پروفیسر اسلم جمشید پوری
آج کل چہارطرف Artificial Intelligence یعنی مصنوعی ذہانت کا شور ہے۔ یونیورسٹی، کالج، اخبارات، ریڈیو، ٹی وی، کاروباری ادارے، بڑی بڑی کمپنیاں، سرکاری و غیر سر کاری محکمے سب میں مصنوعی ذہانت کا چرچا ہے۔آخر یہ AIٰٓہے کیا؟ اس مصنوعی ذہانت سے کیا مراد ہے؟ اس کے فوائد کیا ہیں اور اس کے نقصانات کتنے ہیں؟ان سب سوالوں کے جواب کے لیے ہمیں اس کی تعریف میں جا نا ہو گا۔اس نے کس طرح دنیا کو اپنی مٹھی میں کر لیا ہے ؟
آج سے بیسیوں سال قبل جب ریلاینس انڈیا نے ’’ کر لو دنیا مٹھی میں‘‘ نعرہ دیا تھا تو ہمیں بڑی حیرانی ہوئی تھی کہ دنیا کو مٹھی میں کیسے کیا جا سکتا ہے؟ بعد میں یہ عام ہوا کہ میڈیا کے پھیلائو سے ہم دنیا کو مٹھی میں کرسکتے ہیں۔یعنی میڈیا کا زور اتنا بڑھا کہ دنیا کے 90فیصد سے زائد لوگوں کے پاس موبائل ہو گیا تھا۔ہم کسی بھی وقت،دور دراز بیٹھے شخص سے بات کرسکتے تھے۔یعنی اب پوری دنیا ہمارے قبضے میں تھی۔ آہستہ آہستہ یہ عام ہوتا گیا کہ پوری دنیا اس میڈیا کی گرفت میں آچکی تھی۔اخبارات کے ای-ایڈیشن شائع ہو نے لگے۔لائبریرز میں ایسے ایپ آگئے کہ وہ عالمی سطح پر ایک دوسرے سے منسلک ہوگئیں،یعنی ہم نے دنیا کو ایک کرنے کا جو خواب دیکھا تھا،وہ شرمندۂ تعبیر ہوا۔
آج اس سے دو قدم آگے بڑھاتے ہوئے اے آئی نے ہمیں کسی اور دنیا میں پہنچا دیا۔بہت سے نا ممکنات کو ممکن کر دکھا یا۔اب یہ ممکن ہوگیا کہ آپ بولیں اور آپ کا موبائل ٹائپ کر دے۔آپ ہندی یا انگریزی میں بولیں اور اردو ترجمہ ہو جائے۔آپ کی آواز کسی بھی آواز میں مکس کی جاسکتی ہے۔تصویر بھی کیا سے کیا ہو سکتی ہے۔ کہانی، نظم، غزل،مضمون، مقالے اور تھیسس کمپیوٹر سے تیا ر ہوسکتے ہیں۔کسی بھی دُھن کو کسی اور سے ملایا جا سکتا ہے۔یہ سب مصنوعی ذہانت سے ممکن ہوا۔
مصنوعی ذہانت کی تعریف کرتے ہوئے محمد جمیل اختر جلیلی ندوی لکھتے ہیں: ’’ انسانی سوچ اور مشین کی کار کر دگی کے حسین امتزاج کانا م ہے،جس نے تعلیمی،معاشی،تجارتی اور سماجی میدانوں میں انقلابی تبدیلیاں پیدا کر دی ہیں۔‘‘
دراصل مصنوعی ذہانت انسانی ذہن اور مشینوں کے بروقت استعمال سے پیدا ہو نے والے نتائج ہیں۔جو آپ کے سوال کی نوعیت کے اعتبار سے مشینی رزلٹ ہوتا ہے۔ آپ اگر مشین سے ( کمپیوٹر سے ) راجیو گاندھی کے بارے میں سوال کریں گے تو اس کا جواب اندرا گاندھی کے تعلق سے نہیں ہو گا۔دوسرے جو کچھ راجیو گاندھی سے متعلق کمپیو ٹر میں فیڈ کیا ہوا ہوگا،وہی جواب کی صورت آپ کے سامنے ہوگا۔جو کمپیوٹر میں فیڈ نہیں ہوگا،کمپیوٹر اس کا جواب دینے سے قاصر ہو گا۔اس کی مثال یہ ہو سکتی ہے کہ جس ادیب کے تعلق سے کمپیوٹر میں کچھ نہیں ہو گا،آپ لاکھ کوشش کر لیں مگر اس کے متعلق کوئی معلومات حاصل نہیں ہوسکتیں۔اور اگر کچھ معلومات ملتی ہیں تو یہ جان لیں کہ کسی نہ کسی نے کبھی ضرور معلومات کمپیو ٹر پر شیئر کی ہو ں گی۔یعنی مصنوعی ذہانت بھی انسان کی محتاج ہے۔یہ الگ بات ہے کہ آج کمپیوٹر پہ اتنا کچھ ہے کہ انسانی ذہن سوچ بھی نہیں سکتا۔اے آئی آج انسانی ذہانت کو بھی چیلنج کر رہاہے اور کئی شعبوں میں انسانی ذہانت سے بھی آگے نکل گیا ہے۔
ڈاکٹر جیفری ہنٹن نے Artificial Intelligence کی بنیاد رکھی۔انہوں نے یہ کارنامہ گوگل کے لیے کیا۔مگر اس کے نقصانات کو جب انہوں نے بھانپ لیا اور کمپنی نے کوئی نوٹس نہیں لیا تو انہوں نے گوگل کو خیرباد کہا۔مصنوعی ذہانت کا صحیح استعمال ترقی کی راہیں کھول سکتا ہے۔طلبا کے لیے اس کا مشروط استعمال انہیںنئی نئی تحقیق کی طرف مائل کرتا ہے۔ان میں توانائی بھرتا ہے اور نئی چیزوں کی تلاش کی جستجو پیدا کرتا ہے۔ ایک واقعہ سماعت کریں۔شعبۂ اردو میں ایک کتاب ( ادب کا اعتبار : سید احمد شمیم،مرتبہ: عظمیٰ سحر )کا اجرا تھا۔مہمانوں میں پروفیسر نوین چند لوہنی بھی شامل تھے۔اتفاق سے وہ اردو نہیں جانتے تھے اور کتاب اردو میں تھی۔انہوں نے اسٹیج پر ہی پیش لفظ کا اردو سے ہندی تر جمہ کیااور اسی کے سہارے 15-20منٹ بولے۔یہ سب کیسے ممکن ہوا؟ یہ سب اے آئی کے سبب ہی ہوا۔
آج کل ہر طرف مصنوعی ذہانت نے اپنے ہاتھ پائوں پھیلا رکھے ہیں۔ اسے استعمال کرنے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے،جو ہر لمحے بڑھتی جارہی ہے۔زندگی کے مختلف شعبوں میں اس کا دخل بڑھ رہا ہے۔ ٹرانسلیشن، ریسرچ، حفاظتی ادارے، جاسوسی کرنے والے ادارے، جنگ میں ہتھیاروں پر کنٹرول، پرنٹنگ پریس، کتابیں، اخبارات، ہوائی جہاز، خلائی سفر، ٹکٹ بکنگ، کائونٹنگ، ایڈمیشن۔ ایگزامنیشن،غرض ہر جگہ اب اے آئی کے استعمال میں روزافزوں اضافہ ہو رہا ہے۔طرح طرح کے روبوٹ بنائے جا رہے ہیں۔جو مختلف کام کر رہے ہیں۔ان کا استعمال جنگوں میں ہوائی جہاز اُڑانے سے لے کر گھر کے کام کاج میں بھی ہو رہا ہے۔آپ نے فلم ’روبوٹ‘ دیکھی ہوگی۔روبوٹ کیاکیا اور کتنا کام کر تا ہے۔یہ انسانوں کی طرح حرکات و سکنات کرتے ہیں،ان کی نقل کرتے ہیں۔
اب مصنوعی ذہانت کا ادب میں بھی دخل بڑھ رہا ہے۔ ترجمہ نگاری میں تو اس کے کمالات سے زبردست تبدیلی آرہی ہے۔آج کل اس سے فلموں میں بھی کام لیا جا رہا ہے۔ موسیقی کی ٹٹریک بنانا، گانے لکھنا، مکالمے لکھنا، نمبرنگ، کہانیوں کے مختلف حصے تحریر کرنا سے لے کر بہت کام اے آئی سے لیا جارہا ہے۔حد تو یہ ہوگئی ہے کہ غزلیں،نظمیں اور افسانے بھی اس سے تحریر ہوسکتے ہیں بلکہ ہو رہے ہیں۔ مضامین کے تو انبار لگ رہے ہیں۔ ادب میں اب بہت کچھ ممکن ہو گیا ہے۔
اب مصنوعی ذہانت کے بغیر کام نہیں چلتا۔اصل میں دنیا تغیر پسند ہے۔تبدیلی، ترقی کی رہنما ہے۔کمپیوٹر کے آنے سے قبل بھی زندگی تھی۔لوگ زندہ تھے۔ہر کام کرتے تھے۔مگر آج کمپیوٹر ہر شعبے میں ناگزیر بن گیا ہے۔گزشتہ صدی میں کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ کمپیوٹر کے بغیر زندگی،بنا ریڑھ کا جسم ہو جائے گی۔اے آئی بھی اسی طرح ہماری زندگی میں داخل ہو رہا ہے۔جس کے جہاں بے شمار فائدے بھی ہیں تو اس میں خامیاں بہت ہیں۔اس کے نقصانات بھی ہیں۔یہ ذہانت کو متاثر کررہا ہے۔اس کے کثرت ِاستعمال سے بہت سے نقصانات ہو رہے ہیں۔ اس سے کہانیاں اور شاعری تو تخلیق ہو رہی ہے،مگر اس میں انسانی جذبات، امنگیں، ترنگیں، درد و کرب کا اظہار، احترام، رشتے، دوستی، تعلق داری، پڑوس وغیرہ کہاں ہے؟
یہاں تو مشینیں ہیں، کمپیوٹر ہیں،موبائل ہیں، روبوٹ ہیں، بغیر پائلٹ کے طیارے ہیں،راکٹ اور میزائلیں ہیں، ڈرون ہیں،انٹر نیٹ اور ویب سائٹس ہیں،مگر ان کے پاس دل نہیں۔محبت اور نفرت نہیں ہے،جوش اور ہوش نہیں ہے، دماغ نہیں ہے،متوقع خطرات سے نمٹنے کی ہوشیاری نہیں ہے،نقل ہے عقل نہیں۔ترجمہ کرنا ہے،مفہوم صحیح ہے یا نہیں اس سے کوئی مطلب نہیں۔ترجمے پر نظر ثانی نہ ہو اور اصلاح نہ ہو تو ترجمہ بے کار ہے۔تجر بہ نہیں،حسد جلن نہیں،خوشی وغم نہیں،بغض و عناد نہیں، منافقت نہیں،دماغی منصوبہ بندی نہیں۔ فار مولہ بندی ہے،حاضر دماغی نہیں۔سوال ٹیڑھا ہے تو جواب اسی کے مطابق ہو،مگر نہیں جواب وہی ہے جو کمپیوٹر میں پہلے سے فیڈ ہے۔مصنوعی ذہانت کبھی بھی ذہانت کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔لمحہ بہ لمحہ آنے والا بدلائو،آب و ہوا میں ہو نے والا تغیر،رات دن کے اثرات،اندھیرے اجالے کا امتیاز۔۔۔یہ سب ایسے معاملات ہیں کہ ان میں کوئی بھی مشین کام نہیں کرتی۔مشینوں کو انسانی ذہن کی اشد ضرورت ہے جبکہ انسانی ذہن مشین کے بغیر بھی کام کرسکتا ہے۔ سوال کے مطابق جواب دے سکتا ہے۔بدلتے حالات کو سمجھ سکتا ہے۔درد وغم اور خوشی کو محسوس کر سکتا ہے۔ یہ حسیت مشینوں کے پاس کہا ں؟ لیکن ان سب کے با وجود اے آئی کا مثبت استعمال بہت کچھ نیا کر سکتا ہے۔ہماری پرپیچ راہوں پر رہنمائی کر سکتا ہے۔آج اے آئی ترقی کا متبادل بن گیا ہے۔ہمیں اس سے دامن نہیں بچانا ہے بلکہ اسے زیادہ سے زیادہ جاننا ہے اور اس کا مثبت استعمال کرنا ہے۔
aslamjamshedpuri@gmail.com