واقعہ معراج قدرت الٰہی کی عظیم نشانی

0

ضیاء المصطفیٰ نظامی

اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضور اکرم ﷺ کونبوت کے بارہویں سال معراج سے شرف یاب فرمایا مہینہ کے متعلق اختلاف ہے مگر مشہوریہ ہے کہ 27رجب کومعراج ہوئی۔
آپ ﷺ کو مسجد حرام سے مسجداقصیٰ کی جانب سیر کرائی ،آسمانوں کا مشاہدہ کروایا ،جنت کی سیر کرائی اور دوزخ کا معائنہ کروایا،سدرۃ المنتہی،عرش اعظم ،لامکاں اور ماوراعرش جہاں تک رب کو منظور تھاآپ تشریف لے گیے،پانچ نمازوں کی فرضیت کے انعام سے بھی نوازا گیااوراس کے ذریعے قدرت کے بے شمار عجائبات کوبھی ظاہر کیا گیا۔اوررب تعالیٰ نے آپ کو اپنے جمال مطلق کے بے حجاب دیدارسے سرفراز فرمایا ،چشم زدن میں یہ غیر معمولی اور طویل سفرکرواکراللہ تعالیٰ نے محبوب کے سفر کو اپنی قدرت کی دلیل قراردیا۔
حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مکہ مکرمہ سے بیت المقدس تک رات کے مختصر حصہ میں تشریف لے جانا قرآن کریم سے ثابت ہے اس کامنکر کافرہے۔اورآسمانوں کی سیر اورمنازِل قرب میں پہونچنااحادیث صحیحہ سے ثابت ہے،اس منکرگم راہ ہے۔معراج شریف بحالت بیداری جسم وروح کے ساتھ واقع ہوئی یہی جمہوراھل اسلام کاعقیدہ ہے۔
رب تعالیٰ نے ہر نبی کو معجزہ عطافرمایا اور اپنا دیدارحبیب کریم کے لیے مختص رکھا ،حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دیدار کی خواہش کی تو فرمایا کہ اے موسیٰ !آپ ہرگز مجھے نہیں دیکھ سکتے ۔دیدارکی خواہش پر اللہ تعالیٰ نے دیدار کو ناممکن نہیں قرار دیا بلکہ دیدار سے متعلق حضرت موسیٰ سے فرمایا کہ آپ نہیں دیکھ سکتے ،اور حبیب پاک کو بلاطلب اپنا دیدار کروایا ۔
سورۂ ’اسراء‘کی پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے سفر معراج کا تذکرہ فرمایا اور اس کا آغاز ’سبحان ‘کے ذریعہ کیا تاکہ کوئی کوتاہ فہم معراج شریف کے اس عظیم الشان سفرکا انکار نہ کرے ، لے جانے والاکون ہے؟وہ ’سبحان‘تمام قوتوں کا مالک اورہر عیب سے پاک ہے ۔لہذا سفر معراج کا انکار کرنا درپردہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا انکار کرنا ہے،ارشادباری تعالیٰ ہے:پاکی ہے اسے جوراتوں رات اپنے بندے کو لے گیا مسجدِ حرام(خانہ کعبہ) سے مسجد اقصا(بیت المقدس) تک جس کے گرداگرد ہم نے برکت رکھی کہ ہم اسے اپنی عظیم نشانیاں دکھائیں بےشک وہ سنتا دیکھتا ہے۔
واقعۂ معراج کی مختصر تفصیل یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سونے کا طشت لایا گیا جو حکمت اور ایمان سے پُر تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سینہ چاک کیا گیا، پھر اسے زمزم کے پانی سے دھویا گیا، پھر اسے حکمت اور ایمان سے بھر دیا گیا اور پھر بجلی کی رفتار سے زیادہ تیز چلنے والی ایک سواری یعنی براق لایا گیاجو لمبا سفید رنگ کا چوپایا تھا، اس کاقد گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا تھا وہ اپنا قدم وہاں رکھتا تھا جہاں تک اس کی نظر پڑتی تھی۔
حضور کی خدمت میں براق پیش کیا گیا اور آپ کی سواری اس شان کے ساتھ نکلی کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام رکاب تھامے ہوئے ،حضرت میکائیل علیہ السلام باگ پکڑے ہوئے ،اور اسرافیل علیہ السلام غاشیہ بردار ہیں ،ستر ہزار فرشتے سیدھے طرف اور ستّر ہزار فرشتے بائیں طرف ،ہر ایک کے ہاتھ میں عرش کے نور کی ایک ایک مشعل تھی ، باوجود اس کے حضور کے چہرۂ انور کے نور کاوہی عالم تھا ۔ حکم ہواجبرئیل میرے حبیب کے چہرۂ مبارک پر کئی ہزار پردے ہیں پھر بھی نور کا یہ عالم ہے ،ذرا ایک پر دہ تو اُٹھاؤ !