عدم اعتماد کے ساتھ مذاکرات کی میز پر!

0

صبیح احمد

امریکہ اور ایران کے درمیان 3 ہفتوں میں بات چیت کے تیسرے دور نے ایران کے نیوکلیائی معاہدے کی امیدیں بڑھا دی ہیں، جو مشرق وسطیٰ کے ایک نئے تنازع کو ٹال سکتا ہے۔ اب تک کی پیش رفت سے صدر ٹرمپ اتنے پر امید ہیں کہ انہیں یہ کہتے ہوئے ذرا بھی ہچک محسوس نہیں ہوئی کہ انہیں یقین ہے کہ ایک معاہدہ رسائی میں ہے۔ ایران اور امریکہ کے سینئر حکام اور تکنیکی ماہرین کے درمیان تیسرے دور کے مذاکرات کو ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے ’انتہائی سنجیدہ‘ قرار دیا ہے اور یہ بھی کہا ہے مذاکرات میں ممکنہ معاہدے کی تفصیلات پر توجہ مرکوز کی گئی۔ حالانکہ انہوں نے تہران اور واشنگٹن کے درمیان موجود اختلافات کا اعتراف بھی کیا، لیکن وہ ’محتاط طور پر آگے بڑھنے کے لیے پر امید ہیں۔‘مذاکرات کا اگلا دور عمان کی ہی ثالثی میں کسی یوروپی ملک میں ہونے کی بات کہی جا رہی ہے۔ مذاکرات کو انتہائی سنجیدہ اور نتیجہ خیز قرار دیتے ہوئے عراقچی کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’ہم کچھ بڑے مسائل کو حل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم نے اپنے تمام اختلافات کو ختم کر لیا ہے۔ ہمارے درمیان بڑے اور چھوٹے ایشوز پر اختلافات ہیں، لیکن ہمارے اختلافات کو کم کرنے کے لیے اس ہفتہ دارالحکومتوں میں بات چیت ہوگی۔‘
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی کے ساتھ پھر سے متحرک ہوگئے ہیں۔ گویا وہ نئے سرے سے ایرانی چیلنجوں کو بڑھا رہے ہیں۔ وہائٹ ہاؤس میں واپسی کے بعد ٹرمپ نے ایران کے خلاف اقتصادی پابندیوں کو بھی صد فیصد بڑھا دیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ صدر ٹرمپ نے ایران کے خلاف اسرائیل کے ممکنہ فوجی اقدامات کی بھرپور حمایت کا بھی اشارہ دے دیا ہے۔ ممکنہ طور پر اسی دباؤ کو کم کرنے کے لیے ایرانی قیادت نے کچھ ٹیکٹیکل نوعیت کی تبدیلیاں ظاہر کرنا شروع کر دی ہیں جس میں اپنے آپ کو مذاکرات کی طرف مائل دکھانا، امریکہ کے ساتھ نیوکلیائی معاہدہ کی تجدید کی خواہش کا اظہار بھی شامل ہے۔ تہران کا تاریخی طور پر یہ وطیرہ رہا ہے کہ جب بھی اسے سفارتی دباؤ کا زیادہ سامنا ہوا تو اس نے اپنے آپ کو مذاکرات میں مصروف کرنے کی کوشش کی اور وقت حاصل کر لیا۔ یوں ایران نے اکثر مذاکراتی عمل کا حصہ بننے کو وقت حاصل کرنے کے ایک حربہ کے طور پر استعمال کیا ہے اور فوری خطرات سے نکلنے کی کوشش کی ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے اپنے نیوکلیائی پروگرام پر بھاری سرمایہ کاری محض توانائی کی ضروریات کے لیے یا اپنے دفاع کے لیے نہیں کی ہے بلکہ اس کی سرمایہ کاری اس کے قومی جوہری تفاخر و قوت کی بھی ضرورت ہے۔ ایران نے تمام تر پابندیوں اور رکاوٹوں کے باوجود ہتھیاروں اور ٹکنالوجی کے شعبے میں اتنی بڑی کامیابی حاصل کر کے دکھا دی ہے۔ ایرانی سپریم لیڈر خامنہ ای اور پاسداران انقلاب نے ایک عرصہ سے اپنے نیوکلیائی پروگرام میں مسلسل پیش رفت کو مغربی و امریکی پابندیوں کے باوجود اپنی غیرمعمولی اور ناقابل شکست صلاحیتوں کے کھاتے میں پیش کیا ہے۔ گزشتہ سال کے دوران جب اسرائیل نے ایران پر حملے کیے تو ایران کو شدید جغرافیائی سیاسی دھچکے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اسرائیلی حملے کے نتیجے میں ایران کا علاقائی اثر و رسوخ مجروح ہوا ہے۔ اس کی سب سے اہم مثال شام کی ہے۔ بشار الاسد کے اقتدار کے خاتمہ نے ایران کو مزید کمزور اور تنہا کر دیا ہے۔ اسد حکومت کے خاتمہ نے ایران کی اپنی اتحادی ملیشیاؤں کے ساتھ سپلائی اور ہم آہنگی کی صلاحیت کو بھی بری طرح متاثر کر دیا ہے۔ یوں ایران کا خطہ میں منظم کردہ ’نیٹ ورک‘ جو ایرانی خارجہ پالیسی کا اہم ستون ہے، ہر جگہ سے بڑھتے ہوئے دباؤ کی زد میں آ چکا ہے۔ ان بار بار کے دھچکوںنے ایران کو ماضی کے مقابلے انتہائی زیادہ نقصان سے دوچار کر دیا ہے۔ یہ حالات ایران کے لیے وقت سے کہیں زیادہ خطرناک ہیں۔
اب ایک نیا نیوکلیائی معاہدہ ایران اور اسرائیل اور امریکہ کے درمیان وسیع تر تنازع کو مؤخر کرسکتا ہے یا اسے ٹال سکتا ہے۔ 7 اکتوبر 2023 کو غزہ میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے اسرائیل اور ایران نے ’پراکسی نہیں‘ بلکہ براہ راست حملوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ نیویارک ٹائمس نے گزشتہ دنوں ایک رپورٹ شائع کی تھی کہ اسرائیل نے آئندہ ماہ شروع ہوتے ہی ایرانی نیوکلیائی تنصیبات پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا تھا، لیکن اسرائیلیوں کو ٹرمپ نے روک دیا، جو اس طرح کے حملوں کے بجائے تہران کے ساتھ ایک معاہدہ پر بات کرنا چاہتے تھے۔ ٹرمپ کا کہنا تھاکہ ’ہم حملے کے بغیر ایک معاہدہ کر سکتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ ہم کر سکتے ہیں۔‘ ٹرمپ کی اسی امید کے تحت نیوکلیائی مذاکرات کا پہلا دور 2 ہفتے قبل عمان میں ہوا تھا، اس کے بعد دوسرا دور گزشتہ ہفتہ کے اواخر میں روم میں ہوا۔ مذاکرات کے ان دونوں ادوار کے بعد دونوں فریقوں نے مذاکرات کو تعمیری قرار دیا تھا اور درست سمت میں آگے بڑھنے کی بات کہی تھی۔ اب تیسرے دور کی ’سنجیدہ‘ بات چیت بھی مکمل ہو چکی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ایرانی حکام اوباما انتظامیہ کے ساتھ 2015 کے نیوکلیائی معاہدہ میں متعین کردہ افزودگی کی سطح — 3.67 فیصد — تک کم کرنے کے لیے تیار ہیں، یعنی نیوکلیائی پاور پلانٹس کے لیے ایندھن پیدا کرنے کے لیے درکار سطح کے قریب تک۔ بہرحال ایران کو یورینیم کی افزودگی جاری رکھنے کی اجازت دینے کے سوال نے ٹرمپ کے مشیروں کو تقسیم کر دیا ہے۔ گزشتہ ماہ قومی سلامتی کے مشیر مائک والٹز نے کہا تھا کہ ایران کو اپنے جوہری پروگرام کو مکمل طور پر ختم کرنا ہو گا۔ دوسری جانب مشرق وسطیٰ کے لیے امریکی صدر کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف کا کہنا ہے کہ ایران کو 3.67 فیصد افزودگی کی اجازت دی جا سکتی ہے، جیسا کہ 2015 کے معاہدے میں طے پایا تھا۔ وہیں امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے واضح کیا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ ایران کو سول نیوکلیئر پروگرام رکھنے کی اجازت دینے کے لیے تیار ہے، بشرطیکہ وہ صرف درآمد شدہ ایندھن پر انحصار کرے۔
ان حالات میں دونوں فریق گہرے عدم اعتماد کے ساتھ مذاکرات کی میز پر آئے ہیں۔ سابقہ معاہدہ کی ناکامی کے پس منظر میں دونوں ہی فریق پھونک پھونک کر قدم آگے بڑھا رہے ہیں۔ اوباما انتظامیہ کے دور میں ایران اور امریکہ اور دیگر عالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والے سابقہ معاہدہ کو ’ جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن‘ کہا جاتا تھا۔ اس کے تحت ایرانی نیوکلیائی پروگرام کو اسلحہ بنانے سے روکنے کے لیے یورینیم کی افزودگی کو 3.5 فیصد تک محدود کرنے، افزودہ یورینیم کے ذخیرے کو روس منتقل کرنے اور بین الاقوامی نیوکلیائی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کو نگراں کیمرے نصب کرنے اور معائنہ کی اجازت دینے کے اقدامات کیے گئے تھے۔ بعد میں امریکی پابندیوں کے خوف سے یوروپی کمپنیاں ایران سے نکل گئیں اور بینکوں نے ایران کے ساتھ کام کرنا چھوڑ دیا۔ ٹرمپ کے 2018 میں ایرانی نیوکلیائی معاہدہ سے نکلنے کے تقریباً ایک سال بعد ایران نے کوئی مالی فائدہ نہ دیکھتے ہوئے مذکورہ معاہدہ کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں سے ہٹ کر یورینیم کی افزودگی کی سطح کو بڑھادیا، جو آہستہ آہستہ 60 فیصد تک پہنچ گئی۔
اب آگے کیا ہونے والا ہے؟ یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ فی الحال ایک نئی ڈیل تک پہنچنے کے لیے دونوں طرف سیاسی خواہش دکھائی دیتی ہے اور بات چیت جاری رکھنے پر دونوں ہی فریق متفق ہیں۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای جنہوں نے ماضی میں ٹرمپ کے ساتھ مذاکرات پر پابندی عائد کر دی تھی، نے مذاکرات کی اجازت دے دی ہے اور کہا ہے کہ مذاکراتی ٹیم کو ان کی حمایت حاصل ہے، لیکن ضروری نہیں کہ کوئی معاہدہ عنقریب ہی ہو۔ بات چیت ’تکنیکی سطح‘ پر اب بھی ٹوٹ سکتی ہے، جو گزشتہ مذاکرات کا سب سے مشکل حصہ تھا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یورینیم کی افزودگی کو منجمد کرنے کے لیے ایک عبوری معاہدہ طے پا جائے جبکہ ایک مستقل معاہدہ نہ ہو پائے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS