از قلم رضوان ریاضی(ایڈیٹر ماہنامہ رھنما وڈائریکٹر قرآن گھر اکیڈمی بتیا، بہار)
آج مورخہ 15 نومبر 2022 ء بروز منگل اردو صحافتی دنیا کے معروف قلمکار جناب اشرف استھانوی اللہ کے پیارے ہو گئے انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔
مرحوم اشرف استھانوی کا اصل نام ضیاء الاشرف تھا مگر قلمی دنیا میں وہ اشرف استھانوی سے مشہور ہوئے۔ ان کی ولادت 2 فروری 1967 ء میں بہار کے ضلع نالندہ کی مردم خیز بستی استھانواں میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم گاوں کے مکتب میں ہوئی اور 1984ء میں انھوں نے پٹنہ یونیورسٹی سے بی اے آنرس کی ڈگری لی اور اس کے بعد جامعہ اردو علی گڑھ سے بھی کئی ایک ڈگریاں حاصل کیں۔ پھر انھوں نے صحافت کی دنیا میں قدم رکھا اور اس میدان میں دور بہت دور نکل گئے اور آگے نکلتے ہی چلے گئے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ انھوں نے کئی ایک دینی، ملی، سماجی، رفاہی اور سیاسی تنظیموں کی طرف سے ایوارڈ بھی لیا مگر ہمیشہ اپنے قلم سے حق کی آواز کو بلند کیا۔ پٹنہ کی سرزمین پر انھوں عوامی اردو نفاذ کمیٹی کی بنیاد رکھ کر حکومت کی توجہ برابر اردو زبان کی طرف دلائی اور اردو کی ترقی کی جنگ لڑتے رہے۔ فاربس گنج پر جب ان کی کتاب منظر عام پر آئی تو پورے بہار میں تہلکہ ڈاٹ کام مچ گیا۔ سرکاری محکموں میں اس کتاب کی گونج سے درو دیوار تک ہلنے لگی تھی۔
شاید ہی کوئی سیاسی رھنما ہوگا جو اشرف استھانوی کی قدرومنزلت نہیں جانتا پہچانتا ہوگا۔ انھوں نے وزرائے حکومت سے لے کر وزیر اعلی بہار نتیش کمار تک، تقریباً سبھوں کے قد کو قدآور بنانے میں نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ وہ ہر کسی کے اچھے کاموں کو مثبت انداز میں دیکھا بھی کرتے تھے اور اس کے بارے میں مثبت لکھا بھی کرتے تھے۔ انھوں نے میرے اور میرے علمی اور رفاہی کاموں کے بارے میں ہندوستان کے کئی ایک اخبارات ورسائل میں لکھا تھا۔
میرا رابطہ مرحوم اشرف استھانوی سے اس وقت ہوا جب وہ اردو صحافت کے آسمان چھو رہے تھے۔ ان کے مضامین دنیا کے معروف ومشہور رسائل وجرائد میں شائع ہو رہے تھے۔ آفاقِ عالم میں ان کی تحریروں کی گونج سنائی دے رہی تھی۔
میں نے قرآن گھر کی بنیاد 7 نومبر 2010ء کو رکھی تھی۔ یہ کوئی سن 2014ء کی بات ہے جب قرآن گھر اپنے ابتدائی دور میں تعلیم وتربیت کا فریضہ انجام دے رہا تھا۔ حفظ قرآن کریم کے ساتھ میٹرک کی تیاری کے حوالے سے اس کا شہرہ پورے بہار میں تھا۔ مرحوم اشرف استھانوی بھی غائبانہ قرآن گھر اکیڈمی کے بارے میں جان چکے تھے۔ اسی درمیان ڈاکٹر نسیم احمد نسیم (جوائنٹ ایڈیٹر ماہنامہ رھنما) نے خوشخبری سنائی کہ روزنامہ انقلاب پٹنہ کے چیف ایڈیٹر جناب احمد جاوید اور اردو دنیا کی ایک نایاب شخصیت جناب اشرف استھانوی قرآن گھر اکیڈمی بتیا میں تشریف لانے والے ہیں۔ میں نے دونوں شخصیات کے لیے اُن کے شایانِ شان استقبالیہ پروگرام منعقد کرنے کا پلان کیا- میری ٹیم نے قرآن گھر اکیڈمی کے آڈیٹوریم میں پروگرام رکھا جس میں شہر اور علاقے کے سرخیل حضرات نے شرکت کی۔ جناب اشرف استھانوی نے پروگرام کو خطاب کیا اور بہت ہی شاندار اور معلوماتی تقریر کی۔ اس وقت قرآن گھر اکیڈمی کی بلڈنگ زیر تعمیر تھی اور اسی ادھوری بلڈنگ میں ادارہ چل رہا تھا۔
اس کے بعد میرے اور جناب اشرف استھانوی کے درمیان مراسلہ اور ٹیلیفونک گفتگو کا سلسلہ چلتا رہا اور فیس بک اور واٹس ایپ پر گاہے بگاہے مختلف موضوعات پر باتیں ہوتی رہتیں۔ پھر دوسری مرتبہ سن 2018ء میں قرآن گھر اکیڈمی میں منعقدہ ایک سیمینار میں جناب اشرف استھانوی اور روزنامہ تاثیر پٹنہ کے چیف ایڈیٹر جناب ڈاکٹر محمد گوہر دونوں صاحبان میری دعوت پر تشریف لائے اور دونوں نے سیمینار میں پُرمغز خطاب کیا۔ اس مناسبت سے قرآن گھر اکیڈمی کی پانچ منزلہ فلک بوس عمارت دیکھ کر جناب اشرف استھانوی نے انتہائی محبت کا اظہار کیا تھا اور فرمایا تھا کہ رضوان ریاضی نام ہے کبھی نہ رکنے والے نہ تھکنے والے نہ جھکنے والے نہ ڈرنے والے نہ ارادہ بدلنے والے بلکہ مسلسل چلتے رہنے والے ایک فاضل جوان کا جو لکھتا بھی ہے پڑھتا بھی ہے، تقریر بھی کرتا ہے بھاشن بھی دیتا ہے، سماجی خدمات بھی انجام دیتا ہے سیاست بھی کرتاہے، علم نواز بھی ہے ادب نواز بھی ہے، علمائے کرام کو بھی مدعو کرتا ہے شعرائے عظام کو بھی دعوت دیتا ہے، ایک ہی اسٹیج پر ادب کی محفل بھی سجاتا ہے اور دعوت وتبلیغ کی محفل بھی جماتا ہے۔ میں دل کی گہرائیوں سے اس فاضل جوان کو دعائیں دیتا ہوں اور مستقبل میں مجھے ان سے بے شمار توقعات وابستہ ہیں۔
جب میں نے دہلی میں ریاضی ففٹی اور جامعہ عزیزیہ کھولا تو انھوں نے ہمارے کنسیپٹ کو بہت سراہا اور برابر رابطے میں رہے۔ اشرف استھانوی خاص کر اردو زبان کی خدمت کے لیے ہمیشہ کچھ نہ کچھ پلان بتلاتے اور حکومتی اداروں کو اردو کے حوالے سے بیدار رکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ وہ ہمیشہ مجھ سے ادبی،سیاسی اور سماجی گفتگو کرتے تھے۔
آج تقریباً 55 سال کی عمر میں وہ ہم سے جدا ہوگئے اور تمام اردو حلقے کو سوگوار کر گئے۔ مگر ہمیں یقین نہیں ہو پا رہا ہے کہ یقیناً وہ ہم سے ہمیشہ ہمیش کے لیے رخصت ہو ہی گئے ہیں۔ یا اللہ! یہ کیسی آزمائش ہے کہ صبر نہیں ہوتا!! مگر تیرے فیصلے کو سلام کے علاوہ کچھ کہا بھی کیا جا سکتا ہے!!
رب کریم، ٹھیک ہے تونے ہمارے محبوب صحافی کو اپنے گھر بلا لیا، یہ تیرا مکمل حق بھی ہے اور تیرا فیصلہ ہمیں قبول!! مگر میرے آقا اپنے بندے استھانوی کو اپنے دامنِ رحمت میں جگہ دینا اور میرے علاوہ دیگر پسماندگان کو صبر جمیل عطا کرنا!!