑے ہوئے ہیں یا بیٹھے ہوئے ہیں۔ ان پہ کیا گزر رہی ہوگی جو شہیدوں کے ماں، باپ، بھائی، بہن اور عزیز و اقارب ہوں گے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق تین چار سو بتائی جاتی ہے لیکن تحریکی طلبہ کی طرف سے ایک ہزار سے زائد کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ اس مضمون سے پہلے خاکسار کی طرف سے ایک مضمون میں تفصیل سے لکھا گیا ہے کہ کس طرح شیخ حسینہ آمر حکمراں بنیں اور اب ان کے ملک اور ملک کے باہر دانشور، صحافی اور سیاسی تجزیہ نگار کس طرح ان کی آمریت کے قصے کہانیاں بیان کر رہے ہیں۔ ایک طالبہ کی احتجاج کے دوران کی ایک تقریر وائرل ہورہی ہے جس میں اس نے کہا ہے کہ ’’1971ء میں شیخ مجیب الرحمن نے جو ملک آزاد کرایا وہ اپنے پریوار (خاندان) کے لئے کرایا تھا۔ اس وقت سے لے کر آج تک جو لوگ عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں اور لوٹ پاٹ کر رہے ہیں یا کرارہے ہیں وہ یا تو مجیب الرحمن کے خاندان والے ہیں یا ان کے عزیز و اقارب ہیں ان کی پارٹی عوامی لیگ کے ممبر، حامی اور ہمدرد ہیں۔ کوٹہ سسٹم کے خلاف کے ساتھ ہی بدعنوانی کے خلاف بھی تحریک میں آوازیں بلند ہورہی تھیں۔ محترمہ شیخ حسینہ کے استعفیٰ دینے کے باوجود احتجاجیوں کا غصہ تھما نہیں تھا، لوگ مجیب الرحمن کے مجسّمے گرارہے تھے۔ تصویریں دفتروں سے ہٹائی جارہی تھیں۔ ساری علامتیں اور نشانات ایک ایک کرکے مٹائی جارہی تھیں جو شہر کے کسی حصہ میں نظر آرہی تھی۔ ہر آمر یا ڈکٹیٹر کا حشر عبرت ناک ہوتا ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہوتی ہے کہ عبرت ناک انجام سے پہلے وہ نوشتۂ دیوار پڑھنے سے قاصر ہوتا ہے۔
بنگلہ دیش میں جو سیاسی تبدیلی ہوئی ہے اس کا سب سے زیادہ اثر ہمارے ملک ہندستان پر پڑ رہا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ تو یہ ہے کہ بنگلہ دیش کو عدم سے وجود میں لانے میں ہندستان کا بڑا رول ہے۔ خاص طور پر ’عوامی لیگ ‘ سے ہندستان کا بہت ہی اچھا اور گہرا تعلق تھا ۔ بدقسمتی سے نریندر مودی برسراقتدار آئے تو انھوں نے بنگلہ دیش سے گہرا تعلق جو تھا اس کے بجائے شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی شیخ حسینہ واجد سے شخصی طور پر گہرا تعلق بنا لیا۔ کسی ملک کا تعلق ملک سے ہونا چاہئے، ملک کے کسی فرد یا پارٹی سے ہونا کبھی صحیح نہیں ہوتا۔ ایک وجہ تو تعلق اور دوسری بڑی وجہ شیخ حسینہ واجد کا ہندستان آنا بھی ہے۔ حالانکہ حسینہ واجد نے اور نہ ہی ہندستان نے ان کو پناہ دینے کی درخواست کی ہے اور نہ ہی ہندستان کی موجودہ حکومت ان کو پناہ دینے کی خواہشمند ہے۔
ان سب باتو ں سے تمام حکمرانوں کو کچھ سیکھنا چاہیے اور اس میں حکمرانوں اور عوام کے لئے بھی سبق ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اگر ہمارے ملک کے حکمراں بنگلہ دیش کے حالات سے سیکھنے کی کوشش نہیں کرتے اور شیخ حسینہ واجد کی طرح نوشتۂ دیوار پڑھنے سے قاصر رہتے ہیں تو یہ ملک کی بدقسمتی ہوگی۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS