جتنی جلدی بات سمجھ میں آ جائے

0

صبیح احمد

پاکستانی وزیر خارجہ کے ایک بیان کے مغربی میڈیا کے ایک اہلکار کے ذریعہ ’یہود مخالف‘ ہونے کا الزام لگائے جانے کے بعد نسلی منافرت کے موضوع پر ایک بار پھر گرما گرم بحث شروع ہو گئی۔ بات یہاں تک پہنچ گئی کہ شاہ محمود قریشی کے دفاع میں پاکستانی حکومتی عہدیداروں کو مداخلت کرنی پڑی۔
دراصل شاہ محمود قریشی نے سی این این کی میزبان کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ اسرائیل ’کنکشنز‘ کے باوجود میڈیا جنگ ہار رہا ہے۔ اس پر میزبان نے فوراً پاکستانی وزیرخارجہ سے ان کنکشنز کی وضاحت کرنے کو کہا۔ قریشی نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ وہ (اسرائیل) بہت با اثر لوگ ہیں۔ ’میرا مطلب ہے کہ وہ میڈیا کو کنٹرول کرتے ہیں۔‘ پھر کیا تھا، سی این این کی میزبان نے قریشی کے اس بیان پر ’یہود مخالف‘ کا لیبل چسپاں کر دیا۔ نقادوں نے شاہ محمود قریشی کے ریمارکس پر تنقید شروع کردی۔ بالآخر پاکستانی وزارت خارجہ کو مداخلت کرنی پڑی اور کہا کہ ’وزیرخارجہ (قریشی) کے بیان کو جس طرح بھی توڑ مروڑ کر پیش کریں گے، پھر بھی اس سے وہی بات عیاں ہوگی جو وہ کہنا چاہتے تھے۔‘ انسانی حقوق کی وفاقی وزیر شیریں مزاری نے بھی اپنے ایک ٹویٹ میں پرزور انداز میں قریشی کے بیان کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ’آزادی تقریر کا دعویٰ کرتے ہوئے اسلام اور ہمارے پیغمبرؐ کا مذاق اڑایا جاتا ہے، اسلام کا خوف پھیلایا جاتا ہے لیکن جب ہم مغربی میڈیا اور حکومتوں پر اسرائیل کی ’’ ڈیپ پاکٹس‘‘ اور اثرورسوخ کی بات کریں تو اس پر ’’یہود دشمن‘‘ ہونے کا لیبل لگا دیا جاتا ہے۔ فلسطینیوں کا قتل عام کرو اور اس کو اپنے دفاع کا حق گردانو۔‘

یـہ حـقـیـقـت ہـے کـہ نـاقـص بـنـیـاد پـر کـھـڑی عـمـارت کـی عـمـر زیـادہ نـہـیـں ہـوتــی۔ ٹـھـیـک اسـی طـرح مـنـفـی اصـولـوں اور نظریات کی بـنـیـاد پـر قـائـم حـکـومـتـیـں دیـرپـا نـہـیـں ہـوتـیـں۔ سـابـق امـریـکـی صـدر ٹـرمپ نـے شـایـد نـفـرت کـی بـنـیـاد پـر سـمـاجـی و سـیـاسـی تـقـسـیـم کـو اپـنـا ایک مـضـبـوط آلـہ کار سـمـجـھ لـیـا تـھـا جـس کا خـمـیـازہ انـہـیـں صـرف 4 سـال کـے انـدر ہـی بـھـگـتـنـا پـڑ گـیـا۔

