عارف شجر
گجرات اسمبلی انتخابات کی تشہیری مہم پورے شباب پر ہے دو مرحلوں میں ہونے والے اس انتخابات پر ملک کے سبھی لوگوں کی نگاہیں ٹکی ہوئی ہیں اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ ملک کے وزیر اعظم اور وزیر داخلہ امت شاہ کا یہ آبائی وطن ہے اور بی جے پی یہاں مستقل 27 سالوں سے حکومت کرتی چلی آ رہی ہے یعنی یوں کہہ لیں کے پی ایم مودی اور امیت شاہ کے لئے گجرات وقار کا موضوع ہے۔ بی جے پی یہ کبھی بھی نہیں چاہے گی کہ گجرات اسکے ہاتھ سے نکل جائے کیوں کہ اس میں دو باتیں پوشیدہ ہیں ایک تو یہ کہ اگر بی جے پی کوگجرات میں شکست ہو جاتی ہے تو پی ایم مودی اور امت شاہ کی شاخ کمزور ہوگی اور دوبارہ بی جے پی کے لئے اقتدار میں آنا مشکل ہو جائے گا ۔ دوسری اہم بات یہ ہوگی کہ اس کا اثر مرکز پر پڑے گا یعنی 2024 میں ہونے والے عام انتخابات میں بی جے پی کو اقتدار میں آنے کے لئے کافی جدو جہد کرنی پڑے گی کیوں کہ پی ایم مودی کی شبیہ فی الحال جو بنی ہوئی ہے اس پر بھی اثر پڑے گا۔ اسی دوخاص بات کو دھیان میں رکھتے ہوئے بی جے پی کا پورا کنبہ گجرات میں منتقل ہوگیا ہے جس میں مرکزی وزراء سے لے کر مختلف ریاستوں کے سی ایم بھی بی جے پی کی تشہیری مہم میں پوری طاقت لگائے ہوئے ہیں۔ بی جے پی نے اپنی پوری طاقت اس لئے بھی جھونک رکھی ہے کہ گجرات میں عام آدمی پارٹی کی بھی انٹری ہو گئی ہے عام آدمی پارٹی نے جس طرح سے دہلی اور پنجاب ماڈل گجرات کے عوام کو دینے کی بات کہہ رہی ہے اس سے بی جے پی کچھ گھبرائی ہوئی ضرور لگتی ہے۔ کانگریس کی اگر بات کریں تو کانگریس بی جے پی کے مقابلے تشہری مہم میں کہیں بھی نظر نہیں آتی ہے لیکن اس بات میں بھی سچائی ہے کہ کانگریس کا دیہی حلقوں میں دبدبہ اب بھی برقرار ہے دیہی حلقوں کی سیٹیں کانگریس کے لئے ضرور سنجیونی کا کام کرے گی لیکن ایسا نہیں لگتا ہے کہ کانگریس اپنی قوت پر گجرات میں سرکار بنا پائے گی۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ کانگریس قائد راہل گاندھی کاگجرات میں دو تین بار عوامی اجلاس میں آجانے سے شہری حلقوں میں بی جے پی کو تھوڑی مشکل ہو سکتی تھی لیکن ایسا نہیں تھا کہ بی جے پی کا ووٹ کانگریس میں تبدیل ہو جاتا۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ بی جے پی کے ووٹ کو نقصان پہچانے کے لئے عام آدمی پارٹی گجرات میں انتخابات لڑ رہی ہے یہی سبب ہے کہ پی ایم مودی اور امت شاہ نے اپنی پوری سیاسی قوت لگا رکھی ہے۔
اس سچائی سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ گجرات اسمبلی انتخابات کے دوران کئی ایسی سیٹیں ہیں جنہیں کافی اہم سمجھا جا تا ہے۔ ان میں گودھرا اسمبلی سیٹ بھی ہے جو کہ انتخابی مرکز میں بحث کا موضوع بنا ہوا ہے۔ یہ سیٹ بی جے پی کے پاس ہے بی جے پی نے اس بار بھی رائول کو ٹکٹ دیا ہے گودھرا سیٹ کو فرقہ وارانہ طور پر حساس سمجھا جا تا ہے آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین (اے آئی ایم آئی)نے اس ا سمبلی سیٹ میں اپنی سیاسی بنیاد مضبوط کرنے کے لئے پوری طاقت جھونک رکھی ہے اسد الدین اویسی کی پارٹی کو 2021 کے بلدیاتی انتخابات میں کامیابی ملی تھی۔ بلدیاتی انتخابات کی کامیابی سے خوش اسدالدین اویسی کی پارٹی کو یہ امید ہے کہ انہیں اسمبلی الیکشن میں بھی مسلم ووٹروں کا پیار ملے گا اور حمایت حاصل ہوگی ساتھ ہی ووٹ دوسرے امیدواروں میں تقسیم ہونگے۔ اس سے انکی جیت کا راستہ صاف ہو جائے گا۔ اے آئی ایم آئی نے گزشتہ سال ہوئے گودھرا میونسپلٹی انتخابات میں سات سیٹیں حاصل کی تھیں اور بی جے پی کو بلدیاتی انتخابات سے دور رکھنے کے لئے آزاد امیدوار سے اتحاد کیا تھا اویسی کی پارٹی حمایت سے آزاد امیدوار سنجے سونی کو فروری2021 میں میونسپلٹی کے چیئرمین بنے لیکن گزشتہ سال نومبر میں بی جے پی کی حمایت ملنے کے بعد انہوں نے اے آئی ایم آئی ایم چھوڑ دی اس بار اے آئی ایم آئی ایم اپنی گرفت مضبوط کرنے اور گودھرا اسمبلی سیٹ جیتنے کی کوشش کر رہی ہے۔ گودھرا گجرات کی14 اسمبلی سیٹوں میں سے ایک ہے جہاں اس بار آئی ایم آئی ایم الیکشن لڑ رہی ہے۔ اویسی نے اپنے امیدوار حسن شبیر کچبہ کی حمایت میں یہاں ایک بڑے اجتماع سے خطاب بھی کیا تھا۔ وہیں کانگریس کی اگر بات کی جائے تو کانگریس نے اس سیٹ سے رشمیتا بین چوہان کو ٹکٹ دیا ہے عام آدمی پارٹی نے راجیش بھائی پٹیل کو اپنا امیدوار بنایا ہے۔ فی الحال یہاں کون سی پارٹی بازی مارے گی یہ تو8 دسمبر کو ہی پتہ چل پائے گا لیکن دعویٰ یہ جا رہا ہے کہ یہاں عام آدمی پارٹی کی انٹری سے سہ رخی مقابلہ ہو گیا ہے۔
تاہم موجودہ انتخابی مہم میں ملک کی سب سے بڑی اور پرانی پارٹی تصویر سے غائب دکھائی دے رہی ہے ۔ اروند کجریوال کی عام آدمی پارٹی اور بی جے پی کی انتخابی مہم کانگریس سے کہیں بڑھ چڑھ کر ہے ۔ جہاں ایک جانب بی جے پی اور عام آدمی پارٹی اس الیکشن میں زوردار مہم چلا رہی ہیں تو وہیں کانگریس اس دھڑلے سے ہٹ کر ووٹروں سے براہ راست رابطہ قائم کر رہی ہے ۔ گجرات کانگریس کے صدر امت چاوڑا نے بتا یا کہ بی جے پی نے گزشتہ 27 سالوں میں بہت زیادہ دولت جمع کی ہے ان کے مقابلے میں ہمارے پاس الیکشن لڑنے کے لئے اتنا بجٹ نہیں ہے ہم نے اشتہارات پر پیسہ ضائع نہیں کیا ہے۔ بلکہ بات چیت کرنے کے بجائے براہ راست ووٹرں کے ساتھ رابطہ قائم کر رہے ہیں۔ در حقیقت اس الیکشن میں کانگریس نے بوتھ سطح کے مینجمنٹ سے لے کر گھر گھر مہم تک بنیادی باتوں پر قائم رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ زمین پر پارٹی کا پیغام دو مہموں کے ارد گرد مرکوز ہے ۔ جس میں کانگریس 9 کام بولے چھے، اور کانگریس کے 8 وچن شامل ہیں۔ گجرات میں کانگریس کے میڈیا کو آرڈینیٹر ہیمانگ راقول کہتے ہیں کہ ہم گجرات میں تقریباً27 سال سے حکومت سے باہر ہیں اس لئے ضروری ہو گیا ہے کہ ہم نوجوانوں اور نئے ووٹروں کو گذشتہ کانگریس حکومتوں کے بارے میں بتائیں۔ جبکہ کانگریس کی دوسری مہم راہل گاندھی کی طرف سے ریاست کے ووٹروں سے کئے گئے وعدوں کی فہرست ہے۔ ان میں گیس سلنڈر کی قیمت میں کمی،300 یونٹ تک مفت بجلی،10 لاکھ روپئے تک مفت صحت بیمہ، کسانوں کے قرضوں کی معافی،3000 انگلش میڈیم گورنمنٹ اسکول، دودھ کی مصنوعات پر سبسیڈی، سرکاری ملازمتیں اور بے روزگاری کے شکار نوجوانوں کے لئے 30000 ہزار شامل ہیں۔ الائونس میں روپے کی ادائیگی بھی شامل ہے۔
بہر حال! جہاں تک بی جے پی کا تعلق ہے تو یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ اور پرہیز نہیں کہ اگر بی جے پی دوبارہ اقتدار میں آتی ہے تو اسے اس کی نئی کامیابی نہیں کہی جا سکتی کیونکہ جو کچھ پہلے ہی حاصل کیا جا چکا ہے وہ کوئی کارنامہ نہیں ہے اس کے برعکس اگر کانگریس اور عام آدمی پارٹی اپنی طاقت بڑھانے میں کامیاب ہو جاتی ہیں تو فطری طور پر بی جے پی کمزور ہوگی اور 2024 کی جیت بی جے پی کے لئے مشکل کر دے گی۔ یہی سوچنے پر بی جے پی کو مجبور کر رہی ہے اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ کانگریس اور عام آدمی پارٹی کے پاس کھونے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔
[email protected]