ارقـم راہـی
بھارت مختلف مذہبوں، ذاتوں ، تہذیبوں اور زبانوں کا ملک ہے ۔ یہاں کثرت میں وحدت ہے۔اس ملک کی یہی چیزیں ایسی ہیں جو اسے دوسرے ملکوں سے ممتاز کرتی ہیں اور اس کے حسن کو دو بالا کرتی ہیں ۔ ملک کے آئین و دستور کی بنیاد سیکولرازم اور لا مذہبیت پر رکھی گئی ہے، لیکن تمام مذاہب کے ماننے والوں کو اپنے مذہب و زبان اور تہذیب و کلچر کو فروغ دینے کی اجازت ہے۔ یہاں ہندو مسلم اور سیکھ و عیسائی میں اخوت و بھائی چارگی ہے۔ بودھ و جین، پارسی وغیرہ مذاہب کے ماننے والے ایک ساتھ مل جل کر رہتے ہیں۔ اس ملک میں جہاں مختلف تہواریں ہیں، وہیں موسم بھی۔ یہاں جہاں عید ملن ہے، وہیں ہولی ملن بھی۔ کشمیر سے کنیا کماری تک بھانت بھانت کے لوگ، مختلف بولیاں، انواع اقسام کے کھانے، وضع قطع الگ الگ، لیکن سب کی زبان پر بھارتی راگ و راگنی کا سر ہے۔
اس ملک کی تاریخ درخشندہ و تابندہ رہی ہے۔ اسے کبھی ’سونے کی چڑیا‘سے پکارا گیا تو کبھی اسے علم و ہنر کا گہوارہ کہا گیا۔ نالندہ اور تکچھیلا کو تاریخ کا ایک روشن باب تصور کیا جاتا ہے۔ آریہ بھٹ نے جہاں’زیرو‘ کا فارمولا دنیا کے سامنے پیش کیا، وہیں یہاں کے حکیموں اور ویدوں نے علاج و معالجہ میں لوہا منوایا۔ یہاں مختلف سنت و اولیا اور دانشوران پیدا ہوئے۔ بودھ دھرم کے بانی مہاتما بدھ اور جین مذہب کے بانی مہاویر یہیں جنم لیے۔ یہ ملک جہاں گرو نانک کا ہے، وہیں خواجہ اجمیری اور نظام الدین اولیا کا بھی۔ یہ دیس جہاں رام کا ہے، وہیں رحیم کا بھی۔ یہاں کبیر و رحیم کے دوہوں کی آواز سنائی دیتی ہے تو اقبال کی نظمیں بھی حب الوطنی کا راگ الاپتی ہیں۔ یہاں مختلف حکومتیں بنیں اور اجڑیں۔ مختلف قومیں آئیں اور آباد ہوئیں۔ مختلف تحریکیں چلیں اور ثمر آورد ہوئیں۔ جب برٹش حکومت کے خلاف یہاں کے لوگوں نے’بھارت چھوڑو‘کا نعرہ بلند کیا تو انگریز حکومت، جس کا سورج کبھی غروبِ نہیں ہوتا تھا، بھارت چھوڑنے پر مجبور ہو گئی۔ عوامی طاقت سیلاب کی مانند ہوتی ہے۔ عوامی تحریک کو روکنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ بھارت ایک جمہوری ملک ہے۔ یہاں عوام الناس کی رائے کی بڑی افادیت ہے۔
’بھارت جوڑو یاترا‘ایک عوام بیداری تحریک ہے جو کہ’انڈین نیشنل کانگریس‘کی طرف سے شروع کی گئی ہے۔ اس کی ابتدا کانگریس کے سابق صدر اور ممبرپارلیمنٹ راہل گاندھی نیز تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن کے ذریعے 7 ستمبر 2022 کو کنیا کماری سے آنجہانی راجیو گاندھی، سوامی ویویکانند اور تمل شاعر تریو لوور کو خراج عقیدت پیش کرنے کے بعد کی گئی ہے۔ اس تحریک کا مقصد بھارت کی موجودہ بر سر اقتدار حکومت’ بھارتیہ جنتا پارٹی‘ کی حکومتی پالیسیوں کے خلاف خصوصاً ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری، سیاسی منافرت، مذہبی تعصب، کسان و مزدور اور چھوٹی صنعتوں کی کسمپرسی وغیرہ کے خلاف عوام میں بیداری پیدا کرنا ہے۔ یہ تحریک ملک کی بارہ ریاستوں مثلاً تمل ناڈو، کیرالا، کرناٹک، آندھرا پردیش، تلنگانہ، مہاراشٹر، مدھیہ پردیش وغیرہ اور دو مرکز کے زیر انتظام علاقوں یعنی جموں و کشمیر کو احاطہ کرے گی۔ مکمل سفر پیدل مسافت پر طے ہے۔ اس پیدل مارچ میں راہل گاندھی اور ان کے ہمسفر ساتھی روزانہ صبح سویرے چھہ بجے سے تقریباً پچیس کیلو میٹر دن کو سفر کرتے ہیں اور رات کو اپنی عارضی رہائش گاہ میں آرام کرتے ہیں۔ دوران سفر راستے میں پبلک میٹنگ، پریس کانفرنس اور عوام سے خطاب کرتے ہیں۔
