ریاض فردوسی
سبق ملا ہے یہ معراج مصطفی ؐ سے مجھے
کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں
علامہ اقبالؔ
پاک ہے وہ (اللہ)جو اپنے بندے کوایک رات مسجدِحرام سے دورکی اس مسجد تک لے گیا جس کے ماحول کوہم نے برکت دی ہے تاکہ ہم اُسے اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں، بلاشبہ وہ سب کچھ سننے والا،سب کچھ دیکھنے والا ہے(سورہ۔بنی اسرائیل۔آیت۔1) تمہاراساتھی نہ ہی بھٹکاہے اورنہ ہی بہکا ہے.(سورہ النجم۔آیت۔2)
کامل بندگی کی منزل مردِ مومن کی وہ آرزو ہے جس کے حصول کے لئے وہ اپنی زِندگی کا ہر لمحہ حکمِ خدا کے تابع کر لیتا ہے، اِس لئے کہ وہ جانتا ہے کہ پروردگارِ عالم کی کامل بندگی اِیمان میں کامل ہوئے بغیر نہیں ملتی اور اِنسان اِیمان میں کامل اُس وقت ہوتا ہے جب وہ سراپاعشقِ اِلٰہی میں ڈُوب جاتا ہے۔ جب بندگی اُس کے سر کا تاج ٹھہرتی ہے اور اُس کا دِل توحیدِ اِلٰہی کا مرکز بن جاتا ہے۔بندگی دراصل رضائے الٰہی کے لیے خود کو قربان کرنے کا نام ہے۔اسلامی تاریخ کا ساتواں مہینہ رجب المرجب ہے۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ رجب ترجیب سے ماخوذ ہے۔ ترجیب کے معنی تعظیم کے ہیں۔ اہل عرب اس کو اللہ کا مہینہ کہتے تھے اور اس کی تعظیم بجا لاتے تھے۔عربی لغت میں ’’معراج‘‘ ایک وسیلہ ہے جس کی مدد سے بلندی کی طرف چڑھا جائے اسی لحاظ سے سیڑھی کو بھی ’’معراج‘‘ کہا جاتا ہے۔(ابن منظور، لسان العرب، ج2، ص322)یہ واقعات ہے جو اصطاحا ’’معراج‘‘ اور ’’اسراء‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اکثر اور معتبر روایات کی رو سے یہ واقعہ ہجرت سے ایک سال پہلے پیش آیا۔ حدیث اور سیرت کی کتابوں میں اس واقعہ کی تفصیلات بکثرت صحابہ رضوان اللہ علیہم سے مروی ہیں جن کی تعداد 25 تک پہنچتی ہے۔ قرآن مجید یہاں صرف مسجد حرام (یعنی بیت اللہ) سے مسجد اقصٰی (یعنی بیت المقدس) تک حضور کے جانے کی تصریح کرتا ہے اور اس سفر کا مقصد یہ بتاتا ہے کہ اللہ تعالی اپنے سب سے مقرب بندے کو اپنی کچھ نشانیاں دکھانا چاہتا تھا.ابوجہل سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس دوڑا دوڑا آیا اور کہنے لگا: اے ابوبکر! تم نے سنا کہ محمد(صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا کہتے ہیں۔ کیا یہ بات تسلیم کی جاسکتی ہے کہ رات کو وہ بیت المقدس گئے اور آسمانوں کا سفر طے کرکے آبھی گئے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرمانے لگے اگر میرے آقا(صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تو ضرور سچ فرمایا ہے کیونکہ ان کی زبان پر جھوٹ نہیں آسکتا۔ میں اپنے نبیؐ کی سچائی پر ایمان لاتا ہوں۔ کفار بولے۔ ابوبکرؓ تم کھلم کھلا ایسی خلاف عقل بات کیوں صحیح سمجھتے ہو؟
عاشق صادقؓ نے جواب دیا: میں تو اس سے بھی زیادہ خلاف عقل بات پر یقین رکھتا ہوں (یعنی باری تعالیٰ پر) اسی دن سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو دربار نبوت ؐسے صدیق کا لقب ملا۔رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’میں نے اپنے رب کو حسین صورت میں دیکھا پھر اس نے میرے دونوں کندھوں کے درمیان اپنا ید قدرت رکھا اس سے میں نے اپنے سینہ میں ٹھنڈک پائی اور زمین و آسمان کی ہر چیز کو جان لیا‘‘(مشکوٰۃ شریف۔صفحہ۔28)ایک موقع پر مزید ارشاد نبوی صلیٰ اللہ علیہِ وسلّم ہے:’’میں نے اپنے رب کو اپنی آنکھ اور اپنے دل سے دیکھا‘‘۔(مسلم شریف)ایک مقام پر یوں ارشاد فرمایا:’’میرے رب نے مجھ سے کلام فرمایا اور میں نے اپنے پروردگار کو اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھا اور اس نے میری طرف وحی فرمائی‘‘۔(صاوی صفحہ: 328)
حضرت امام رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ سرور دو عالم حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم شب معراج آسمان بریں کے بلند کناروں پر پہنچے تو تجلی الہٰی متوجہ نمائش ہوئی۔ صاحب تفسیر روح البیان نے فرمایا کہ فاستوی کے معنی یہ ہیں کہ حضور سید عالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے افق اعلیٰ یعنی آسمانوں کے اوپر جلوہ فرمایا۔اس مقام پر حضرت جبرئیل علیہ السلام رک گئے اور عرض کرنے لگے: یارسول اللہ (صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم)! ہم سب کے لئے ایک جگہ مقرر ہے۔ اب اگر میں ایک بال بھی آگے بڑھوں گا تو اللہ تعالیٰ کے انوار و تجلیات میرے پروں کو جلاکر رکھ دیں گے۔ یہ میرے مقام کی انتہاء ہے۔ سبحان اللہ! حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رفعت و عظمت کا اندازہ لگایئے کہ جہاں شہباز سدرہ کے بازو تھک جائیں اور روح الامین کی حد ختم ہوجائے وہاں حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پرواز شروع ہوتی ہے۔ اس موقع پر حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں، اے جبرائیل کوئی حاجت ہو تو بتاؤ۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے عرض کی حضور(صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ مانگتا ہوں کہ قیامت کے دن پل صراط پر آپ کی امت کے لئے بازو پھیلاسکوں تاکہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک ایک غلام آسانی کے ساتھ پل صراط سے گزر جائے۔(روح البیان، جلد خامس، صفحہ: 221)عیسائی پیشوا جو مسجد اقصیٰ کا بہت بڑا پادری تھا اس نے کہا میری عادت تھی کہ میں ہر روز رات کو سونے سے پہلے مسجد کے تمام دروازے بند کردیا کرتا تھا۔ اس رات میں نے تمام دروازے بند کردیے لیکن انتہائی کوشش کے باوجود ایک دروازہ بند نہ ہوسکا۔ میں نے اپنے کارندوں اور تمام حاضرین سے مدد لی۔ سب نے پورا زور لگایا مگر دروازہ نہ ہلا۔ بالآخر میں نے ترکھانوں کو بلایا تو انہوں نے اسے دیکھ کر کہا کہ اوپر کی عمارت نیچے آگئی ہے۔ اب رات میں کچھ نہیں ہوسکتا۔ صبح دیکھیں گے۔ لہذا ہم دروازے کے دونوں کواڑ کھلے چھوڑ کر واپس چلے گئے۔ صبح ہوتے ہی میں وہاں آیا تو دیکھا کہ دروازہ بالکل ٹھیک ہے۔ مسجد کے پتھر پر سوراخ ہے اور سواری کے جانور باندھنے کا نشان اس میں نظر آرہا ہے۔ یہ منظر دیکھ کر میں سمجھا کہ آج رات انتہائی کوشش کے باوجود دروازہ کا بند نہ ہونا اور پتھر میں سوراخ کا پایا جانا اس سوراخ میں جانور باندھنے کا نشان موجود ہونا حکمت سے خالی نہیں۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ آج رات اس دروازے کا کھلا رہنا صرف نبی معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے تھا یقینا اس نبی معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہماری اس مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھی۔ (تفسیر ابن کثیر، جلد3، ص64)
معراج نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اَصل میں معراجِ بندگی ہے۔ عظمتوں اور رِفعتوں کے اُس سفر میں اللہ ربّ ُالعزّت نے اپنے محبوب بندے اور رسول کو اَن گنت اِنعامات و اِعزازات سے نوازا۔ معراج اِتنا بڑا واقعہ ہے کہ اُس میں آقائے دوجہاں حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقامِ قَابَ قَوْسَیْن پر فائز کیا گیا۔ قُرب اپنی اُس اِنتہا کو پہنچا کہ ہمیں اُس کا اِدراک حاصل ہو سکتا ہے اور نہ شعور۔ فاصلے مٹتے چلے گئے، دُوریاں ختم ہوتی چلی گئیں، حجابات اُٹھتے چلے گئے لیکن اُس مقام پر پہنچ کر بھی بندہ بندہ ہی رہا۔ درجات کی اُس عظیم الشّان بلندی پر جلوہ اَفروز ہو کر بھی عاجزی و اِنکساری کا پیرہن اُس رسولِ عظیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے باعثِ اِعزاز بنا رہا۔ کرئہ اَرضی پر واپسی ہوئی تو سیاحِ لامکاں حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بشری و تہذیبی وُجود سلامت تھا۔تمام عبادات اور احکامات ایسے ہیں، جو اسی زمین پر اتارے گئے۔لیکن اللہ تعالی نے نماز کے لئے خصوصی معاملہ فرمایا کہ اپنے محبوبؐ کو اپنے پاس بلاکر عنایت فرمایا,اور نماز کے معاملے میں اپنے حبیبؐ کے بات بار بار ما نی۔
حضرت انس ابن مالکؓ سے مروی ہے کہ: نبی کریمؐ پر معراج کی رات پچاس نمازیں فرض کی گئیں،پھر آپؐ کے با ر بار کہنے پر کہ امت کمزور ہے، ان میں کمی کی گئی یہاں تک کہ پانچ نمازیں کردی گئیں پھر اللہ تعالی کی طرف سے ندا آئی کہ اے محمدؐ میرا فیصلہ تبدیل نہیں کیا جاتا،اور بے شک آپ اور آپ کی امت کے لئے ان پانچ نمازوں کے ساتھ پچاس نمازوں کاثواب ہے۔(مسند احمد، وبخاری:3623 و مفہوم حدیثِ پاک)
اللہ کے رسول ؐ فرماتے ہیں: الصلاۃ معراج المؤمنین(نماز مومنین کی معراج ہے۔الحدیث)نماز تحفہِ معراج ہے۔ ایمان کے بعد شریعت کا پہلا حکم نماز ہے۔ حضور ؐ پر اول بار جس وقت وحی اتری اور نبوتِ کریمہ ظاہر ہوئی اسی وقت حضور نے بہ تعلیمِ جبرئیل امین علیہ السلام نماز پڑھی اور اسی دن بہ تعلیم حضور اقدس حضرت ام المؤمنین خدیجتہ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پڑھی۔ دوسرے دن امیر المؤمنین علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہٗ نے حضور کے ساتھ نماز پڑھی کہ ابھی سورہ مزمّل بھی نازل نہ ہوئی تھی۔ تو ایمان کے بعد پہلی شریعت نماز ہے۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 2، صفحہ۔108)ڈاکٹر مصطفی السباعی ؒ لکھتے ہیں کہ: اللہ تعالی نے معراج کی رات نماز کو فر ض کر کے اس طرف اشارہ کردیا کہ:بندوں تمہارے نبیؐ کا جسم و روح کے ساتھ معرا ج کرنا یہ ایک معجزہ ہے،لیکن تمہا رے لئے ہر دن پانچ مرتبہ یہ سعادت ہے کہ تمہاری روح اور دل معراج کرکے میری طرف آتے ہیں۔علامہ ابن حجر عسقلانی ؒ نے شبِ معراج میں نماز کی فرضیت کی حکمت کو بیان کرتے ہوئے فرمایاکہ:اس موقع پر رسول اللہ ؐ کے ظاہر وباطن کو آبِ زم زم سے پاک صاف کرکے جس طرح مقد س و مطہر کردیا گیا تھا اور ایمان وحکمت سے آپ کو نواز اگیا تھا۔ایسے ہی نماز کے لئے بھی ضروری ہے کہ پہلے ہر قسم کی ظاہری و باطنی غلاظت سے اپنے آپ کو پا ک کیاجائے۔اس مناسبت سے اس موقع پر نماز کی فرضیت کو اہمیت دی گئی۔علاوہ ازیں اس طرح آپ کے شرف وفضل کو فرشتوں پر بھی واضح بھی کرنا تھا جو بلاواسطہ نماز کے حکم سے فرشتوں پر آشکار اکیاگیا۔(فتح الباری: 1/548) سفرِ معراج کے موقع نماز جیسی عظیم نعمت اللہ تعالی نے ہمیں عنایت فرمائی ہے۔یہ آسمانی تحفہ ہے جو بڑے اعزاز و اکرام کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عرش پر بلاکر دیا گیا اور بتا دیا کہ اگر یہ امت اس کا اہتمام کرے گی تو دنیا میں بھی اور آخرت میں کامیاب و کامران ہو گی اور اپنے خالق و مالک کی نظروں میں معزز رہے گی۔نماز دراصل مومنوں کے لیے معراج ہے جس میں دعوت ہے، ملاقات کی، باہم گفتگو کی، ترقی کے زینوں پہ چڑھنے کی، آسمانوں کی سیر کی، مخلوق کی خالق کے سامنے عجز و نیاز کی، عبد کی معبود سے اظہار بندگی کی، ساری دنیا سے ناطہ توڑ کر اک نئے عجائبات عالم کی سیر کی، رب کو دیکھ لینے کی لذت کی،یاد رب میں گم ہونے کی بے انتہا لذّت۔اللہ تعالی نے اپنے انبیاء و رسل علیہِ السلام کو امتحان لینے کے بعد طرح طرح کے انعامات سے نوازا۔توبہ کی قبولیت ہو، نسل انسانی کو چلانا ہو، ضعیفی میں اولاد کی خوش خبری ہو،ظالم بادشاہ سے نجات پانا ہو، وغیرہ۔لیکن فخر کا ئنا ت،ہادی اعظم، سر ور کونین،خاتم الانبیاء و رسل احمد مجتبیٰ صل اللہ علیہ وسلم کے سا تھ اپنی محبت و انسیت کا اظہا ر ہی کچھ عجیب اور انو کھے اور نر الے اندا ز میں کیا ہے۔ایک محیر العقول، ما ورا العقل وفہم جن اور انس کے واقعہ معراج ہے،آج کی سا ئنسی ماہرین بھی اس کی تصدیق کرنے پرمجبورہیں۔اور اسی عجیب و غریب وا قعہ کی روشنی میں آج کے سا ئنسدا نو ں نے چا ند کی تسخیر کی اور مزید نئے نئے تجربات جاری ہیں۔
چنانچہ آپ ؐنے سفر کی تیاری شروع کی۔ اس موقع پر حضرت جبرائیل امین علیہ السلام نے آپؐ کا سینہ مبارک چاک کیا اور دل کو دھویا۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ میرے پاس ایک آنے والا آیا اور اس نے میرا سینہ چاک کیا۔ سینہ چاک کرنے کے بعد میرا دل نکالا پھر میرے پاس سونے کا ایک طشت لایا گیا جو ایمان و حکمت سے لبریز تھا۔ اس کے بعد میرے دل کو دھویا گیا پھر وہ ایمان و حکمت سے لبریز ہوگیا۔ اس قلب کو سینہ اقدس میں اس کی جگہ پر رکھ دیا گیا۔(بخاری شريف جلد اول صفحہ: 568)واضح رہے کہ رسالت مآب ؐ کے شق صدر کا دوتا ریخی واقعہ ہے۔ ایک جب آپ کی عمر4یا 5 سال تھی ۔ اس وقت آپ قبیلہ بنو سعد حضرت حلیمہ ؓ کے زیر سایہ پر ورش پا رہے تھے۔ایک دن آپ اپنے رضائی بھائی کے ساتھ دامن کوہ میں بکریاں چرانے میں مصروف تھے کہ ناگاہ دو سبز پوش انسان نمودار ہوئے اور آپ کو اُٹھا کر کلہ کوہ کی طرف لے گئے۔ آپ کا رضائی بھائی سر اسیمہ ہو کر گھر کی طرف بھاگا۔ اور کہا کہ دو سبز پوش انسان ہمارے مکی بھائی کو اُٹھا کر کلہ کوہ طرف بھاگ گئے ہیں۔ سیدہ حلیمہ کے پائوں تلے سے گو یا زمین نکل گئی بد حواس ہو کر دوڑی۔ اس کا شوہر حارث بن عبد اللہ امی اور بنی سعد کے کئی اور لوگ بھی گھبرا کر دوڑے جب دامن کوہ میں پہنچے تو دیکھا کہ حضور انور ؐ ایک چھوٹی سی پہاڑی پر صحیح وسالم کھرے ہوئے کسی گہرے خہال میں مستغرق ہیں۔ سیدہ حلیمہ اور دوسرے لوگ آپ کے قریب پہنچے تو ایک مشکبار خوشبو نے ان کا خیر مقدم کیا۔ حلیمہ نے دو ڑ کرآپؐ کوسینے سے لپٹا یا اور حقیقت ِحال در یا فت کی تو آپؐ نے فرمایا کہ دو سبز پوش انسان مجھے یہاں اُ ٹھا لائے اور میرا سینہ چاک کر ڈالا ۔ مگر مجھے ذرا بھی درد نہیں ہوا۔ میرے دل کو پہلو سے نکال کر انہوں نے ایک سونے کے طشت میں رکھ کر آب زمزم سے دھویا پھر اُٹھا کر میرے پہلو میں رکھ دیا اور میرے سینہ پر اپنا ہاتھ پھیرا اور پھر آسمان کی طرف پر واز کر گئے۔ سیدہ حلیمہ نے قمیص کادامن اُٹھا کر آپ کا سینہ مبارک دیکھا زخم کا کوئی نشان نہ تھا (بحوالہ عرب کا چاند صفحہ۔73)
دوسری مرتبہ شق صدر اس وقت پیش آیا جب آپؐ معراج کے سفر کے لیے روانہ ہو رہے تھے حضرت ابن شہاب ؓ سے روایت ہے وہ حضرت انس ؓ سے روایت کرتے ہیں حضرت انس ؓنے کہا کہ حضرت ابو ذر ؓ حدیث بیان کرتے تھے کہ رسولؐنے فرمایا کہ میرے گھر کی چھت کھل گئی اور اس وقت میں مکہ میں تھا جبریلؑ اترے اور انہوں میرے سینہ کو کھولا اور اسکو آب زمزم سے دھویا۔ پھر ایک سونے کا طشت جو ایمان وحکمت سے بھرا ہواتھا۔ اس کو میرے سینہ میں رکھ کر ڈھانک دیا۔ پھر میرے ہاتھ کو پکڑکر آسمان کی طرف لے گئے(بروایت مسلم شریف ، مشکوٰۃ شریف جلد دوم صفحہ ۔513) یہ ایک طویل حدیث ہے جس میں سفر معراج کے بہت سے مقام ومناظر بیان کئے گئے ہیں ۔آپؐ کے ساتھ دو بار شق صدر کا عظیم واقعہ پیش آیا۔ ان آپریشن میں نہ کسی طرح کے آلات کا استعمال کیا گیا نہ اس وقت آپ بے بہوش گیا نہ آپؐ کو کسی طرح کی تکلیف ہوئی گویا یہ آپر یشن معجزہ کے طور پر انجام دیا گیا۔ شق صدر کا دوسرا پہلو انسان کو آپریشن کا علم اور تربیت کی طرف اشارہ کرناتھا۔
مسلم شریف میں ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے سینہ چاک کرنے کے بعد قلب مبارک کو زم زم کے پانی سے دھویا اور سینہ مبارک میں رکھ کر سینہ بند کردیا(مسلم شربف جلد اول صفحہ: 92)
حضرت جبرائیل علیہ السلام فرماتے ہیں کہ قلب ہر قسم کی کجی سے پاک اور بے عیب ہے اور اس میں دو آنکھیں ہیں جو دیکھتی ہیں اور دو کان ہیں جو سنتے ہیں(فتح الباری جلد: 13: صفحہ: 610)
آبِ زم زم سے قلب اطہر ؐ کو دھونے کا یہ مطلب ہے کہ جس سفر پر آپ ؐ روانہ ہو رہے ہیں ،وہاں کی فضاانسانی جسم کے لئے ناقابل برداشت ہے،اس لئے وہاں کی سختی کوبرداشت کرنے،سفر کی سختی سے آپ ؐ محفوظ رہے اس کے لئے زم زم جیسے عظیم پانی کا استعمال کیاگیا۔،پہلی بار شق صدر اس لئے تھا کہ آپ ؐ بار رسالت کو مستعدی سے اداکرنے کے لئے تیار رہے اوروحی کی سختی کوآپؐ کاانسانی جسم برداشت کرجائے۔ عظیم ترین تاریخی واقعۂ معراج انسانی ارادہ، کاوشوں، کارناموں اور ترقیات کا رُخ متعین کرتا ہے، تاکہ انسان بھول بھلیوں سے نکل کر ہمہ وقت اپنے مقصد حیات کو پیش نظر رکھے۔ علامہ شبلی نعمانی کے مطابق صرف سورہ بنی اسرائیل کی ابتدائی آیت ہی واقعۂ اسراء یا معراج کے متعلق نہیں، بلکہ پوری سورہ اسی واقعہ کے گرد گھومتی ہے اور معراج کے فلسفہ و مقاصد کو واضح کرتی ہے(بحوالہ سیرت النبیٰ ؐ جلد سوم صفحہ۔252)qqq