تحریر:اورنگزیب عالم رضوی مصباحی (خادم: دارالعلوم غریب نواز ،جھلوا، گڑھوا)
معراج مصطفیٰ ﷺ، اللہ تعالیٰ کے بےشمار احسانات و انعامات میں ایک اہم نعمت اور حضور ﷺ کی انگنت معجزات میں سے ایک ہے، جو بظاہر ایک آن میں وقوع پذیر ہوا مگر اس کی حقیقی مسافت اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ہی جانتے ہیں، ہاں اتنا ضرور ہے کہ احادیث و تفاسیر کی رو سے جو کروڑوں یا اربوں کھربوں سال یا اس سے بھی کہیں زیادہ کی مسافت تھی اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے اسے ایک آن یا اس سے کم میں سمیٹ کر رکھ دیا اور جہاں یہ اللہ تعالیٰ کی شان اور اس کی قدرت کی عظیم الشان نشانی ہے وہیں سید المرسلین کا عظیم الشان معجزہ بھی ہے جو اللہ تعالیٰ نے خاص اپنے آخری نبی کو عطا فرمایا۔
معراج احادیث کی روشنی میں
حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ میرے پاس ایک آنے والا آیا اور اس نے میرا سینہ چاک کیا۔ سینہ چاک کرنے کے بعد میرا دل نکالا پھر میرے پاس سونے کا ایک طشت لایا گیا جو ایمان و حکمت سے لبریز تھا۔ اس کے بعد میرے دل کو دھویا گیا پھر وہ ایمان و حکمت سے لبریز ہوگیا۔ اس قلب کو سینہ اقدس میں اس کی جگہ پر رکھ دیا گیا۔
(بخاری شريف جلد اول صفحة: 568)
مسلم شریف میں ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے سینہ چاک کرنے کے بعد قلب مبارک کو زم زم کے پانی سے دھویا اور سینہ مبارک میں رکھ کر سینہ بند کردیا۔
(مسلم شربف جلد اول صفحة: 92)
حضرت قتادہ (رح) (تابعی) حضرت انس ابن مالک (رض) سے اور وہ حضرت مالک ابن صعصہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے اسراء اور معراج کی رات کے احوال و واردات کی تفصیل صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بیان کرتے ہوئے فرمایا اس رات میں حطیم میں لیٹا ہوا تھا اور بعض موقعوں پر آپ ﷺ نے حجر میں لیٹنے کا ذکر فرمایا۔ کہ اچانک ایک آنے والا ( فرشتہ) میرے پاس آیا اور اس نے ( میرے جسم کے) یہاں سے یہاں تک کے حصہ کو چاک کیا۔ روای کہتے ہیں کہ (یہاں سے یہاں تک سے) آنحضرت ﷺ کی مراد گردن کے گڑھے سے زیر ناف بالوں تک کا پورا حصہ تھا۔ پھر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اس فرشتہ نے اس طرح میرا سینہ چاک کر کے) میرے دل کو نکالا، اس کے بعد میرے سامنے سونے کا ایک دشت لایا گیا جو ایمان سے بھرا ہوا تھا اور اس میں میرے دل کو دھویا گیا، پھر دل میں ( اللہ کی عظمت و محبت یا علم و ایمان کی دولت) بھری گئی اور پھر دل کو سینہ میں اس کی جگہ رکھ دیا گیا۔ اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ پھر میرے پیٹ ( کے اندر کی تمام چیزیں یا دل کی جگہ) کو زمزم کے پانی سے دھویا گیا۔ اور پھر اس میں ایمان و حکمت بھرا گیا، اس کے بعد سواری کا ایک جانور لایا گیا جو خچر سے نیچا اور گدھے سے اونچا تھا، یہ جانور سفید رنگ کا تھا اور اس کا نام براق تھا ( اس کی تیز رفتاری کا یہ عالم تھا کہ) جہاں تک اس کی نظر جاتی تھی وہاں اس کا ایک قدم پڑتا تھا، مجھے اس پر سوار کیا گیا اور جبرائیل (علیہ السلام) مجھے لے کر چلے یہاں تک کہ میں آسمان دنیا ( یعنی پہلے آسمان) پر پہنچا، جبرائیل (علیہ السلام) نے دروازہ کھولنے کے لئے کہا تو ( دربان فرشتوں کی طرف سے) پوچھا گیا کہ کون ہے ؟ جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا میں جبرائیل ہوں پھر پوچھا گیا اور تمہارے ساتھ کون ہے ؟ جبرائیل (علیہ السلام) نے جواب دیا ! محمد ﷺ ہیں۔ اس کے بعد سوال کیا گیا ! ان ( محمد ﷺ کو بلانے کے لئے کسی کو بھیجا گیا تھا ( یا از خود آئے ہیں) جبرائیل (علیہ السلام) نے جواب دیا بلائے ہوئے آئے ہیں۔ تب ان فرشتوں نے کہا ہم محمد ﷺ کو خوش آمدید کہتے ہیں، آنے والے کو آنا مبارک ہو۔ اس کے بعد آسمان کا دروازہ کھولا گیا اور جب میں آسمان میں داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت آدم (علیہ السلام) میرے سامنے کھڑے ہیں، جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا یہ تمہارے باپ ( یعنی جد اعلی، آدم ہیں ان کو سلام کرو۔ میں نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو سلام کیا، انہوں نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا ! میں نیک بخت بیٹے اور پیغمبر صالح کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ اس کے بعد جبرائیل (علیہ السلام) مجھ کو لے کر اور دوسرے آسمان پر آئے، انہوں نے دروازہ کھولنے کے لئے کہا تو پوچھا گیا کون ہے ؟ جبرائیل (علیہ السلام) میں ہوں۔ پھر پوچھا گیا تمہارے ساتھ کون ہے ؟ انہوں نے کہا محمد ﷺ ہیں۔ پھر سوال کیا گیا ان کو بلانے کے لئے کسی کو بھیجا گیا تھا ؟ جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا ہاں ! تب دربان فرشتوں نے کہا ہم محمد ﷺ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ آنے والے کو آنا مبارک ہو۔ اس کے بعد آسمان کا دروازہ کھولا گیا اور جب میں آسمان میں داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت یحییٰ اور عیسیٰ (علیہ السلام) کھڑے ہیں جو ایک دوسرے کے خالہ زاد بھائی تھے۔ جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا یہ یحیٰی ہیں اور یہ عیسیٰ ہیں ان کو سلام کرو۔ میں نے دونوں کو سلام کیا اور دونوں نے میرے سلام کا جواب دے کر کہا نیک بخت بھائی اور پیغمبر صالح کو ہم خوش آمدید کہتے ہیں اس کے بعد جبرائیل (علیہ السلام) مجھ کو لے کر اوپر چلے اور تیسرے آسمان پر آئے انہوں نے دروازہ کھولنے کے لئے کہا تو پوچھا گیا کون ہے ؟ جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا میں جبرائیل ہوں۔ پھر پوچھا گیا تمہارے ساتھ کون ہے ؟ انہوں نے کہا محمد ﷺ ہیں۔ پھر سوال کیا گیا ان کو بلانے کے لئے کسی کو بھیجا گیا تھا ؟ جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا ہاں ! تب ان فرشتوں نے کہا ہم محمد ﷺ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ آنے والے کو آنا مبارک ہو۔ اس کے بعد آسمان کا دروازہ کھولا گیا اور جب میں تیسرے آسمان میں داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) سامنے کھڑے ہیں، جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا یہ یوسف ہیں، ان کو سلام کرو میں نے ان کو سلام کیا اور انہوں نے میرے سلام کا جواب دے کر کہا میں نیک بھائی اور پیغمبر صالح کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ اس کے بعد جبرائیل (علیہ السلام) مجھ کو لے کر اوپر چلے اور چوتھے آسمان پر آئے انہوں نے دروازہ کھولنے کے لئے کہا تو پوچھا گیا کون ہے ؟ جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا میں جبرائیل ہوں۔ پھر پوچھا گیا تمہارے ساتھ کون ہے ؟ انہوں نے کہا محمد ﷺ ہیں۔ پھر سوال کیا گیا ان کو بلانے کے لئے کسی کو بھیجا گیا تھا ؟ جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا ہاں ! تب ان فرشتوں نے کہا ہم محمد ﷺ کو خوش آمدید کہتے ہیں، آنے والے کو آنا مبارک ہو۔ اس کے بعد آسمان کا دروازہ کھولا گیا اور جب میں چوتھے آسمان میں داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت ادریس (علیہ السلام) سامنے کھڑے ہیں، جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا یہ ادریس ہیں، ان کو سلام کرو میں نے ان کو سلام کیا اور انہوں نے میرے سلام کا جواب دے کر کہا میں نیک بخت بھائی اور پیغمبر صالح کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ اس کے بعد جبرائیل (علیہ السلام) مجھ کو لے کر اوپر چلے اور پانچویں آسمان پر آئے انہوں نے دروازہ کھولنے کے لئے کہا تو پوچھا گیا کون ہے ؟ جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا میں جبرائیل ہوں۔ پھر پوچھا گیا تمہارے ساتھ کون ہے ؟ انہوں نے کہا محمد ﷺ ہیں۔ پھر سوال کیا گیا ان کو بلانے کے لئے کسی کو بھیجا گیا تھا ؟ جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا ہاں ! تب ان فرشتوں نے کہا ہم محمد ﷺ کو خوش آمدید کہتے ہیں، آنے والے کو آنا مبارک ہو۔ اس کے بعد آسمان کا دروازہ کھولا گیا اور جب میں پانچویں آسمان میں داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت ہارون (علیہ السلام) ہیں، جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا یہ ہارون ہیں، ان کو سلام کرو میں نے ان کو سلام کیا اور انہوں نے میرے سلام کا جواب دے کر کہا میں نیک بھائی اور پیغمبر صالح کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ اس کے بعد جبرائیل (علیہ السلام) مجھ کو لے کر اوپر چلے اور چھٹے آسمان پر آئے انہوں نے دروازہ کھولنے کے لئے کہا تو پوچھا گیا کون ہے ؟ جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا میں جبرائیل ہوں۔ پھر پوچھا گیا تمہارے ساتھ کون ہے ؟ انہوں نے کہا محمد ﷺ ہیں۔ پھر سوال کیا گیا ان کو بلانے کے لئے کسی کو بھیجا گیا تھا ؟ جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا ہاں ! تب ان فرشتوں نے کہا ہم محمد ﷺ کو خوش آمدید کہتے ہیں، آنے والے کو آنا مبارک ہو۔ اس کے بعد آسمان کا دروازہ کھولا گیا اور جب میں چھٹے آسمان میں داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) میرے سامنے کھڑے ہیں، جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا یہ موسیٰ ہیں، ان کو سلام کرو میں نے ان کو سلام کیا اور انہوں نے میرے سلام کا جواب دے کر کہا میں نیک بھائی اور پیغمبر صالح کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ اس کے بعد جب میں آگے بڑھا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) رونے لگے، پوچھا گیا آپ کیوں روتے ہیں ؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا ایک نوجوان جس کو میرے بعد رسول بنا کر دنیا میں بھیجا گیا اس کی امت کے لوگ میرے امت کے لوگوں سے کہیں زیادہ جنت میں داخل ہوں گے۔ بہر حال ( اس چھٹے آسمان سے گزر کر) جبرائیل (علیہ السلام) مجھ کو لئے اوپر چلے اور ساتویں آسمان پر آئے، انہوں نے آسمان کا دروزاہ کھولنے کے لئے کہا تو پوچھا گیا کہ کون ہے ؟ جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا میں جبرائیل ہوں۔ پھر پوچھا گیا تمہارے ساتھ کون ہے ؟ انہوں نے کہا محمد ﷺ ہیں۔ پھر سوال کیا گیا ان کو بلانے کے لئے کسی کو بھیجا گیا تھا ؟ جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا ہاں ! تب ان فرشتوں نے کہا ہم محمد ﷺ کو خوش آمدید کہتے ہیں، آنے والے کو آنا مبارک ہو۔ اس کے بعد آسمان کا دروازہ کھولا گیا اور جب میں ساتویں آسمان میں داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سامنے کھڑے ہیں، جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا یہ تمہارے باپ ( مورث اعلی ابراہیم (علیہ السلام) ہیں، ان کو سلام کرو میں نے ان کو سلام کیا اور انہوں نے میرے سلام کا جواب دے کر کہا میں نیک بخت بیٹے اور پیغمبر صالح کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ اس کے بعد سدرۃ المنتہی تک پہنچایا گیا، میں نے دیکھا کہ اس کے پھل یعنی بیر، مقام ہجر کے ( بڑے بڑے) مٹکوں کے برابر تھے اور اس کے پتے ہاتھی کے کانوں کے برابر تھے، جبرائیل (علیہ السلام) نے ( وہاں پہنچ کر) کہا یہ سدرۃ المنتہی ہے ! میں نے وہاں چار نہریں بھی دیکھیں، دو نہریں تو باطن کی تھیں اور دو نہریں ظاہر کی تھیں، میں نے پوچھا جبرائیل ! یہ دو طرح کی نہریں کیسی ہیں ؟ جبرائیل (علیہ السلام) نے بتایا یہ باطن کی دو نہریں جنت کی ہیں اور یہ ظاہر کی دو نہریں نیل اور فرات ہیں، پھر مجھ کو بیت المعمور دکھلایا گیا اور اس کے بعد ایک پیالہ شراب کا، ایک پیالہ دودھ کا اور ایک پیالہ شہد کا میرے سامنے لایا گیا ( اور مجھے اختیار دیا گیا کہ ان تینوں میں سے جس چیز کا پیالہ پسند ہو لے لوں) چناچہ میں نے دودھ کا پیالہ لے لیا، جبرائیل (علیہ السلام) نے ( یہ دیکھ کر کہ میں نے دودھ کا پیالہ کو اختیار کیا) کہا دودھ فطرت ہے اور یقینا تم اور تمہاری امت کے لوگ اسی فطرت پر ( قائم وعامل) رہیں گے ( اور جہاں تک شراب کا معاملہ ہے تو وہ ام الخبائث اور شر و فساد کی جڑ ہے) اس کے بعد وہ مقام آیا جہاں مجھ پر ( ایک دن اور ایک رات کی) پچاس نمازیں فرض کی گئیں۔ پھر ( جب ملاء اعلی کا میرا سفر تمام ہوا اور درگاہ رب العزت سے) میں واپس ہوا تو ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے رخصت ہو کر چھٹے آسمان پر، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا ( اور ان سے رخصت ہونے لگا) تو انہوں نے پوچھا تمہیں کس عبادت کا حکم دیا گیا ہے ؟ میں نے ان کو بتایا کہ ( ہر شب وروز میں) پچاس نمازوں کا حکم دیا گیا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ( یہ سن کر) کہا تمہاری امت ( نسبتاً کمزور قویٰ رکھنے کے سبب یا کسل وسستی کے سبب) رات دن میں پچاس نمازیں ادا نہیں کرسکے گی، اللہ کی قسم، میں تم سے پہلے لوگوں کو آزما چکا ہوں ( کہ عبادت الٰہی کے راستہ میں مشقت وتعب براداشت کرنا ان کی طبیعتوں پر کس قدر بار تھا) اور بنی اسرائیل کی اصلاح ودرستی کی سخت ترین کوشش کرچکا ہوں ( لیکن وہ اصلاح پذیر نہ ہوئے باوجودیکہ ان کے قوی تمہاری امت کے لوگوں سے زیادہ مضبوط تھے، تو پھر تمہاری امت کے لوگ اتنی زیادہ نمازوں کی مشقت کیسے برداشت کرسکیں گے لہٰذا تم اپنے پروردگار کے پاس جاؤ اور اپنی امت کے حق میں تخفیف اور آسانی کی درخواست کرو۔ چناچہ میں ( اپنے پروردگار کی بارگاہ میں) دوبارہ حاضر ہوا اور میرے پروردگار نے میرے عرض کرنے پر ( دس نمازیں کم کردیں، میں پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا ( اور ان کو بتایا کہ دس نمازیں کم کر کے چالیس نمازیں رہنے دی گئی ہیں) لیکن انہوں نے پھر وہی کہا جو پہلے کہا تھا ( کہ میں پہلے لوگوں کو آزما چکا ہوں، تمہاری امت کے لوگ چالیس نمازیں بھی ادا نہیں کرسکیں گے، اب پھر بارگاہ رب العزت میں جا کر مزید تخفیف کی درخواست کرو ( چناچہ میں پھر بارگاہ الٰہی میں حاضر ہوا اور ( چالیس میں سے) دس نمازیں کم کردی گئیں، میں پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا تو انہوں نے پھر وہی کہا جو پہلے کہا تھا، چناچہ میں بارگاہ الٰہی میں حاضر ہوا اور ( تیس میں سے) دس نمازیں کم کردی گئیں، میں پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا تو انہوں نے پھر وہی کہا جو پہلے کہا تھا، چناچہ میں بارگاہ الٰہی میں حاضر ہوا اور مزید پانچ نمازوں کی تخفیف کر کے مجھ کو ہر شب و روز میں پانچ نمازیں پڑھنے کا حکم دیا گیا، پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا تو انہوں نے پوچھا کہ اب تمہیں کیا حکم ملا ہے ؟ میں نے ان کو بتایا کہ اب مجھے رات دن میں پانچ نمازیں پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا حقیقت یہ ہے کہ تمہاری امت کے اکثر لوگ ( پوری پابندی اور تسلسل کے ساتھ) دن رات میں پانچ نمازیں بھی نہیں پڑھ پائیں گے، حقیقت یہ ہے کہ میں تم سے پہلے لوگوں کو آزما چکا ہوں اور بنی اسرائیل کی اصلاح ودرستی کی سخت کوشش کر کے دیکھ چکا ہوں ( وہ تو اس سے بھی کہیں کم عبادت الٰہی پر عامل نہیں رہ سکے تھے) لہٰذا تم پھر پروردگار کے پاس جاؤ اور اپنی امت کے لئے ( پانچ نمازوں میں بھی) تخفیف کی درخواست کرو۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ( کہ اس موقع پر میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا) کہ میں باربار اپنے پروردگار سے تخفیف کی درخواست کرچکا ہوں اور مجھ کو شرم آتی ہے ( اگرچہ امت کی طرف سے پانچ نمازوں کی بھی پابند نہ ہوسکنے کا گمان ہے مگر مزید تخفیف کی درخواست کرنا اب میرے لئے ممکن نہیں ہے) میں اپنے پروردگار کے اس حکم کو ( برضاء ورغبت) قبول کرتا ہوں ( اور اپنا اور اپنی امت کا معاملہ اس کے سپرد کردیتا ہوں کہ وہ اپنی توفیق ومدد سے امت کے لوگوں کو ان پانچ نمازوں کی ادائیگی کا پابند بنائے ) ۔ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے اس گفتگو کے بعد) جب میں وہاں سے رخصت ہوا تو ( اللہ تعالیٰ کی طرف سے) یہ ندائے غیبی آئی میں نے ( پہلے تو) اپنے فرض کو جاری کیا اور پھر ( اپنے پیارے رسول کے طفیل میں اپنے بندوں کے حق میں تخفیف کردی ( مطلب یہ کہ اب میرے بندوں کو نمازیں تو پانچ ہی پڑھنی پڑیں گی لیکن ان کو ثواب پچاس نمازوں کا ملے گا۔ ( بخاری ومسلم) (مشکوۃ :حدیث نمبر 5785)
حضرت ثابت بنانی (رح) ( تابعی) حضرت انس (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا میرے سامنے براق لایا گیا جو ایک سفید رنگ کا، دراز بینی، میانہ قد، چوپایہ تھا، گدھے سے اونچا اور خچر سے نیچا تھا، جہاں تک اس کی نگاہ جاتی تھی وہاں اس کا ایک قدم پڑتا تھا، میں اس پر سوار ہوا اور بیت المقدس میں آیا اور میں نے اس براق کو ( مسجد کے دروازہ پر) اس حلقہ سے باندھ دیا جس میں انبیاء کرام ( اپنے براقوں کو یا اس براق کو) باندھتے تھے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا پھر میں مسجد اقصی میں داخل ہوا اور دو رکعت نماز پڑھی، پھر میں مسجد سے باہر آیا اور جبرائیل (علیہ السلام) میرے سامنے ایک پیالہ شراب کا اور ایک پیالہ دودھ کا لائے، میں نے دودھ کا پیالہ لے لیا تو جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا آپ ﷺ نے فطرت ( یعنی دین اسلام) کو اختیار کرلیا اور پھر ہمیں آسمان کی طرف چڑھایا۔ اس کے بعد حضرت انس (رض) نے حدیث کا وہی مضمون بیان کرتے ہوئے جو سابق حدیث میں گذرا کہا کہ ( آنحضرت ﷺ نے فرمایا) میں نے ( پہلے آسمان پر) حضرت آدم (علیہ السلام) ( ان الفاظ میں) مرحبا کہا ( کہ میں نیک بخت بیٹے اور پیغمبر صالح کو خوش آمدید کہتا ہوں) اور میرے لئے دعائے خیر کی۔ پھر آپ ﷺ نے تیسرے آسمان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ وہاں میں نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو دیکھا جن کو آدھا حسن عطا کیا گیا تھا، انہوں نے بھی مجھ کو مرحبا کہا اور میرے لئے دعائے خیر کی۔ راوی یعنی ثابت بنانی نے ( حضرت انس (رض) سے اس روایت میں) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے رونے کا ذکر نہیں کیا ( جیسا کہ حدیث سابق میں تھا) اور آنحضرت ﷺ نے ساتویں آسمان کو ذکر کرتے ہوئے اور بیت المعمور میں ہر روز ستر ہزار فرشتے (طواف کے لئے) داخل ہوتے ہیں جن کو دوبارہ داخل ہونا نصیب نہیں ہوتا ( یعنی ہر دن نئے ستر ہزار فرشتے طواف کے لئے آتے ہیں کیونکہ فرشتوں کی کثرت کی بناء پر کسی فرشتہ کو ایک مرتبہ کے بعد پھر دوبارہ بیت المعمور میں داخل ہونے کا کبھی موقع نہیں ملتا) اس کے بعد مجھ کو سدرۃ المنتہی کی طرف لے جایا گیا ( جو ساتویں آسمان بری کا درخت ہے) میں نے دیکھا کہ اس ( سدرۃ المنتہی) کے پتے ہاتھی کے کانوں کے برابر اور اس کے پھل ( یعنی بیر) مٹکوں کے برابر تھے، پھر جب سدرۃ المنتہی کو اللہ کے حکم سے ڈھانکے والی چیز نے ڈھک دیا تو اس کی حالت بدل گئی ( یعنی اس میں پہلے سے زیادہ اعلی تبدیلی آگئی اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی مخلوق میں سے کوئی بھی اس کی خوبی اور وصف ( کے کمال) کو بیان نہیں کرسکتا، پھر اللہ تعالیٰ نے جو وحی چاہی میری طرف بھیجی ( یعنی مجھ سے بلا واسطہ کلام فرمایا) پھر مجھ پر دن رات میں پچاس نمازیں فرض کی گئیں، پھر میں اس مقام سے نیچے اترا اور ( ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے رخصت ہوتا ہوا) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس چھٹے آسمان پر آیا، انہوں نے پوچھا تمہارے پروردگار نے تمہاری امت پر کیا فرض کیا ہے ؟ میں نے کہا رات دن میں پچاس نمازیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا اپنے پروردگار کے پاس واپس جاؤ اور ( نمازوں کی تعداد میں) تخفیف کی درخواست کرو کیونکہ تمہاری امت اتنی طاقت نہیں رکھتی، میں بنی اسرائیل کو آماز کر اور ان کا امتحان لے کر پہلے دیکھ چکا ہوں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ( حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے مشورہ پر) میں بارگاہ الٰہی میں پھر حاضر ہوا اور کہا میرے پروردگار ! میری امت کے حق میں آسانی فرمادیجئے۔ چنانچھ اللہ تعالیٰ نے میری وجہ سے میری امت کے حق میں ( آسانی فرما کر) پانچ نمازیں کم کردیں۔ پھر میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا اور ان کو بتایا کہ میری درخواست پر پانچ نمازیں کم کردی گئی ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا ! تمہاری امت اتنی ( نمازیں ادا کرنے کی بھی) طاقت نہیں رکھتی، تم پھر اپنے پروردگار کے پاس جاؤ اور مزید تخفیف کی درخواست کرو ! آنحضرت ﷺ نے فرمایا میں اسی طرح اپنے پروردگار اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے درمیان آتا جاتا رہا ( اور تخفیف کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا کہ میری درخواست پر ہر مرتبہ پانچ نمازیں کم کردی جاتیں) ! رات دن میں فرض تو یہ پانچ نمازیں ہیں لیکن ان میں سے ہر نماز کا ثواب دس نمازوں کے برابر ہے، اس طرح یہ پانچ نمازیں ثواب میں پچاس نمازوں کے برابر ہیں اور ہمارا اصول یہ ہے کہ) جس شخص نے نیکی کا قصد کیا اور اس کو ( کسی شرعی عذر یا کسی دوسری رکاوٹ کے سبب) پورا نہ کرسکا تو اس کے حساب میں ( صرف اس قصد ہی کی وجہ سے) ایک نیکی لکھ دی جاتی ہے اور اگر اس قصد کے بعد اس نے اس نیکی کو کرلیا تو اس کے حساب میں وہ نیکی دس گنا لکھی جاتی ہے۔ اور جس شخص نے برے کام کا قصد و ارادہ کیا اور پھر اس برے کام کو نہ کرسکا تو اس کے حساب میں وہ برائی نہیں لکھی جائے گی اور اگر اس نے اپنے قصد کے مطابق اس برے کام کو کرلیا تو اس کے حساب میں وہی ایک برائی لکھی جائے گی۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ! پھر بارگاہ الٰہی سے نیچے ( چھٹے آسمان پر) واپس آیا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو صورت حال بتائی، انہوں نے پھر مشورہ دیا کہ اپنے پروردگار کے پاس جاؤ اور ( پانچ نمازوں میں بھی) تخفیف کی درخواست کرو ! آنحضرت ﷺ نے فرمایا میں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ میں بار با
ر اپنے پروردگار کے پاس جا چکا ہوں اب مجھ کو اس کے پاس جاتے شرم آتی ہے۔ (مسلم ) ( مشکوۃ حدیث نمبر 5787)
معراج تفاسیر کی رو سے
آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نہایت شان و شوکت سے ملائکہ کے جلوس میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔ یہ گھڑی کس قدر دلنواز تھی کہ جب مکاں سے لامکاں تک نور ہی نور پھیلا ہوا تھا، سواری بھی نور تو سوار بھی نور، باراتی بھی نور تو دولہا بھی نور، میزبان بھی نور تو مہمان بھی نور، نوریوں کی یہ نوری بارات فلک بوس پہاڑیوں، بے آب و گیاہ ریگستانوں، گھنے جنگلوں، چٹیل میدانوں، سرسبز و شاداب وادیوں، پرخطر ویرانوں پر سے سفر کرتی ہوئی وادی بطحا میں پہنچی جہاں کھجور کے بیشمار درخت ہیں۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام عرض کرتے ہیں کہ حضور یہاں اتر کر دو رکعت نفل ادا کیجئے یہ آپ کی ہجرت گاہ مدینہ طیبہ ہے۔ نفل کی ادائیگی کے بعد پھر سفر شروع ہوتا ہے۔ راستے میں ایک سرخ ٹیلا آتا ہے جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قبر ہے۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ معراج کی رات میں سرخ ٹیلے سے گزرا تو میں نے دیکھا کہ وہاں موسیٰ علیہ السلام کی قبر ہے اور وہ اپنی قبر میں کھڑے ہوکر نماز پڑھ رہے ہیں۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے بیت المقدس بھی آگیا جہاں قدسیوں کا جم غفیر سلامی کے لئے موجود ہے۔ حوروغلماں خوش آمدید کہنے کے لئے اور تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء و مرسلین استقبال کے لئے بے چین و بے قرار کھڑے تھے۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اس مقام پر تشریف فرماہوئے جسے باب محمد( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہا جاتا ہے۔ حضرت جبریل علیہ السلام ایک پتھر کے پاس آئے جو اس جگہ موجود تھا۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے اس پتھر میں اپنی انگلی مار کر اس میں سوراخ کردیا اور براق کو اس میں باندھ دیا۔
(تفسير ابن کثير جلد3، ص7)
حضرت علامہ نعیم الدین مراد آبادی،سورة بني إسرائيل: ۱۷، کے تحت “تفسیر خزائن العرفان” میں ارشاد فرماتے ہیں:
“معراج شریف نبی کریم -صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم- کا ایک جلیل معجزہ اور اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے۔ اور اس سے حضور -صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم- کا وہ کمال قرب ظاہر ہوتا ہے جو مخلوق الہی میں آپ کے سوا کسی کو میسر نہیں۔ “نبوت کے بارہویں سال سید عالم -صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم- معراج سے نوازے گئے۔ مہینہ میں اختلاف ہے؛ مگر اشہر یہ ہے کہ ستائیسویں رجب کو معراج ہوئی۔” مکہ مکرمہ سے حضور پرنور -صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم- کا بیت المقدس تک شب کے چھوٹے سے حصہ میں تشریف لے جانا نص قرآنی سے ثابت ہے، اس کا منکر کافر ہے۔ اور آسمانوں کی سیر اور منازل قرب میں پہنچنا احادیث صحیحہ معتمدہ مشہورہ سے ثابت ہے جو حد تواتر کے قریب پہنچ گئی ہیں، اس کا منکر گم راہ ہے۔ “معراج شریف بہ حالت بیداری جسم و روح دونوں کے ساتھ واقع ہوئی،” یہی جمہور اہل اسلام کا عقیدہ ہے، اور اصحاب رسول -صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم- کی کثیر جماعتیں اور حضور -صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم- کے جلیل القدر صحابہ کرام -رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین- اسی کے معتقد ہیں۔ نصوص آیات اور احادیث سے بھی یہی مستفاد ہوتا ہے۔ بیوقوف فلسفیوں کے فاسد خیالات و گمان، محض باطل ہیں۔ قدرت الہی کے پختہ یقین رکھنے والوں کے سامنے وہ تمام شبہات محض بے حقیقت ہیں۔”
معراج پاک اقوال محدثین و ائمہ کی روشنی میں
[١] امام ابو جعفر طحاوی -رضی اللہ تعالیٰ عنہ- معراج کے متعلق رقم طراز ہیں:
“معراج حق ہے، حضور -صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم- کو بیداری کے عالم میں جسم اقدس کے ساتھ آسمان تک، پھر وہاں سے جس قدر بلندی تک اللہ نے چاہا؛ معراج کا شرف بخشا۔” [العقيدة الطحاوية]
[٢] امام نجم الدین عمر نسفی -رضی اللہ تعالیٰ عنہ- فرماتے ہیں:
“نبی کریم -صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم- کو حالت بیداری میں اور جسم اقدس کے ساتھ آسمان، پھر وہاں سے جس قدر بلندی تک اللہ نے چاہا؛ معراج عطا فرمائی۔” [عقائد نسفی]
[۳] حضرت ملا علی قاری -رضی اللہ تعالیٰ عنہ- امام اعظم -رضی اللہ تعالیٰ عنہ- کے الفاظ “خبر المعراج حق” کی شرح میں لکھتے ہیں:
“آپ -صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم- کو بیداری کے عالم میں آسمان پر مشیئت الہی کے مطابق بلند مقامات تک معراج حاصل ہوئی۔” [منح الروض الازھر]
[٤] علامہ سعد الدین تفتازانی -رضی اللہ تعالیٰ عنہ- “ثم ما شاء الله” کے الفاظ کی حکمت یوں لکھتے ہیں:
“یہ اسلاف کے اقوال کی طرف اشارہ ہے، بعض کے یہاں جنت، بعض کے یہاں عرش، بعض کے یہاں فوق العرش اور بعض کے یہاں طرف عالَم تک معراج ہوئی۔” [شرح عقائد نسفی]
شب معراج کی عبادت:
شب بیداری کے استحباب اور اس کے فوائد و برکات کو علماے اسلام نے ہمیشہ سے تسلیم کیا ہے حقیقت تو یہ ہے کہ اس کا حکم قرآن کریم اور احادیث کریمہ سے ثابت ہے۔ پھر یہ تو عام راتوں کی شب بیداری کی بات ہے پھر شب معراج جس ہمیں رسول الله صلى الله عليه وسلم کے توسل سے پانچ وقت کی نمازوں کا عظیم تحفہ ملا اس رات کی اہمیت سے کون انکار کر سکتا ہے؟ پھر احادیث میں شب معراج کے فضائل بھی بیان ہوئے ہیں۔ ذیل میں چند احادیث کریمہ درج کیے جا رہے ہیں
[۱] حضرت انس بن مالک -رضی اللہ تعالیٰ عنہ- روایت کرتے ہیں کہ رسول پاک -صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم- نے فرمایا:
“ماہ رجب میں ایک ایسی رات ہے جس میں عمل کرنے والے کے حق میں سو سال کی نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور وہ رجب کی ستائیسویں رات ہے، تو جو شخص اس رات بارہ رکعت اس طرح پڑھے کہ ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ اور قرآن کریم کی کوئی سورت پڑھے، ہر رکعت کے بعد قعدہ کرے، اخیر میں سلام پھیرے، پھر نماز سے فارغ ہونے کے بعد سو مرتبہ “سبحانَ اللهِ والحمد للهِ ولا إلهَ إلا اللهُ واللهُ أكبر” پڑھے، سو مرتبہ استغفار کرے، سو مرتبہ آقاے کریم -صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم- کی بارگاہ میں درود پاک پڑھے اور اپنے حق میں دنیا و آخرت کی بھلائی سے متعلق جو چاہے دعا کرے تو یقیناً اللہ تعالیٰ اس کی تمام دعائیں قبول فرمائے گا، البتہ کسی نافرمانی والے کام میں دعا کرے تو یہ دعا مقبول نہیں ہوگی۔” [شعب الایمان، جامع الکبیر]
پیغام
وقت کتنا بھی بابرکت ہو اگر ہم عبادات میں نہیں گزارتے یا خرافات میں گزارتے ہیں تو ہمارے لیے محرومی ہے، اور جو لوگ کچھ روایتوں کے ضعف ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں، ان سے یہی گزارش ہے کہ ہم ان عبادات یا ان میں محفلیں منانے کو واجب یا فرض نہیں مانتے بلکہ مستحب یا سنت ہی تک محدود رکھتے ہیں