سفر کا منظر بہت دلچسپ، دلکش اور سہانا ہوتا ہے۔ بوڑھے، نوجوان، بچے و بچیاں اور خواتین کی بھیر امنڈ آتی ہے۔ سر کردہ سیاسی شخصیات، ادیب و شاعر، فنکار اور علاقائی لوگ شریک سفر ہوتے ہیں۔نعرے اور مدھم گیت کی آواز سنائی دیتی ہے۔ پرچم لہراتا ہوا نظر آتا ہے۔ دوران سفر راہل گاندھی لوگوں سے گفت و شنید کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ لوگ تیز قدم چلتے ہیں۔ سیکیورٹی دستے چاک و چوبند ہوتے ہیں۔ راہل گاندھی سیکورٹی گھیرے کے اندر ہوتے ہیں۔ یوٹیوب چینل لائیو ٹیلی کاسٹ کرتا رہتا ہے۔نیشنل میڈیا کی غیر موجودگی سوالیہ نشان ہے۔ ہاں سوشل میڈیا کا اچھا کووریج ہے۔ یاترا 30 جنوری 2023 کو سری نگر میں مہاتما گاندھی کی شہادت کو یاد کرتے ہوئے اختتام پذیر ہوگی۔
’بھارت جوڑو یاترا‘ہندوستان کی تاریخ میں ایک نئی تاریخ رقم کر رہی ہے۔ اتنی لمبی پیدل یاترا ان دنوں موضوع بحث ہے۔ کبھی راہل گاندھی اس یاترا کا مقصد’تپسیا‘ بتاتے ہیں اور اس ملک کو تپسیا کرنے والوں کا ملک۔ مزید برآں وہ کہتے ہیں کہ پہلے کا راہل ختم ہو چکا ہے۔ کبھی وہ بے روزگاری کی بات کرتے ہیں تو کبھی مہنگائی پر سوال کھڑا کرتے ہیں۔ کبھی وہ کسانوں کے مفاد کی وکالت کرتے ہیں تو کبھی چھوٹی صنعتوں کی آواز بلند کرتے ہیں۔ کبھی وہ سرکاری اداروں اور ایجنسیوں کا رونا روتے ہیں تو کبھی دستور ہند کو بچانے کے لیے متفکر نظر آتے ہیں۔ وہ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی پر بھی سوال پوچھتے ہیں- وہ یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ ملک کا سرمایہ معدود چند کے ہاتھوں میں چلا گیا ہے۔ وہ موجودہ مرکزی حکومت، بی جے پی اور آر ایس ایس کی پالیسیوں اور نظریات پر زور دار تنقید کرتے ہیں۔ دیگر اس طرح کے سینکڑوں سوالات ہیں جو کہ وہ بر سر اقتدار حکومت سے پریس کانفرنس میں پوچھتے ہیں۔
اب سوال ہے کہ اس یاترا کے کیا نتائج برآمد ہوں گے۔ کیا عوامی بیداری آئیگی؟ کیا یہ یاترا کانگریس میں نئی روح پھونکے گی؟ مستقبل قریب میں کئی ریاستوں میں انتخابات ہیں اور 2024 میں پارلیمنٹ کا انتخاب ہونا ہے، کیا اس کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ حالانکہ راہل گاندھی اس یاترا کو سیاسی یاترا نہیں تصور کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ وہ نفرت کے بازار میں پیار و محبت کی دوکان کھولنے نکلے ہیں۔ لوگوں کے دکھ درد سننے اور بانٹنے کے لیے نکلے ہیں۔ ذات پات اور مذہبی تفریق کو ختم کرنے کے لیے نکلے ہیں۔ وہ اس یاترا کے ذریعے ایسے بھارت کا سنہرا خواب دیکھ رہے ہیں جہاں اخوت و بھائی چارہ ہو، سب کو بولنے کی آزادی ہو، ہر ایک کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی اجازت ہو، کسی کو بھی اپنی زبان و تہذیب کو فروغ دینے میں رکاوٹ پیدا نہ ہو، نوجوان باروزگار ہو، کسان خوش حال ہو اور سرمایہ داروں پر قدغن لگے۔ کیا ان کا یہ خواب شرمندہ تعبیر بھی ہوگا؟
:[email protected] email: