شاہد زبیری
یکطرفہ فساد کے بعد بہرائچ کے گھروں اور دکانوں پر بلڈوزر کی تیاری ہے اور یہ کارروائی بہرائچ کے ضلع کے مہاراج گنج فساد کے معاملہ میں قتل کے ملزم عبدالحمید کے گھر سمیت 23گھروں پر اگلے دو تین روز میں کی جا سکتی تھی لیکن بھلا ہو ہائی کورٹ کا کہ اس نے اس نادر شاہی فرمان کے خلاف 15 دن کا اسٹے کردیا، آئندہ سماعت بعد میں ہوگی۔ نیوز ایجنسیوں کے مطابق تقریباً50 گھر ایسے ہیں، جن کے نیچے دکانیں ہیں۔ گھروں کو سرخ رنگ سے نشان زد کیا گیا ہے اور پورے بازار کی پیمائش کرائی گئی ہے۔ مقامی ایس ڈی ایم شیلیندر سنگھ کی موجود گی میں محکمہ تعمیرات ِ عامہ ( پی ڈبلیو ڈی) کی ٹیم نے یہ پیمائش کی ہے۔ بلڈوزر کی کارروائی پر ایس ڈی ایم مہسی اکھلیش کمار سنگھ کا کہنا ہے کہ پی ڈبلیو ڈی کی طرف سے کئی مرتبہ اس کیلئے نوٹس جاری کیے جا چکے ہیں، اب دوبارہ نوٹس چسپاں کرا ئے گئے ہیں۔ پی ڈبلیو ڈی کے جے ای پنکج سنگھ کے حوالہ سے بتا یا گیا ہے کہ 2023میں اس کی جانچ کرائی گئی تھی۔ مان لیں، ایسا ہی ہے جیسا ایس ڈی ایم اور جے ای کہہ رہے ہیں، لیکن اتنے دن تک کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟ فساد برپا ہونے کے بعد ہی یہ ضرورت کیوں پیش آئی کہ محض 3دن کے نوٹس پر کارروائی کا الٹی میٹم دینا پڑا؟اتنی کم مہلت میں تو گھروں کو خالی بھی نہیں کیا جاسکتا تھا،گھر تبدیل کرنا اور گھر ڈھونڈنا کیسے ممکن ہے ؟سچ یہ ہے کہ سرکارکی بلڈوزر کی کا رروائی ہو یا 5کلیدی ملزمان میں سے دو ملزمان کا یوپی پولیس کے ہاتھوں انکا ئونٹر کیاجا نا اور لنگڑا کیا جانا، اپنے ہندو ووٹ بینک کو خوش کرنا بی جے پی کی یوگی سرکار کا اصل مقصد ہے۔ چونکہ ضمنی انتخابات سر پر ہیں اور مہاراشٹر اور جھارکھنڈ جہاں انتخابات ہونے ہیں، وہاں کے ہند و ووٹروں کو یہ پیغام دینا ہے کہ بی جے پی ہی تمہاری محافظ ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق بہرائچ ضلع کے مہاراج گنج کے اس یکطرفہ فساد کی لپٹیں قر ب و جوار کے گائوں کو بھی اپنی زد میں لے چکی ہیں اور پورے بہرائچ ضلع کے مسلمانوں میں خوف وہراس ہے۔اس یکطرفہ فساد کو کسی طرح بھی فرقہ وارانہ فساد نہیں کہا جاسکتا، اس لیے اس فساد میں کہیں بھی مسلمان اور ہندو ایک دوسرے کے سامنے صف آرا نہیں ہوئے۔پہلے دن ہندوئوں کے مذہبی جلوس میں شامل کچھ فسادیوں نے جہاں گھنی مسلم آبادی میں جلوس روک کر ڈی جے بجا یا اور انتہائی اشتعال انگیز،بیہودہ اور فحش گانے بجا ئے، وہیں ان فسادیوں کی بھیڑ نے ہی عبدالحمید کے گھر میں توڑ پھوڑ کی اور رام گوپال مشرا کو چھت پر چڑھنے اور سبز جھنڈا اکھاڑ کر بھگوا جھنڈا پھہرانے کیلئے اکسا یا، جس کو گولی ماری گئی۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق اس کی موت چھرے لگنے کی وجہ اور زیادہ خون بہنے سے ہوئی، اس کو اگر وقت پر میڈیکل ایڈ مل جاتی تو شاید اس غریب کی جان بچ جا تی۔ لیکن فسادی ایسا نہیں چاہتے تھے، انہوں نے رام گوپال مشرا کو اسپتال پہنچانے میں جلدی کر نے کے بجا ئے عبدالحمید کے گھر پر دھرنا دینا زیادہ ضروری سمجھا۔ رہی سہی کسر گودی میڈیا نے پوری کردی، اس نے رام گوپال مشرا کو گھر میں کھینچ کر کرنٹ لگانے،پلاس سے اس کے ناخن کھینچ لینے اور دیگر جسمانی اذیتیں دینے اور جلوس پر پتھرائو کیے جانے کا جس شدت سے جھوٹا پرو پیگنڈہ کیا، اس سے بہرائچ ضلع میں اشتعال پھیلا اور میڈیا رپورٹ کے مطابق دوسرے دن فسادیوں کی ہزاروں کی بھیڑ نے مہاراج گنج کے مسلمانوں کی بستی پر دھاوا بول دیا، گھر چھوڑا نہ دکان، سب کو پٹرول ڈال کر پھونک ڈالا۔ گاڑیا ں، گاڑیوں کے شوروم اور اسپتال کو بھی آگ کے حوالہ کر دیا اور موقع پر موجود پولیس کھڑی حسبِ معمول تماشہ دیکھتی رہی۔ سوال یہ ہے کہ اگر جلوس پر مسلمانوں کی طرف سے پتھرائو کیا گیا تو کیا اس پتھرائو سے کسی کو چوٹ آئی، کوئی زخمی ہوا؟ اگر یہ فرقہ وارانہ فساد تھا تو کیا رام گوپال مشرا کے علاوہ کسی کی جان گئی یا مسلمانوں کے علاوہ کسی دوسرے کی دکان یا مکان کو جلایا گیا؟ رام گوپال مشرا کی موت فائرنگ سے ہوئی لیکن اس کیلئے اصل ذمہ دار کون ہے، وہ جس نے اس پر گولی چلائی یا وہ فسادی یاوہ لوگ جنہوں نے یہ سازش رچی؟ آزاد میڈیا پر یہ بحث جاری ہے۔کہا جا رہا کہ گولی نہیں چلانی چاہیے تھی۔بلاشبہ انسانی جان سب سے قیمتی ہے اور گولی نہیں چلائی جانی چاہیے تھی لیکن سوال یہ بھی ہے کہ اگر کسی کے گھر فسادیوں کی بھیڑ گھس آئے، بھیڑ میں شامل کوئی شخص چھت پر چڑھ کر اس پر لگا جھنڈا اتاردے، ریلنگ توڑدے تو اس کو اپنی اور اپنے گھر والوں کی حفاظت اور دفاع میں کیا کرنا چاہیے؟ گولی چلانے کے جرم میں ملزمان کے خلاف پولیس نے مقدمہ درج کیے جا نے کے بعد دھڑ پکڑ شروع کردی ہے لیکن جن لوگوں نے رام گوپال مشرا کو دوسرے کے گھر کی چھت پر جھنڈا پھہرا نے کیلئے اکسایا اور جلوس میں شامل جو فسادی عبدالحمید کے گھر میں گھسے، جن لوگوں نے جلوس کو مسلم بستی میں روک کر ڈی جے پر فحش،بیہودہ اور اشتعال انگیز گا نے بجائے، فسادیوں کی مسلح بھیڑ جس نے مسلمانوں کے گھروں اور دکانوں پر لاٹھی ڈنڈوں اور دھار دار ہتھیاروں سے حملہ کیا، درجنوں گھروں میں آگ لگائی گئی، بازار جلایا، کیا ان فسادیوں کے خلاف بھی پولیس نے مقدمہ درج کیا ہے؟ کیا ان کے گھروں پر بھی سرکار بلڈوزر چلائے گی، سوال یہ ہے ؟ اور کیا جن پولیس والوں کی موجودگی میں فرقہ پرستی کا یہ ننگا ناچ ہوا اور مسلم اقلیت کے خلاف یکطرفہ فساد برپا کیا گیا، ان پولیس والوں کے خلاف بھی سرکار کارروائی کرے گی اور کیا نیشنل میڈیا ہونے کا دعویٰ کرنے والے گودی میڈیاپر بھی قانونی شکنجہ کسا جائے گا جس نے اس پو رے معاملہ کو ہوا دی اور اپنی ٹی آر پی بڑھا نے کیلئے ہندو مسلم بھائی چارہ کو اس فرقہ وارانہ آگ میں جھونکا؟ میڈیا نے رام گوپال مشرا کی موت پر جو مجرمانہ کردار ادا کیا، پوسٹ مارٹم رپورٹ نے اس کی قلعی کھول دی ہے۔ سی ایم او سنجے کمار نے میڈیا کو بتا یا کہ رام گوپال مشرا کی موت زیادہ خون بہنے سے ہوئی ہے، ناخن کھینچے جا نے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ ایک انگوٹھے کا ناخن درمیان سے ٹوٹا ہوا پا یا گیا۔ سی ایم او نے مقتول کو کرنٹ لگا ئے جانے،جسمانی اذیت دیے جا نے یا پلاس سے ناخن کھینچے جانے کی تصدیق نہیں کی جیسا کہ گودی میڈیا نے پرو پیگنڈہ کر کے لوگوں کو مشتعل کیا اور فساد کی آگ بھڑکائی۔ اب اس میں کوئی شک وشبہ نہیں رہ گیا۔ اس یکطرفہ فساد نے سرکار کے چھاتی ٹھونک کر کیے جانے والے اس دعویٰ پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا ہے کہ بی جے پی کی یوگی سرکار میں فساد نہیں ہوا۔ بہرائچ میں امن وقانون کی دھجیاں اُڑائی گئی ہیں، انسانی حقوق کو پامال کیا گیا۔ حیرت تو یہ ہے کہ اس پر ہمارا قومی انسانی حقوق کمیشن اور انسانی حقوق کی تنظیمیںکیوں خاموش ہیں! یوگی سرکار بھی اس فسادکیلئے کٹہرے میں کھڑی ہے لیکن نہ تو بی جے پی کے مسلم پسماندہ محاذ اورمسلم راشٹریہ منچ کی بے ضمیر قیادت کو کچھ دکھائی دے رہا ہے اور نہ ہماری غیر بی جے پی پارٹیوں کو۔ ان میں سے ایک پارٹی پی ڈی اے کا اور دوسری پارٹی محبت کی دکا ن کا ڈھنڈورہ پیٹتی ہے، کیا ان میں سے کسی کے لیڈر نے بہرائچ جا کر ظلم اور بر بریت کے شکار مسلمانوں اور رام گوپال مشرا کے گھروالوں کی ڈھارس بندھا ئی؟ کیا اس کے خلاف لکھنؤ یا دہلی میں کوئی احتجاج کیا یا سرکار کو میمورنڈم دیا، سوائے زبانی جمع خرچ کے یا ایک دو نپے تلے بیان دینے کے۔ مسلم قیادت تو پہلے ہی ڈری سہمی ہے، اس سے کوئی کیا امید کرے۔ جمعیۃ علماء کے وفد نے ہمت دکھائی اور بہرائچ جا نے کی کوشش کی، لیکن اس کے وفد کو لکھنؤ میں روک دیا گیا۔آخر ہماری عدالتیں، ہماری سول سوسائٹی کہاں ہیں؟ صرف یوپی کے سابق ڈائریکٹر جنرل آف پولیس( ڈی جی پی) سلکھان سنگھ نے اس کیس کے ملزمان کے انکائونٹر پر سوال کھڑے کیے اور لنگڑا کیے جا نے والے انکائونٹر کو اقدامِ قتل بتا یا اورکہا کہ پولیس کسی دبائو میں آکر ایسا غیرقانونی کام نہ کرے۔ مبینہ طور پر یوپی پولیس 10,000 انکائونٹر کرچکی ہے۔ پولیس انکائونٹر ہوں یا ملک بھر میں آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد ہو نے والے ہزاروں فسادات، سب کی ایک ہی کہانی اور ایک ہی اسکرپٹ ہے لیکن کیا کیجیے؟بقول شاعر:
تمام شہر تو پہنے ہوئے ہے دستانے
میرے اقربا کریں خون کا دعویٰ کس پر
[email protected]