ڈاکٹر حافظ کر نا ٹکی
اللہ تبارک و تعالیٰ کا بے انتہا کرم ہے کہ اس نے زندگی کو اللہ کی پسند کے مطابق گذارنے کا طریقہ سکھانے کے لیے انبیاء کرام کو مبعوث فرمایا اور قرآن مجید جیسی گرانقدر نعمت سے نوازا، اگر حضورؐ تشریف نہیں لاتے اور عملی طور پر زندگی کا درس نہیں دیتے تو شاید ہم یہ نہیں جان پاتے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی عبادت کس طرح کی جاتی ہے۔ اللہ کو راضی کرنے کے کون کونسے عملی اقدامات، طریقے اور عبادات ہیں۔
یہ اللہ کا بہت ہی عظیم کرم ہے کہ اس نے اپنی لافانی کتاب قرآن مجید اور اپنے آخری اور محبوب بندے حضرت محمدؐ کے توسط اور تعلیمات کے ذریعے ہمیں دنیا و آخرت کی کامیابی حاصل کرنے کے طریقے اور اصول سکھائے، گناہوں پر توبہ کرنے کے آداب سکھائے، رنج والم کے عالم میں خدا سے مدد مانگنے کے راز سے آگاہ کروایا۔ خوشی میں اعتدال اور میانہ روی اختیار کرنے کے اطوار سے آگاہ کیا، حد یہ کہ یہ تک سکھایا کہ اللہ سے دعا کس طرح مانگیں۔ اور کن الفاظ میں مانگیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ دعا کے لیے کسی خاص زبان، انداز یا الفاظ کی قید نہیں ہے۔ بندہ اپنے خدا سے جس زبان میں اور جس الفاظ اور بیان کے جس پیرائے میں چاہے مانگ سکتا ہے۔ مگر اللہ تبارک و تعالیٰ کا لطف خاص اور بے انتہا کرم دیکھیے کہ اس نے یہ تک بتادیاکہ مجھ سے یہ مانگو اور اس طرح مانگو، دعاؤں کے الفاظ تک سکھادیے اور یہ بھی بتادیا کہ مومن کو دین و دنیا کی فلاح اور کامیابی کے لیے کیاطریقہ اختیار کرناچاہیے، کونسا نقطہ نظر اپناناچاہیے اور یہ کہ کن تمناؤں اور آرزوؤں سے اپنے دل سے گریز کرنا چاہیے۔ اللہ کا کرم دیکھیے کہ اس نے اپنے فضل و کرم سے دین و دنیا کی کوئی حاجت اور خیر کا کوئی ایسا پہلو نہیں چھوڑا جس کے لیے دعا نہ سکھائی گئی ہو اس لیے کہا جاتا ہے کہ بہتر طریقہ یہ ہے کہ آپ خدا سے قرآن و سنت کے بتائے ہوئے الفاظ ہی میں دعا مانگیں۔ اور انہیں دعاؤں کو ورد حیات بنائیں جو قرآن میں نقل کی گئی ہیں یا مختلف اوقات میںجو نبی اکرمؐ نے مانگی ہیں۔
دعا مانگتے وقت اس بات کا خاص الخاص خیال رکھیے کہ دعا صرف اور صرف خدائے تعالیٰ سے مانگی جاتی ہے۔ اس کے سوا کبھی کسی کو حاجت روائی کے لیے نہیں پکارا جاتا ہے۔ خدا کے سوا کسی اور کو حاجت رواسمجھنا انسان کو مشرک بنادیتا ہے۔ شرک کا معاملہ بہت نازک ہو تا ہے اس لیے دعا کے وقت خالص من سے اور کامل یقین سے اپنے رب کو یادکرناچاہیے، دعا دراصل عبادت کا جوہر ہوتا ہے اور عبادت کے لائق اللہ کے سواکوئی نہیں ہے۔ ہرگز نہیں ہے اس لیے دعا مانگتے وقت بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ قرآن پاک کا فرمان ہے؛’’اسی کو پکارنا برحق ہے، اور یہ لوگ اس کو چھوڑ کر جن ہستیوں کو پکارتے ہیں وہ ان کی دعاؤں کا کوئی جواب نہیں دے سکتے، ان کو پکارنا تو ایسا ہے جیسے کوئی شخص اپنے دونوں ہاتھ پانی کی طرف پھیلا کر چاہے کہ پانی دور ہی سے اس کے منہ میں آپہنچے، حالاں کہ پانی اس تک کبھی نہیں پہونچ سکتا، بس اسی طرح کافروں کی دعائیں بے نتیجہ بھٹک رہی ہیں۔‘‘ (الرعد ۱۴)
حاجت روائی، اور کارسازی کے سارے اختیارات خدا ہی کے ہاتھ میں ہے، حالات کو بدلنے اور سدھارنے کی طاقت بہ جز خدا کے کسی کے پاس نہیں ہے۔ اس کے سوا سب کے سب بے اختیار اور مجبور محض ہیں سب کے سب اسی کے محتاج ہیں، اسی کے بندے اور غلام ہیں، اس کے سوا کوئی نہیں ہے جو بندوں کی پکارسنے اور اس کی دعاؤں کا جواب دے۔ قرآن کریم میں آیا ہے کہ؛’’انسانو! تم سب اللہ کے محتاج ہو، اللہ ہی ہے جو غنی اور بے نیاز اور اچھی صفات والا ہے۔‘‘ (فاطر ۱۵)
حضورؐکا ارشاد ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ؛’’میرے بندو! میں نے اپنے اوپر ظلم حرام کرلیا ہے، تو تم بھی ایک دوسرے پر ظلم و زیادتی کو حرام سمجھو، میرے بندو! تم میں سے ہر ایک گم راہ ہے سوائے اس کے جس کو میں ہدایت دوں، میرے بندو! تم میں سے ہر ایک بھوکا ہے سوائے اس شخص کے جس کو میں کھلاؤں، پس تم مجھ ہی سے روزی مانگو تا کہ میں تمہیں روزی دوں، میرے بندو! تم میں سے ہر ایک ننگا ہے سوائے اس کے جس کو میں پہناؤں، پس تم مجھ سے لباس مانگو میں تمہیں پہناؤں گا، میرے بندو! تم رات میں بھی گناہ کرتے ہو اور دن میں بھی اور میں سارے گناہ معاف کردوں گا۔‘‘اور آپؐ نے ایک جگہ اور ارشاد فرمایا ہے کہ؛’’انسان کو اپنی چھوٹی سے چھوٹی ضرورت کیلئے بھی خدا ہی کی طرف متوجہ ہوناچاہیے، اس کے سوانہ کوئی دعاؤں کا سننے والا ہے اور نہ کوئی مرادیں پوری کرنے والا ہے۔‘‘
ایمان کا تقاضہ بھی یہی ہے، جب ہم اللہ پر ایمان لاتے ہیں، اور اسے مالک حقیقی، قادرالمطلق جانتے ہیں اور اس کا اقرار کرتے ہیں، اور اس بات پر کامل یقین رکھتے ہیں کہ ہمارے ساتھ اور اس کائنات میں جو کچھ بھی ہوتا ہے اسی کی مرضی سے ہوتا ہے اور یہ کہ اس کی مرضی سے ایک پتہ بھی نہیں ہل سکتا ہے تو ظاہر ہے کہ کسی دوسرے سے کوئی امید کیسے لگائی جاسکتی ہے۔مانگتے وقت بھی خیال رکھنا چاہیے کہ کس سے کون سی چیز مانگی جاسکتی ہے۔ خدا سے صرف وہی کچھ مانگنا چاہیے جو حلال ہو، طیب ہو، پاک ہو، لطیف ہو، ناجائز مقاصد، نجی مفاد، اور گناہوں کے کاموں کیلئے خدا کے حضور ہاتھ پھیلانا انتہائی درجے کی بے حیائی، گستاخی اور بے شرمی ہے۔ حرام اور ناجائز مرادوں کے پورا ہونے کے لیے، یاناجائز مقاصد کی تکمیل کے لیے خدائے تعالیٰ سے دعائیں کرنا اور منتیں ماننا دین کے ساتھ بدترین مذاق ہے۔ اسی طرح ان باتوں کے لیے بھی دعائیں نہیں مانگنی چاہیے جو خدا نے ازلی طور پر طے فرمادی ہیں اور جن میں تبدیلی نہیں ہوسکتی۔ مثلاً کوئی کا لاگورا ہونے کی دعائیں مانگے۔ یاکوئی پستہ قدلمبا ہونے کی دعامانگے۔ یا کوئی لمبا اور درازقدانسان پستہ ہونے کی دعا مانگے یا کوئی اللہ تبارک و تعالیٰ سے دن رات یہ دعا مانگتا رہے کہ میں ہمیشہ جوان رہوں، اور مجھ پر کبھی بڑھاپا نہ آئے۔ قرآن مجید کا ارشاد ہے کہ؛’’اور ہر عبادت میں اپنا رخ ٹھیک اسی کی طرف رکھو اور اسی کو پکار نا اس کے لیے اپنی اطاعت کو خاص کرتے ہوئے۔‘‘
اللہ نے جس کو جیسا بنایا ہے اس میں اس کی مصلحت پوشیدہ ہے۔ جو عام طور پر عجلت اور خود غرض میں انسان سمجھ نہیں پاتا ہے۔ مگر جب کبھی کسی کا دل روشن ہوجاتا ہے اور وہ حقیقت جان لیتا ہے تو پھر اپنی موجودہ حالت پر خدا کا شکر گذار بندہ بن جاتا ہے۔یہ بات ہمیشہ یاد رہے کہ اپنی ضرورت، خواہش، لالچ، حرص اور طمع کے پیش نظر خدا کی نافرمانی کی راہ پر چلتے ہوئے ناجائز مرادوں کے لیے خدا سے کبھی دعا نہ مانگے جتنا ممکن ہو سکے اچھا کردار، بلند اخلاق، محبت و مروّت کی مثال اور پاکیزہ جذبات و احساسات پیش کرتے ہوئے نیک تمناؤں اور مرادوں کے لیے خدا سے دعا مانگے اور نہایت عاجزی اور انکساری کے ساتھ مانگے۔
دعا نہایت گہرے احساس، نہایت اخلاص اور بہت ہی پاکیزہ نیت کے ساتھ مانگنی چاہیے اور ہر وقت اس بات پر کامل یقین رکھنا چاہیے کہ جس خدا سے ہم دعا مانگ رہے ہیں وہ ہمارے حالات کا، ہماری نیتوں کا اور ہماری خواہشوں اور ارادوں کا پورا پورا علم رکھتا ہے اور یہ کہ وہ نہایت مہربان اور حددرجہ رحم فرمانے والا ہے۔ اور بس وہی ایک ذات اقدس ہے جو اپنے بندوں کی پکار سنتا ہے اور ان کی دعائیں قبول فرماتا ہے۔ نمودونمائش، ریاکاری، مکاری، چالبازی، بدنیتی، بدطینی اور شرک کے ہرشائبے سے اپنی دعاؤں کو پاک رکھنا چاہیے۔ قرآن کریم میں آیا ہے کہ؛’’پس اللہ کو پکارو اس کے لیے اپنی اطاعت کو خالص کرتے ہوئے۔‘‘
اللہ کا کرم ہے کہ دعا کی قبولیت کی جو مخصوص ساعتیں مقامات اور حالتیں بیان کی گئی ہیں اس میں یہ بھی شامل کیا گیا ہے کہ جب انسان کسی شدید مصیبت یا انتہائی رنج و غم میں مبتلا ہو تو اس وقت کی دعا بھی قبول کی جاتی ہے۔ اسی طرح جب اللہ کے ذکر و فکر کی کوئی دینی مجلس منعقد کی گئی ہو تو اس مجلس کی دعا بھی جلد قبول ہوتی ہے۔ اور جب کوئی بندہ قرآن کریم ختم کرتا ہے اور اس کے بعد دعامانگتا ہے تو وہ دعائیں بھی قبول ہوتی ہیں۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ ہر انسان کو اس بات کی کوشش کرنی چاہیے کہ اسے دعا کے وہی الفاظ یاد ہو جائیں جو قرآن کریم اور احادیث رسول میں آئے ہیں، ان سے اچھے الفاظ اور انداز کوئی انسان بھلاکہاں سے لائے گا۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ انہیں دعاؤں کو اپنی زندگی کا حصّہ بنایا جائے جو اللہ نے خود پسند فرمائے ہیں۔ یا جنہیں اللہ کے نبیؐ نے پسندفرمائے ہیں۔
دعا سچ پوچھئے تو مومن کا ہتھیار ہے۔ جو بندۂ مومن اس ہتھیار سے لیس ہوتا ہے وہ ساری مصیبتوں کا سامنا نہایت کامیابی سے کرتا ہے اور دونوں جہان کی سرخ روئی حاصل کرتا ہے۔ دعا اللہ کی بخشی نعمتوں میں سے بہت بڑی نعمت ہے۔ اس کی جتنی قدر کی جائے کم ہے۔ یہ ہر مومن کا وظیفہ ٔحیات ہونا چاہیے۔