ایک پر دہ اُٹھنا تھا کہ نور کےجولکھالکھ قندلیں روشن تھیں حضور کے نو رکے سامنے ماندپڑگئیں ۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بیت المقدس لے جایا گیا اور وہاں تمام انبیاء کرام نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں نماز پڑھی۔ پھر آسمانوں کی طرف لے جایا گیا۔ پہلے آسمان پر حضرت آدم علیہ السلام ، دوسرے آسمان پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت یحیےٰ علیہ السلام، تیسرے آسمان پر حضرت یوسف علیہ السلام، چوتھے آسمان پر حضرت ادریس علیہ السلام، پانچویں آسمان پر حضرت ہارون علیہ السلام، چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔ اس کے بعد البیت المعمور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کردیا گیا جہاں روزانہ ستر ہزار فرشتے اللہ کی عبادت کے لئے داخل ہوتے ہیں جو دوبارہ اس میں لوٹ کر نہیں آتے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سدرۃ المنتہی تک لے جایا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ اس کے پتے اتنے بڑے ہیں جیسے ہاتھی کے کان ہوں اور اس کے پھل اتنے بڑے بڑے ہیں جیسے مٹکے ہوں۔ جب سدرۃ المنتہی کو اللہ کے حکم سے ڈھانکنے والی چیزوں نے ڈھانک لیا تو اس کا حال بدل گیا، اللہ کی کسی بھی مخلوق میں اتنی طاقت نہیں کہ اس کے حسن کو بیان کرسکے۔ سدرۃ المنتہی کی جڑ میں چار نہریں نظر آئیں، دو باطنی نہریں اور دو ظاہری نہریں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دریافت کرنے پر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے بتایا کہ باطنی دو نہریں جنت کی نہریں ہیں اور ظاہری دو نہریں فرات اور نیل ہیں (فرات عراق اور نیل مصر میں ہے)۔
اس وقت اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان چیزوں کی وحی فرمائی جن کی وحی اس وقت فرمانا تھا اور پچاس نمازیں فرض کیں۔ واپسی پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے کہنے پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چند مرتبہ بارگاہ خداوندی میں حاضر ہوئے اور نماز کی تخفیف کی درخواست کی۔ ہر مرتبہ پانچ نمازیں معاف کردی گئیں یہاں تک کہ صرف پانچ نمازیں رہ گئیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس پر بھی مزید تخفیف کی بات کہی، لیکن اس کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ مجھے اس سے زیادہ تخفیف کا سوال کرنے میں شرم محسوس ہوتی ہے اور میں اللہ جل مجدہ کے اس حکم کو تسلیم کرتا ہوں۔ اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ ندا دی گئی : میرے پاس بات بدلی نہیں جاتی ہے یعنی میں نے اپنے فریضہ کا حکم باقی رکھا اور اپنے بندوں سے تخفیف کردی اور میں ایک نیکی کا بدلہ دس بناکر دیتا ہوں۔ غرضیکہ ادا کرنے میں پانچ ہیں اورثواب میں پچاس ہی ہیں۔
معراجِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اَصل میں معراجِ بندگی ہے۔ عظمتوں اور رِفعتوں کے اُس سفر میں اللہ ربّ ُالعزّت نے اپنے محبوب بندے اور رسول کو اَن گنت اِنعامات و اِعزازات سے نوازا۔ معراج اِتنا بڑا واقعہ ہے کہ اُس میں آقائے دوجہاں حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کومقامِ قَابَ قَوْسَیْن پر فائز کیا گیا۔ قُرب اپنی اُس اِنتہا کو پہنچا کہ ہمیں اُس کا اِدراک حاصل ہو سکتا ہے اور نہ شعور۔ فاصلے مٹتے چلے گئے، دُوریاں ختم ہوتی چلی گئیں، حجابات اُٹھتے چلے گئے لیکن اُس مقام پر پہنچ کر بھی بندہ بندہ ہی رہا۔ درجات کی اُس عظیم الشّان بلندی پر جلوہ اَفروز ہو کر بھی عاجزی و اِنکساری کا پیرہن اُس رسولِ عظیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے باعثِ اِعزاز بنا رہا۔ کرۂ اَرضی پر واپسی ہوئی تو سیاحِ لامکاں حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بشری و تہذیبی وُجود سلامت تھا۔
کامل بندگی کی منزل مردِ مومن کی وہ آرزو ہے جس کے حصول کے لئے وہ اپنی زِندگی کا ہر لمحہ حکمِ خدا کے تابع کر لیتا ہے، اِس لئے کہ وہ جانتا ہے کہ پروردگارِ عالم کی کامل بندگی اِیمان میں کامل ہوئے بغیر نہیں ملتی اور اِنسان اِیمان میں کامل اُس وقت ہوتا ہے جب وہ سرتاپا عشقِ اِلٰہی میں ڈُوب جاتا ہے۔ جب بندگی اُس کے سر کا تاج ٹھہرتی ہے اور اُس کا دِل توحیدِ اِلٰہی کا مرکز بن جاتا ہے۔
مقامِ بندگی کا حصول اُسی وقت ممکن ہے جب اِنسان ہر شئے سے منہ موڑ کر اپنے خالق سے لَو لگا لے۔ اَپنے دِل سے ہر کسی کی محبت کو نکال دے اور اپنے مولا سے رِشتہ جوڑ لے کہ اُس کی چوکھٹ بندے کی منزلِ مقصود ہے۔ اپنے مالکِ حقیقی کی بندگی کا کیف ہر کیف پر محیط ہے۔ ڈاکٹر اِقبال نے کیاخوب کہاہے:
متاعِ بے بہا ہے درد و سوزِ آرزو مندی
مقامِ بندگی دے کر نہ لوں شانِ خداوندی
بندے کو اگر مقامِ بندگی عطا ہو جائے تو پھر وہ ہر منصب سے بے نیاز ہو جاتا ہے، ہر چیز کو ہیچ گردانتا ہے، لہٰذا اَپنے عبد کو آسمانوں کی سیر کرانے اور اُسے عظمتوں اور رِفعتوں سے ہمکنار کرنے کا مطلب یہ ہوا کہ جس بندے کو اِعزازِ معراج سے نوازا گیا وہ کوئی عام بندہ نہ تھا بلکہ وہ اللہ کا آخری رسول تھا، جو ہر شئے سے کٹ کر اللہ تبارک و تعالیٰ کے ساتھ رشتۂ بندگی کو اَپنی اِنتہاؤں تک لے جا چکا تھا۔ جو ساری ساری رات اللہ کے حضور قیام کرتا کہ پاؤں سُوجھ جاتے اور اُن میں وَرم آ جاتا لیکن مقامِ بندگی کی حلاوتوں میں کچھ اور اِضافہ ہو جاتا۔ کیف و مستی کی کیفیتوں میں دِل ڈُوب جاتا اور جبینِ اَقدس میں سجدوں کا سرُور سما جاتا، بندگی کا حسن خدا کو چاہنے سے ہی قائم رہتا ہے۔ گویا آسمانوں کا یہ سفرِ عظیم محض حسنِ اِتفاق نہ تھا بلکہ یہ سفر ایک چاہت کا سفر تھا۔ محبت و مؤدّت کا سفر تھا۔ عظمت و رِفعت کا سفر تھا۔ ایک آرزو کی تکمیل اور ایک خواہش کے اِتّمام کا سفر تھا۔ وہ سفر کہ جس کے بعد تاریخِ اِرتقائے نسلِ اِنسانی کا یہ سفر اُس سفر کی گردِ پا کو اپنے ماتھے کا جھومر بنا کر اِعتبار کی سند حاصل کیا کرے گا۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے مخلوق کو مختلف خصوصیات سے نوازا ہے ،انسان اگر کسی پرندہ کو قوت سے دبادے تو پرندہ دم توڑ دیتاہے ، لیکن اسی کم زور پرندہ کو طاقت پروازدی گئی ہے جو انسان کو حاصل نہیں ۔سانپ زمین پر رینگتاہے اور اس کی جلد انسان کی جلد سے نرم ہونے کے باوجود نہ ریت اس کی جلد کو متائثر کرتی ہے نہ کانٹا ،اور نہ ہی پتھریلی زمین پر چلنے کی وجہ سے اسے زخم آتاہے ،برخلاف اس کے اگر انسان چند میل برہنہ قدم چلے تو اس کی جلد متاثر ہوتی ہے ،زخم لگتاہے ۔
مشاہدہ سے یہ بات ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو جداگانہ خصوصیات عطاکیے ہیں اور سانپ جو کہ ایک زہریلہ اور ضرررساں جانور ہے اس کو جسمانی لحاظ سے خصوصیت دی گئی ہے تو حضور اکرم ﷺ جو اللہ تعالیٰ کے حبیب ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے سرتاپارحمت اور مخلوق کو ہدایت دینے والا بنایا ہے تو اللہ تعالیٰ آپ کوعام انسانوں کے بالمقابل امتیازات وخصوصیات سے نوازے تو انکارکیوں کیا جاتاہے ؟یقینا آپ رات کے مختصر سے حصہ میں مسجد حرام سے مسجداقصی اور مسجد اقصی سے ساتوں آسمان اور جہاں تک اللہ تعالیٰ نے چاہا‘اپنے جسم مبارک کے ساتھ تشریف لے گیے۔

ضیاء المصطفیٰ نظامی
جنرل سکریٹری آل انڈیا بزم نظامی
[email protected]

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS