آسام جل رہا ہے،بلڈوزروں کی گرج،بے دخلی کے نوٹس اور چیختے بلکتے معصوموں کے درمیان ریاستی جبر ایک نئے مرحلے میں داخل ہوچکا ہے۔جس کا ہدف زمین سے زیادہ انسان اور پالیسی سے بڑھ کر پہچان ہے۔ وزیراعلیٰ ہیمنت بسوا سرما اس پورے منصوبے کے معمار ہیں۔
انتخابات سے عین قبل ہیمنت بسوا سرما کی قیادت میں بی جے پی حکومت نے جس بے رحمی سے سرکاری اراضی واگزار کرنے کے نام پر غریب،پسماندہ اور زیادہ تر بنگالی بولنے والے مسلمانوں کو ان کے گھروں،زمینوں،عبادت گاہوں حتیٰ کہ قبروں تک سے بے دخل کیا ہے،اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مہم کسی ماحولیاتی یا قانونی ضرورت سے نہیں بلکہ مسلمانوںکے خلاف نفرت انگیز ایجنڈے سے چلائی جا رہی ہے۔
کل 23 جولائی 2025 کو آسام کے وزیراعلیٰ ہیمنت بسوا سرما نے دعویٰ کیا کہ ریاست میں مسلمانوں کی آبادی 2041 تک ہندوئوں کے برابر ہوجائے گی۔ ان کے بقول اگر موجودہ شرح نمو برقرار رہی تو مسلمانوں کی آبادی 50 فیصد کو چھو لے گی۔گویا بچوں کی پیدائش اب ریاستی خطرہ بن گئی ہے اور اسی خوف کے ہالے میں وہ بے دخلی کی اپنی مہم کو ’’آبادیاتی تحفظ‘‘ کا نام دے کراسے جائزٹھہرارہے ہیں۔
ان کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا جب صرف ایک دن پہلے گوال پاڑہ ضلع کے پائیکر جنگلاتی علاقے میں ریاستی حکومت نے بلڈوزر مہم کے تحت پانچ ہزار سے زائد خاندانوں کو بے دخل کر دیا۔ ان میں سے 90 فیصد سے زائد افراد بنگالی بولنے والے مسلمان تھے جو برسوں سے دریا کے کٹائو سے بے گھر ہو کر ان زمینوں پر آباد ہوئے تھے۔ سرکاری دعوئوں کے برعکس ان میں سے بیشتر افراد کے پاس 1951 سے قبل کی اسناد،زمین کی رسیدیں اور ووٹر شناختی کارڈ موجود تھے،لیکن انہیںمشکوک شہری قرار دے کر ان کے گھروں، مدرسوں،مساجد اور یہاں تک کہ قبرستانوں کو بھی زمین بوس کر دیا گیا۔
گزشتہ چار برسوں میں کم از کم تقریباً 43ہزارایکڑ اراضی خالی کرائی گئی ہے۔ صرف گوال پاڑہ کے پائیکر علاقے میں حالیہ کارروائی کے دوران پانچ ہزار خاندانوں کو بے گھر کیا گیا۔ 2021 میں درنگ اور لامڈنگ،2022 میں بارپیٹا اور 2023-24 میں لکھیم پور، دھوبری، گولاگھاٹ اور گوال پاڑہ جیسے اضلاع میں یہی کہانی دہرائی گئی۔ قابل غور بات یہ ہے کہ ان تمام علاقوں میںآبادی کا بڑا حصہ بنگالی بولنے والے مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ وہ لوگ جن کے پاس این آرسی میں بھی شہریت ثابت کرنے کیلئے کاغذات موجود نہیں،ان سے کہا جا رہا ہے کہ وہ ریاستی جبر کے خلاف خود کو بے گناہ ثابت کریں۔ اس وقت آسام میں 19.6لاکھ افراد این آرسی سے باہر ہیں،جن میں بڑی تعداد مسلمانوں کی ہے۔ ان کی شہریت عدالتوں اور حراستی مراکز کے رحم و کرم پر ہے۔
ہیمنت سرما کی مہم محض انتظامی نہیں ایک مکمل ثقافتی، مذہبی اور نسلی صف بندی ہے۔ وہ سوال اٹھاتے ہیں کہ جنوبی آسام کے لوگ مشرقی آسام کیوں جارہے ہیں؟ کیا غربت میں انسان راستے نہیں تلاش کرتا؟ کیا دریا کے کٹائو سے بے گھر ہونے والوں کیلئے سرکاری اراضی پر بسنے کے سوا کوئی چارہ ہے؟ لیکن وزیراعلیٰ کو ان سوالات سے دلچسپی نہیں،انہیں صرف یہ دکھائی دیتا ہے کہ بنگالی مسلمان کہاں بستے ہیں اور کس طرح انہیں وہاں سے نکالا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ جن علاقوں میں آسامی ہندو اکثریت میں ہیں، وہاں ایسی مہمات نہیں چلائی جاتیں۔ وزیراعلیٰ یہ بھی کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ نے سرکاری زمین کو تجاوزات سے پاک کرنے کے احکامات دیے ہیں۔ اگر واقعی یہ قانونی حکم ہے، تو اس پر عمل درآمد سب پر یکساں ہونا چاہیے۔ لیکن یہاں صرف مسلمانوںکو چن چن کر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ اس ساری مہم کو جنگلات کی بحالی، جنگلی حیات کی واپسی اور ماحولیات کے تحفظ کا لبادہ پہنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ جبکہ زمینی حقیقت یہ ہے کہ یہ مہم انسانی زندگی،روزی روٹی،تعلیم،عبادت اور امن کو روندتی ہوئی آگے بڑھ رہی ہے۔ ایک بار جب کسی کا گھر بلڈوزر کے نیچے آ جائے،اس کی ماں کی قبر بے حرمتی کا شکار ہو جائے،بچے اسکول سے محروم ہوجائیں تو جنگل کے ہاتھیوں کی واپسی کس کام کی؟
وزیراعظم کا نعرہ ’’سب کا ساتھ،سب کا وکاس‘‘ آسام میں دفن ہوچکا ہے۔ یہاں اب صرف’’اکثریت کا اقتدار، اقلیت کی بربادی‘‘ کا ماڈل نافذ ہے۔ بی جے پی اپنے کارپوریٹ مفادات کیلئے زمین خالی کروا رہی ہے اور مذہب کے نام پر عوام کو بانٹ کر ووٹوں کی فصل کاٹ رہی ہے۔ اس تمام ظلم،جبر اور ناانصافی کے باوجود،اپوزیشن کی آواز کمزور ہے،عدلیہ خاموش اور میڈیا کا بڑا حصہ اس ریاستی تشدد کا محافظ بنا ہوا ہے۔
یہ سب محض آسام کی اندرونی سیاست نہیں، یہ ہندوستانی آئین کی روح پر حملہ ہے۔ اگر آج آسام میں بنگالی مسلمان، کل بہار میں دلت،پرسوں تمل ناڈو میں عیسائی یا سکھ کو نشانہ بنایا جائے،تو جمہوریت کا کیا باقی رہے گا؟ یہ آگ صرف آسام کو نہیں جلائے گی،پورے ہندوستان کو خاکستر کر دے گی۔