بادی النظر میں پاکستانی وزیرخارجہ کا بیان یہود مخالف یا نسل پرستانہ نہیں لگتا۔ یہ ایک عام نظریہ ہے کہ دنیا بھر میں یہودیوں کا اثر ورسوخ کسی بھی دوسری قوم سے بہت زیادہ ہے۔ قریشی کا اشارہ اسی طرف تھا لیکن ٹی وی میزبان نے اسے ایک مخصوص نظریہ سے جوڑ کر طول دینے کی کوشش کی۔ حالانکہ نسلی منافرت کا یہ رجحان مغربی دنیا میں غالب ہے۔ بلکہ اس کی طویل تاریخ رہی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہاں کے لوگ ایک عام گفتگو میں بھی یہ متنازع پہلو نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس دن محمود قریشی پر یہ الزام لگایا جا رہا تھا ، اسی روز امریکی صدر بائیڈن امریکہ میں نفرت پر مبنی جرائم کی روک تھام کے لیے ایک نئے قانون ’ہیٹ کرائمس ایکٹ‘ پر دستخط کر رہے تھے۔ یہ قانون کووڈ19- وبا کے دوران امریکہ میں ایشیائی امریکیوں پر حملوں میں ہونے والے ڈرامائی اضافہ کی روک تھام کے لیے لایا گیا ہے۔ وہائٹ ہاؤس میں بل پر دستخط سے پہلے صدر بائیڈن کا کہنا تھا کہ نفرت اور نسل پرستی ایک ایسا زہر ہے جس نے امریکی قوم کو متاثر کیا ہے۔
کیلیفورنیا اسٹیٹ یونیورسٹی کے سینٹر فار اسٹڈی آف ہیٹ اینڈ ایکسٹریمزم کے مرتب کردہ ڈیٹا کے مطابق امریکہ کے سب سے زیادہ آبادی والے شہروں میں2020 کے دوران ایشیائی امریکیوں کے خلاف نفرت پر مبنی جرائم میں گزشتہ سال یعنی 2019 کی بہ نسبت 150 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جبکہ 2020 کی پہلی سہ ماہی کی بہ نسبت 2021 کی پہلی سہ ماہی میں ان جرائم میں 194 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ امریکہ کے سب سے بڑے شہر نیویارک میں بھی نفرت پر مبنی جرائم کا ارتکاب ہوا جہاں ایشیائی امریکیوں کی اچھی خاصی تعداد آباد ہے۔ نیویارک میں پولیس نے 28 واقعات کی چھان بین کی جبکہ 2019 میں ایسے 9 واقعات رپورٹ ہوئے تھے۔ امریکہ کے دیگر 4 بڑے شہروں میں فلاڈیلفیا، کلیولینڈ، سین ہوزے اور لاس اینجلس شامل ہیں۔ سین ہوزے میں 2019 میں 4 کے مقابلے 10 اور لاس اینجلس میں 7 کے مقابلے میں 14 نفرت پر مبنی جرائم کا ارتکاب ہوا۔ یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ اس نئے قانون سے کتنا فرق آئے گا۔
ایف بی آئی کے مطابق نفرت پر مبنی فعل ایک ایسا جرم ہے جس کے پیچھے نسل، مذہب، جنسی رجحان اور دیگر عناصر کار فرما ہوتے ہیں مثال کے طور پر زد و کوب کرنا یا لوٹ مار کرنا۔ ہر سال نومبر میں ایف بی آئی گزشتہ سال کا نفرت پر مبنی جرائم کا ڈیٹا جاری کرتا ہے۔ متعدد ایشیائی امریکی گروپوں کے اشتراک سے قائم کردہ ’اسٹاپ اے اے پی آئی ہیٹ نامی‘ گروپ نے 2020 میں مارچ سے لے کر دسمبر تک ایشیائی امریکیوں کے خلاف نسل پرستی رویے کے 2800 واقعات ریکارڈ کیے۔ 90فیصد واقعات زبانی بدکلامی، دشنام طرازی اور متعصبانہ رویے کے تھے جبکہ جسمانی تشدد کے تقریباً 9 فیصد واقعات پیش آئے۔ اس تعصب کا شکار ہونے والے بہت سے افراد چینی النسل امریکی نہیں تھے بلکہ ان جیسی شباہت رکھتے تھے اور جنہیں غلطی سے چین کا باشندہ سمجھ لیا گیا۔ چینیوں جیسی شکل و شباہت رکھنے والے مشرقی ایشیائی افراد اب تک ان تجربات سے زیادہ گزر رہے ہیں اور یہ سلسلہ اس ملک میں ایشیائی مخالف رویوں کی ایک لمبی تاریخ سے جڑتا ہے۔ ایشیائی امریکیوں میں سب سے زیادہ واقعات چینی امریکیوں کے خلاف پیش آئے جو کہ کل واقعات کے 42.2 فیصد ہیں۔ کوریائی باشندوں کے خلاف 14.8 فیصد، ویتنامی امریکیوں کے خلاف 8.5 فیصد اور فلپائنی باشندوں کے خلاف 7.9 فیصد واقعات پیش آئے۔ خواتین نے مردوں کے مقابلے دوگنے سے زیادہ ایسے واقعات کو رپورٹ کیا۔ امریکہ میں سفید فام بالاستی پر مبنی پروپیگنڈہ میں گزشتہ ایک سال کے دوران تقریباً دوگنا اضافہ ہوا ہے۔ اس پروپیگنڈہ میں نسل پرستی، صہیونیت مخالفت، ہم جنسوں کے خلاف پیغامات شامل ہیں۔
امریکہ میں صحت اور صحافت کے شعبوں سے وابستہ ایشیائی امریکی عملہ کو کورونا وبا کے دوران نفرت پر مبنی حملوں کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔ گزشتہ ماہ امریکی شہر اٹلانٹا میں 6 ایشیائی امریکی خواتین کے قتل کے ایک روز بعد امریکہ میں کم از کم 5 ایسے صحافیوں کو رپورٹنگ کے دوران ہراساں کیا گیا جو نسلی لحاظ سے ایشیائی تھے۔ یعنی ایشیائی امریکی صحافی بھی منفی رویوں کی اس بڑی لہر کی لپیٹ میں ہیں جس کی شکایت کورونا وائرس کی عالمی وبا کے بعد امریکہ میں رہنے والی ایشیائی امریکی کمیونٹی تواتر کے ساتھ کر رہی ہے، یعنی ایشیائی امریکیوں کے خلاف نفرت پر مبنی جرائم۔ امریکہ میں صحت کے شعبے میں خدمات انجام دینے والے ایشیائی ورکروں کو نہ صرف کورونا وائرس کے خلاف جنگ کا سامنا ہے بلکہ بعض مقامات پر نسل پرستی پر مبنی رویوں کا بھی سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
ایشیائی امریکیوں کے حقوق کیلئے کام کرنے والے سرگرم کارکنوں نے ان غیرمعمولی واقعات کا سبب بظاہر سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی تقاریراور بیانات کو ٹھہرایا ہے جس میں انہوں نے کورونا وائرس کے مہلک پھیلاؤ کا ذمہ دار چین کو قرار دیا تھا۔ اس عالمی وبا کے دوران سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے متعدد بار کووڈ19- کو ’چینی وائرس‘ اور دیگر ناموں سے پکارا۔ اس عمل نے ایشیائی امریکیوں کے خلاف غصے کو ہوا دی۔ بہرحال سابقہ سیاسی قیادت کے بعض بیانات نے ایشیائی نقوش کے حامل باشندوں کو ہدف بنا کر رکھ دیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ناقص بنیاد پر کھڑی عمارت کی عمر زیادہ نہیں ہوتی۔ ٹھیک اسی طرح منفی اصولوں اور نظریات کی بنیاد پر قائم حکومتیں دیر پا نہیں ہوتیں۔ سابق امریکی صدر ٹرمپ نے شاید نفرت کی بنیاد پر سماجی و سیاسی تقسیم کو اپنا ایک مضبوط آلہ کار سمجھ لیا تھا جس کا خمیازہ انہیں صرف4سال کے اندر ہی بھگتنا پڑگیا۔ دنیا کے مختلف ممالک میں اور بھی حکمراں ہیں جو انہی اصولوں کی پیروی کررہے ہیںجن پر ٹرمپ کاربند تھے۔ جتنی جلدی بات ان کی سمجھ میں آ جائے، ان کے لیے اتنا ہی بہتر ہوگا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS