بنجر میدانوں سے پیدا ہوتے کھلاڑی

کھیلوں کی دنیا نے کچھ یقین دہانی کرائی ہے کہ محنت اور لگن سے معاشی حاشیہ پر کھڑا معاشرہ بھی ترقی کے دروازے کھول سکتا ہے

0

وبھوتی نارائن رائے

ٹوکیو اولمپک کئی معنوں میں انوکھا رہا۔ یہ صرف اس لیے قابل ذکر نہیں ہے کہ اس میں ہندوستان نے اب تک کے سب سے زیادہ میڈل جیتے، پہلی مرتبہ ٹریک اینڈ فیلڈ مقابلوں میں نہ صرف کوئی میڈل، بلکہ گولڈ میڈل جیتا یا ہاکی میں تقریباً40سال کی خشک سالی ختم ہوئی، ورنہ بہت سے دوسرے اسباب بھی ہیں جن کے لیے اس کھیلوں کے میلہ(sports festival) کو یاد کیا جانا چاہیے۔
ملک کی آزادی کے 75ویں برس میں مجھے یہ ہندوستانی جمہوریت کے بڑے جشن کی طرح لگتا ہے۔ صرف اعداد و شمار میں 130کروڑ کی آبادی والے ملک میں ایک گولڈ، دوچاندی اور چار کانسے کے میڈل بہت کم لگ سکتے ہیں، یا یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ میڈل ٹیبل میں تمام چھوٹے اور غریب افریقی، لیٹن امریکی ممالک کے نیچے خود کو پاکر خوش نہیں ہوا جاسکتا، لیکن جو کامیابیاں مرئی اور غیرمرئی طور پر حاصل ہوئی ہیں وہ اس کی تصدیق تو کرہی سکتی ہیں کہ سارے اندیشوں کے باوجود اس عظیم ملک میں جمہوریت کی بنجر نظر آتی زمین میں ہر کونپل موقع ملتے ہی کھلنے لگتی ہے۔
اولمپک کی سواسوسال کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا جب کھلاڑیوں نے صنفی عدم مساوات کی حدیں کافی حد تک توڑ دیں۔ میڈل ٹیبل میں اوپری پائیدان پر کھڑے کئی ملکوں کی ٹیموں میں مرد کھلاڑیوں سے زیادہ خواتین تھیں۔ کچھ برس قبل یہ تصور کرنا بھی مشکل تھا کہ اتنی بڑی تعداد میں لڑکیاں ہندوستانی ٹیم میں ہوں گی۔ وہ بھی اس ہریانہ سے جو ہماری روایتی تفہیم کے مطابق خاتون مخالف معاشرہ ہے۔ جنسی تناسب کے معاملہ میں ملک میں پیچھے رہ جانے والے ہریانہ نے ٹیم کو سب سے زیادہ خاتون کھلاڑی دیے۔ ان کھلاڑیوں کی کہانیاں مرد تسلط کے چیلنجز اور کھاپ جیسی تنظیموں سے لڑنے و جیتنے کی کہانیاں ہیں۔ تقریباً سبھی کے کھیل جنون کو کنبہ یا پڑوسیوں کے طعنوں سے ٹکرانا پڑا۔ ہر تفصیل میں ماں، باپ، دادا یا نانی کی شکل میں ایک مضبوط حمایت/سپورٹ موجود ہے جو ساری رکاوٹوں کے خلاف ایک ڈھال کے طور پر کھڑا رہا۔ یہ قابل ذکر ہے کہ6انفرادی تمغہ جیتنے والوں میں آدھی لڑکیاں ہیں۔

بڑی آبادی، تین ٹریلین ڈالر کی معیشت والے اور ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہندوستان کے تمغوں کی تعداد(7) پہلی نظر میں مایوس کرسکتی ہے لیکن نہیں بھولنا چاہیے کہ پہلی مرتبہ کسی اولمپک میں ہندوستان اتنا بھرپور نظر آیا۔ پہلے ہی دن میرابائی چانو کے چاندی والے مظاہرہ سے ہوئی شروعات آخری دن تک چلتی رہی۔ ان سب سے اوپر یہ اولمپک ملک میں ہاکی کی واپسی کی آہٹ دینے والا ایونٹ ثابت ہوا۔ تصور کیا جاسکتا ہے کہ اگر ایک اکیلے وزیراعلیٰ نوین پٹنائک کی کوشش سے ہاکی اس مقام تک پہنچ سکتی ہے تو نیا پیدا ہوا قومی جنون اسے کہاں تک لے جائے گا۔

