ڈاکٹر جاوید عالم خان
مرکزی حکومت کی کابینہ میٹنگ میں آیوشمان بھارت صحت اسکیم کے مستفیدین کی عمر میں اضافہ کا اعلان کیا گیا ہے اور مرکزی کابینہ نے ملک کے 70سال اور اس کے اوپر کے تمام شہریوں کو آیوشمان بھارت پی ایم جن آروگیہ یوجنا میں شامل کرنے کی منظوری دی ہے۔ اس اسکیم میں شمولیت کیلئے آمدنی کی کوئی قید نہیں رکھی گئی ہے۔ حکومت کے مطابق اس ہیلتھ انشورنس اسکیم کے تحت رجسٹریشن جلد ہی شروع کیا جائے گا اور وزیراعظم اس کا افتتاح کریں گے۔ پی ایم جن آروگیہ یوجنا کو اس وقت دنیا کا سب سے بڑا ہیلتھ انشورنس مانا جاتاہے۔یہ اسکیم ملک کے40فیصد معاشی طور سے کمزور خاندان کے ہر عمر کے لوگوں کو شامل کرتی ہے۔ یہ اسکیم مریضوں کو سالانہ5لاکھ روپے تک کا علاج مفت فراہم کرتی ہے۔ اسکیم کے تحت جیسے ہی ویب سائٹ پر نئے ماڈیول کو شامل کیا جائے گا، مستفیدین اپنا رجسٹریشن کرکے آیوشمان بھارت کارڈ حاصل کرسکتے ہیں۔ مستفیدین کے ذریعے نئے رجسٹریشن کا عمل حکومت کے آیوشمان بھارت ایپ یا آیوشمان بھارت کاؤنٹر سے کروا سکتے ہیں، اس کے لیے جو بھی فرد70سال کا ہو گیا ہے وہ اپنے آدھار کارڈ کے ذریعے رجسٹریشن کرسکتا ہے۔ اس اسکیم کے تحت5لاکھ کی جو سالانہ سہولت ہے، وہ ایک خاندان کیلئے ہے، اگر ایک گھر میں دو معمر لوگ ہیں تو اسکیم کا فائدہ دو لوگوں میں تقسیم ہو سکتا ہے، اس کے علاوہ اگر کوئی خاندان اس اسکیم کے تحت پہلے سے ہی رجسٹرڈ ہے تو اس کے معمر افراد کیلئے5لاکھ کا اضافی صحت بیمہ الگ سے دیا جائے گا۔ مرکزی حکومت کے مطابق اس اسکیم کے تحت 4.5کروڑ خاندانوں کے6کروڑ معمر افراد کو طبی سہولت مہیا کرائی جائے گی، ویسے اس اسکیم کے تحت پہلے سے ہی 1.78کروڑ خاندان رجسٹرڈ ہیں۔ یہ اسکیم26مخصوص بیماریوں کیلئے علاج مہیا کراتی ہے اور اس کے تحت 1670 طرح کی طبی سہولیات مہیا کرائی جاسکتی ہیں۔ اعدادوشمار کے مطابق80لاکھ سرکاری ملازمین جو مرکزی حکومت کے ماتحت ہیں، ان کے لیے سینٹرل گورنمنٹ ہیلتھ اسکیم چلائی جارہی ہے، اس کے علاوہ دفاع اور ریلوے کے ملازمین کی فیملی کیلئے بھی پنشن اسکیمیں چلائی جارہی ہیں۔ یہ ملازمین اگر چاہیں تو آیوشمان بھارت کا فائدہ اٹھاسکتے ہیں مگر بیک وقت ایک ہی اسکیم کا فائدہ مل سکتاہے۔ اسی طرح سے صوبائی سطح پر ای ایس آئی سی نام کا انشورنس کام کررہا ہے جو صوبائی حکومت کے ماتحت ملازمین کو ہیلتھ انشورنس مہیا کراتا ہے۔ صوبائی حکومت کے ملازمین بیک وقت آیوشمان بھارت اور ای ایس آئی سی کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
جہاں تک معمر افراد کی نئی اسکیم پر بجٹ اخراجات کا تعلق ہے تو مرکزی حکومت نے اس مالی سال کے6مہینوں کیلئے 3437کروڑ روپے کا بجٹ مختص کیا ہے حالانکہ صوبائی حکومتوں کو بھی اس اسکیم کے کل اخراجات کا 40 فیصد حصہ اپنی طرف سے ادا کرنا ہوگا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ کچھ صوبائی حکومتیں جیسے دہلی، مغربی بنگال اور اوڈیشہ نے آیوشمان بھارت اسکیم کے نفاذ میں دلچسپی نہیں دکھائی تھی لیکن ہوسکتا ہے کہ اس بار وہ اس اسکیم کا نفاذ اپنے صوبے میں کرے۔ چونکہ اس وقت اس اسکیم کی اہمیت اور بھی زیادہ بڑھ جاتی ہے کیونکہ آنے والے دنوں میں ملک میں معمر افراد کی تعداد بڑھے گی اور اس طرح کی اسکیموں کو پورے ملک میں نافذ کرنا خوش آئند بات ہے۔ 2011کی مردم شماری کے مطابق ملک میں60سال سے اوپر کے لوگوں کی تعداد8.6فیصد تھی لیکن یہ امید کی جارہی ہے کہ2050 تک60سال سے اوپر کے لوگوں کی تعداد 19.5 فیصد ہوسکتی ہے۔ اسی طرح سے 2011 میں 60 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کی تعداد 103 ملین تھی جو 2050 میں 319 ملین ہو جائے گی۔ آیوشمان بھارت کے اعدادوشمار کے تجزیے سے یہ پتا چلا ہے کہ 70 سال یا اس کے اوپر کے لوگوں کی مجموعی تعداد میں صرف 12 فیصد لوگ اسپتالوں میں داخل ہوپائے ہیں اور 14 فیصد لوگوں کو اسکیم کے تحت صحت سے متعلق اخراجات کا پیسہ واپس دیا گیا ہے۔ موجودہ وقت میں زیادہ تر معمر افراد ہیلتھ انشورنس اسکیم کی کوریج سے باہر ہیں۔ ہندوستان کے 60 سال کی عمر سے اوپر والے لوگوں میں 20 فیصد لوگ ہی انشورنس اسکیم کا فائدہ اٹھا پارہے ہیں۔ ان معمر افراد میں زیادہ تر عورتیں اور بیوائیں ہیں، اس لیے موجودہ اسکیم کے نفاذ سے عورتوں کو زیادہ فائدہ مل سکتاہے۔ اس انشورنس اسکیم کی توسیع کے ساتھ حکومت کو پبلک ہیلتھ انفرااسٹرکچر، اسپتالوں کی تعداد، اسپتالوں میں انسانی وسائل اور دواؤں کی سپلائی میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔ مزید ہیلتھ سسٹم میں اصلاح کرکے پرائمری ہیلتھ سینٹر، کمیونٹی ہیلتھ سینٹر کو ضلع اسپتالوں سے جوڑنے کی بھی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ صحت کے شعبے میں سرکاری اخراجات کو بھی بڑھائے جانے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ 70 سالوں میں صحت کے شعبے میں سرکاری اخراجات جی ڈی پی کی شرح میں 0.9 فیصد اور 1.35فیصد کے درمیان رہے ہیں۔ لہٰذا انشورنس اسکیم کا فائدہ تبھی ہوگا جب سرکار کے ہیلتھ سسٹم کو مضبوط بنایا جائے۔ ہماری حکومتیں اس سلسلے میں کناڈا، یوروپ اور آسٹریلیا کے ہیلتھ سسٹم سے سیکھ لے سکتی ہیں جنہوں نے اپنے ہیلتھ کئیر سسٹم کو مضبوط کرکے صحت کے میدان میں نمایاں خدمات دی ہیں۔ آیوشمان بھارت کو23ستمبر2018 کو شروع کیا گیا تھا۔ قومی صحت پالیسی 2017 نے اس بات کی سفارش کی تھی کہ مرکزی حکومت عام شہریوں کے لیے صحت سے متعلق ایک ایسی اسکیم کا نفاذ کرے جس کا مقصد یہ ہو کہ ملک کے تمام شہریوں کو اس کا فائدہ ملے گا۔ آیوشمان بھارت کا مقصد معیاری صحت کی سہولتوں کو عام لوگوں تک پہنچانا ہے جس میں تمام عمر کے لوگ شامل ہوں۔ آیوشمان بھارت کے تحت دیہی اور شہری علاقوں میں بسنے والے محروم طبقات کے 10.47 کروڑ خاندانوں کو شامل کرنے کا ہدف بنایا گیا ہے جو مرکزی حکومت کے ذریعہ کرائے گئے سماجی و اقتصادی اور ذات کی بنیاد پر مردم شماری کی فہرست میں آتے ہیں۔
آیوشمان بھارت پردھان منتری جن آروگیہ یوجنا(پی ایم جے اے وائی) میں صحت کی خدمات مریضوں کو اسپتالوں میں بھرتی کرائے جانے پر دی جاتی ہیں، اس کے اندر جو سہولیات دی جاتی ہیں وہ نقدی اور کاغذی کارروائی کے بغیر ہیں جو مریض ہمیشہ حاصل کر سکتا ہے۔ اس اسکیم میں راشٹریہ بیمہ یوجنا سے فائدہ اٹھانے والے مریضوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔جن آروگیہ یوجنا میں مریض کا علاج بغیر کسی نقدی اور بنا کاغذی کارروائی کے کیا جائے گا، اس کے تحت عمر، صنف اور خاندان کے سائز کی کوئی قید نہیں ہے۔ خاندان کے جس فرد کے نام آیوشمان کارڈ ہے اس پر منحصر تمام لوگوں کا مفت علاج کیا جائے گا۔ اسپتال میں داخلے سے تین دن پہلے کا خرچ بھی اس میں شامل ہے، اس کے علاوہ مریض کے اسپتال سے چھٹی کے بعد 15 دن کے لیے طبی سہولیات مفت ہوں گی۔ اس اسکیم کے فوائد ملک کے کسی بھی حصے میں حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ مریض حکومت کے ذریعہ طے شدہ اسپتالوں کے پینل سے علاج کروا سکتا ہے، چاہے وہ اس کے صوبہ سے باہر ہوں۔ حالیہ دنوں میں سی اے جی کے ذریعہ پی ایم جے اے وائی کے نفاذ کے آڈٹ سے یہ پتا چلتا ہے کہ کئی صوبوں میں ضلع کی سطح پر اسکیم کو نافذ کرنے والی یونٹ کو قائم نہیں کیا جا سکا ہے، اس کے علاوہ اسٹیٹ ہیلتھ اتھارٹی اور ضلعی یونٹ میں اسٹاف کی کافی کمی ہے مثلاً آندھرا پردیش، چھتیس گڑھ، گجرات، ہریانہ، تریپورہ، اتراکھنڈ اور اترپردیش میں 15 فیصد سے 50 فیصد تک اسٹاف کی کمی ہے، اسی طرح سے8 اور ایسے صوبے ہیں جہاں پر سرکاری عملے کی کمی 50-75 فیصد کے درمیان ہے۔ پی ایم جے اے وائی کے تحت دھوکہ دھڑی کو روکنے کیلئے مخصوص سیل کی تشکیل دی جانی تھی مگر اس معاملے میں تاخیر کی وجہ سے کئی صوبوں میں اسکیم کے تحت دھوکہ دھڑی کے معاملات کو روکا نہیں جا سکا ہے لہٰذا حکومت سے یہ سفارش کی جاتی ہے کہ غریب عوام کو اس اسکیم کا فائدہ پہنچانے کیلئے اور درست مستفیدین کی پہچان اور رجسٹریشن کیلئے بہتر میکانزم بنانے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں دلت، قبائلی، دیگر پسماندہ طبقات اور اقلیتوں کے مستفیدین کے اعدادوشمار جمع کرنے کے عمل کو بھی مضبوط کیا جانا چاہیے۔ سرکاری اسپتالوں میں طبی سہولیات کو مزید مضبوط بنانے کی ضرورت ہے جس سے لوگ اس اسکیم کا فائدہ زیادہ سے زیادہ اٹھا سکیں۔ اس کے علاوہ مریض کے دعوؤں کی ضروری جانچ کے بعد پیمنٹ کی ادائیگی کو مناسب وقت پر کیا جانا چاہیے۔ حکومت اور سماجی تنظیموں کی طرف سے اسکیم کے بارے بیداری پیدا کرنے کی بھی کوشش ہونی چاہیے تاکہ اس اسکیم کا فائدہ زیادہ سے زیادہ لوگ اٹھا سکیں۔
(مضمون نگار انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اینڈ ایڈووکیسی سے وابستہ ہیں۔)
[email protected]