اس المپک کی کامیابی کی کہانیاں پڑھتے وقت مجھے برسوں پہلے دیکھا ایک نائیجیریائی ویڈیو یاد آیا۔ ایک دوردراز اور کمیوں کے شکار علاقہ میں درجنوں تغذیہ کے شکار بچوں کے درمیان ایک چمچاتی لمبی کار کھڑی ہے۔ خود کو گھیر کر کھڑے بچوں کو فٹ بال کے کچھ اسٹیپ دکھاکر ایک کوچ انہیں بتارہا ہے کہ اگر وہ انہیں سیکھ لیں تو کار ان کی ہوسکتی ہے۔ ہندوستان کے تناظر میں یہ کار سرکاری نوکری ہے۔ مجھے بچپن کی ایک کہاوت یاد آرہی ہے-پڑھو گے-لکھو گے بنوگے نواب، کھیلوگے-کودوگے ہوگے خراب۔ اس خراب ہونے کا مطلب تھا کوئی اچھی سرکاری نوکری نہیں ملے گی۔ اگر ہم منافقت کو کچھ دیر کے لیے درکنار کردیں تو ہمیں تسلیم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہوگا کہ ہمارے یہاں تعلیم حاصل کرنے کا اہم مقصد ایک اچھی(عام طور پر سرکاری) نوکری حاصل کرنا ہے۔ اور اب تو کسی بڑے مقابلہ میں کامیابی حاصل ہوتے ہی گلیمر اور سات-آٹھ نمبروں والے انعام و اکرام کی بوچھار اضافی کشش بن گئے ہیں۔ حکومت نے بھی کھیلو انڈیا جیسے پروگراموں کے ذریعہ کھلاڑیوں کو وسائل مہیا کرائے ہیں۔
جمہووریت کی کامیابی کا مرکزی نقطہ اپنے شہریوں کو محنت پر معاشی خوشحالی میں اپنا حصہ حاصل کرنے کا موقع فراہم کرنا ہوتا ہے۔ کم سے کم اس کسوٹی پر تو ہندوستانی جمہوریت کچھ حد تک کامیاب ہوتی نظر آئی۔ زیادہ تر کھلاڑی معنی اور ذات جیسے دو پیمانوں پر جانچنے میں حاشیہ پر ہی نظر آئیں گے۔کبھی کوئی سوشولوجسٹ اپنے اوزاروں سے اولمپک کھلاڑیوں کا تجزیہ کرے گا تو اسے ہندوستانی معاشرہ کی روایتی سمجھ گڑبڑاتی نظر آئے گی۔ وہ پائے گا کہ ان میں آدھے سے زیادہ دلت اور پسماندہ ذاتوں سے آتے ہیں، جنہیں عام طور سے قیادت کا کردار نہیں دیا گیا ہے، لیکن ایک مرتبہ ذات کی جکڑن سے آزاد ہوتے ہی ان کی تخلیقی صلاحیت کی بلندی کیا ہوگی، یہ انہوں نے دکھا دیا۔ مجھے اس کا مقابلہ 1971کی جنگ سے کرنے کا دل کررہا ہے، جسے تاریخ کی زیادہ تر بڑی جنگیں ہارنے والا معاشرہ پسماندہ اور دلتوں کی فیصلہ کن شراکت داری کے سبب جیت گیا۔ذات کی یہ جکڑن کتنی مضبوط ہے، اس کا علم اس بات سے ہوتا ہے کہ خاتون ہاکی ٹیم کی اسٹار کھلاڑی وندنا کٹاریا کی کامیابی سے چڑھ کر ان کے کچھ پڑوسیوں نے ان کے خلاف ذات پات سے متعلق گندے نعرے لگائے۔ یہ ایک الگ دلچسپ حقیقت ہے کہ تین میں دو ملزم خود پسماندہ ذاتوں کے ہیں اور دو ریاستی سطح کے ہاکی کھلاڑی رہ چکے ہیں۔
ذات کے علاوہ معاشی عدم مساوات پر بھی اس مرتبہ ایک نظر آنے والا حملہ ہوا۔ زیادہ تر کھلاڑیوں کے کنبوں کے معاشی حالات ایسے نہیں تھے کہ وہ اپنے بچوں کو کھیلوں کی مہنگی تیاریاں کراسکیں۔ کئی ماؤں نے گھروں میں کام کیے، کئی والد نے سخت ترین محنت کرکے بچوں کو غذائیت سے بھرپور غذا مہیا کرائی اور ان راتوں کا حساب لگانا تو ممکن ہی نہیں، جب کنبہ کے ممبر پیٹ بھرے ہونے کا بہانہ بناکر بھوکے سوگئے، تاکہ مستقبل کے کھلاڑی کی ضرورت پوری ہوسکے۔ یہ کیا کم تعجب خیز ہے کہ میدان میں جن گن من گانے والی خاتون ہاکی کھلاڑیوں میں ہندو، سکھ، عیسائی اور مسلمان کھڑی تھیں۔ عام طور سے ہمارا معاشرہ غریب مخالف ہے اور کورونا بحران میں تو یہ ثابت بھی ہوگیا، لیکن کھیلوں کی دنیا نے کچھ حد تک یقین دہانی کرائی ہے کہ محنت اور لگن سے معاشی حاشیہ پر کھڑا معاشرہ بھی ترقی کے دروازے کھول سکتا ہے۔
بڑی آبادی، تین ٹریلین ڈالر کی معیشت والے اور ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہندوستان کے تمغوں کی تعداد(7) پہلی نظر میں مایوس کرسکتی ہے لیکن نہیں بھولنا چاہیے کہ پہلی مرتبہ کسی اولمپک میں ہندوستان اتنا بھرپور نظر آیا۔ پہلے ہی دن میرابائی چانو کے چاندی والے مظاہرہ سے ہوئی شروعات آخری دن تک چلتی رہی۔
ان سب سے اوپر یہ اولمپک ملک میں ہاکی کی واپسی کی آہٹ دینے والا ایونٹ ثابت ہوا۔ تصور کیا جاسکتا ہے کہ اگر ایک اکیلے وزیراعلیٰ نوین پٹنائک کی کوشش سے ہاکی اس مقام تک پہنچ سکتی ہے تو نیا پیدا ہوا قومی جنون اسے کہاں تک لے جائے گا۔
(مضمون نگار سابق آئی پی ایس افسر ہیں)
(بشکریہ: ہندوستان)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS