عبدالغفار صدیقی
علامہ اقبال ؒ نے فرمایاتھا:
صورت شمشیر ہے دست قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا احتساب
اس کا مطلب ہے کہ جو قومیں اپنے اعمال کا جائزہ لیتی ہیں ،جو اپنی ناکامیوں کے اسباب تلاش کرتی ہیں ،جو اپنی صفوں میں راہ زنوں کو داخل نہیں ہونے دیتیں ۔وہ قومیں ہمیشہ غالب رہتی ہیں ۔اس کے برعکس جو قومیں اپنی ناکامیوں کے لیے دوسروں کو ذمہ دار ٹھہرا کر سکون و اطمینان کا سانس لیتی ہیں۔جو خود احتسابی کے بجائے خدا احتسابی پر اتر آتی ہیں ۔یعنی اپنے بجائے خدا کا احتساب کرنے لگتی ہیں ،جو اپنی مجالس کو قصیدہ گوئی کی مجلس بنالیتی ہیں ،جن کے یہاں تنقید کرنا جرم ہوجاتا ہے۔ وہ قومیں اسی طرح غلامی کے غار میں دھکیلی جاتی ہیں جس طرح آج کل بھارت کے مسلمان ذلت و پستی اور غلامی کی سمت ہنکائے جارہے ہیں ۔کسی حضرت کی کوتاہی پر توجہ دلادیجیے تو وہ ناک بھوں چڑھانے لگتے ہیں ،کسی کے فیس بک پر منفی رد عمل کا اظہار کردیجیے تو وہ ان فرینڈ کردیتا ہے ،کسی کے واٹس اپ پر خلاف توقع پیغام رسانی کیجیے تو بلاک کردیا جاتا ہے ۔دہلی کے ایک قومی خدمت گار جو خود کو ذہانتوں کا امیر سمجھتے ہیں ،ایک بار انھیں بہت زیادہ تاخیر سے آنے پر توجہ دلائی گئی ،تو بولے :’’ غفار بھائی مجھے آپ اس طرح کا میسیج نہ کیا کریں ،میں اسے پسند نہیں کرتا ۔‘‘اب آپ خود ہی سوچیے کہ جب قائدین کا یہ حال ہوجائے ،جب ہر طرف داد و تحسین کی بزم سجائی جانے لگے ،جب مناصب ملنے پر استقامت کی تلقین کے بجائے مبارکبادیوں کا سلسلہ درازہو،جب خود کے استقبال کے لیے شال اور پھول خرید کر دیے جانے لگے ہوں ،جب اپنی تعریف سننے کے لیے محفلیں آراستہ کی جانے لگی ہوں تو پھر آپ قوت و اقتدار اور قوم کی ترقی و خوش حالی کی امید کیوں کر کرسکتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ملت میں لاکھوں قائدین ہونے کے باوجود ہم منتشر ہیں ،ہزاروں فلاحی و سماجی اداروں کے ہوتے ہوئے بے یارو مدد گار ہیں ۔ہر محلہ میں مدرسہ و اسکول کے بعد بھی شرح خواندگی گرتی جارہی ہے ،صاحب مسند افراد کے ذاتی اداروں کی عمارتیں بلندہوتی جارہی ہیں ،لیکن قومی مسند جس پر بیٹھ کر ان کا قد اونچا ہوا ہے، اس کی عمارت کی ایک ایک اینٹ گررہی ہے ۔قومی ادارے کاہر پل ایک قدم پیچھے کی جانب اٹھ رہا ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے اجتماعی اداروں میں احتساب ،تنقید،توجہ دہانی کو معیوب خیال کیا جانے لگا ہے ۔ہم نے اپنے اطراف ایسے لوگوں کو جمع کرلیا ہے جو ہم سے سوال کرنے کو گناہ سمجھتے ہیں ،جو ہمارے سامنے اونچی آواز میں نہیں بول سکتے ،جو ہمارے پیچھے چلتے ہیں ،جو ہماری تعریف میں زمین و آسمان ایک کیے رہتے ہیں ۔اسی لیے اکثر دیکھا گیا ہے کہ کوئی شخص جب کسی ادارے کو چھوڑ دیتا ہے تو اس ادارے اور اس کے ذمہ داروں کے تعلق سے محیر العقول انکشافات کرتا ہے ۔سوال ہوتا ہے کہ آپ اس وقت کیوں خاموش تھے جب اس ادارے کے اندر تھے ۔؟جس کا جواب اس کے سوا کیا ہے کہ دراصل ادارے میں رہتے ہوئے زبان کھولنا اپنی نوکری سے ہاتھ دھونا تھا ،کیوں کہ یہ انکشافات اکثر ملازمین کی جانب سے ہوتے ہیں ،رہے ادارے کے وہ اراکین جو اعزازی طور پر اس کے ممبر یا مشیر ہوتے ہیں تو انھیں حضرت جی ،صدرصاحب اورامیر صاحب کی مخالفت کرنے کی کوئی وجہ سمجھ میںنہیں آتی ،وہ سوچتے ہیں ’’ تو کیوں چکر میں پڑ رہا ہے ،ہونے دے جو ہورہا ہے ۔‘‘ ان کے لیے یہی اعزاز کی بات ہے کہ کسی انجمن کا ممبر بنالیا گیا ہے ۔ کسی پروگرام میں مدعو کیا گیا ہے ۔ان کو خوش رکھنے کے لیے ایک پلیٹ بریانی کافی ہے ۔
گزشتہ دنوں ملک کے ایک باوقار ادارے کا انتخابی اجلاس عمل میں آیا۔ ماشاء اللہ زعماء ملت ،اور قائدین قوم نے جس ڈسپلن ،جس ایثار اورجس یکجہتی و اتحاد کا مظاہرہ کیا وہ قابل دیدتھا ،یہ منظر تو خلافت راشدہ میں بھی نہیں تھا ،وہاں بھی وصال رسولؐ کے بعد چہ مے گوئیاں شروع ہوگئی تھیں،شہادت عثمان ؓکے بعد حضرت علی ؓ کوجس طرح خلافت سونپی گئی تھی،اس سے کون واقف نہیں ہے۔اختلاف رائے انسانی فطرت ہے ،کسی اجتماعی ادارے میں اظہار رائے پر پابندی خلاف شریعت ہے۔پھر جس قوم میں محلہ کی مسجد کی تولیت ،مدرسہ کمیٹی کی صدارت ،کسی ٹرسٹ یا انجمن کی امارت اوروارڈ ممبری کو حاصل کرنے کے لیے زور آزمائی کی جاتی ہو ،اس قوم کے سب سے بڑے ادارے کا انتخاب چٹکیوں میں ہوگیا ہے ۔اس پر جس قدر اراکین بورڈ اور ذمہ داران بورڈ کی تحسین کی جائے کم ہے ۔حالانکہ اس ادارے میں بعض جماعتیں وہ بھی ہیں جن کے یہاں جماعت کی صدارت پر اس قدر اختلاف ہوا۔ تعجب ہے کہ کسی بھی نام پر اہل مجلس نے اختلاف نہیں کیا ۔کیا یہ واقعی اسلامی روح تھی،کیا یہ فی الحقیقت ادارے اور قوم کی خیر خواہی کا مظاہرہ تھا یاکچھ اور تھا۔
من ترا حاجی بگویم تو مرا حاجی بگو کا کھیل ہر جگہ کھیلا جارہا ہے ۔اخبارات اٹھا کر دیکھ لیجیے یا تو قوم اپنے زندہ رہنمائوں کی گل پوشی کرتی ہوئی نظر آئے گی یا اپنے مردوں پر گلہائے عقیدت نچھاورکرتی ہوئی۔کسی بھی پروگرام میں چلے جائیے ۔کئی گھنٹے استقبال میں گزرجاتے ہیں ۔ہر مشاعرے میں ناظم مشاعرہ ہر شاعر کو میر وغالب کے برابر میں لاکر کھڑا کردیتا ہے ۔اپنی مجلسوں میں ایک دوسرے کی تعریف کرکے دل کو بہلایا جارہا ہے ،اس لیے کہ ہمارے کام اس معیار کے نہیں ہیں کہ اغیار ہمارا شکریہ بھی ادا کریں ۔
مرے عزیزو! یہ وقت خود احتسابی کا ہے ۔ہر کسی کو اپنے گزرے کل کا جائزہ لے کر آج کی منصوبہ بندی کرنا چاہئے تاکہ اس کا آنے والا کل اچھا ہو۔انسانوں سے نہیں اللہ سے ڈرنے کی ضرورت ہے ۔اگر آپ کسی اجتماعی ادارے کے ممبر ہیں تو وہاں حق گوئی کا مظاہرہ کیجیے ۔اپنے ذمہ داروں کی گرفت اسی طرح کیجیے جس طرح ایک شخص نے حضرت عمر ؓ کی دو چادروں کے متعلق کی تھی۔ جس طرح ایک عورت نے مہر کی تعین پر حضرت عمر ؓ کو ٹوکا تھا آپ بھی ٹوکیے۔یہی آپ کے لیے ،صاحب منصب کے لیے اور قوم کے مستقبل کے لیے صحت مند رویہ ہے۔ورنہ وہ دن دور نہیں جب ہم سب جمع ہوں گے اور سب پکڑے جائیں گے ۔خلفائے راشدین ہر وقت خود کو حساب کے لیے پیش کرتے تھے ،حضرت ابو بکر ؓ نے بیت المال سے لیا گیا کفاف بھی ترکہ سے ادا کرنے کا حکم دے دیا تھا ۔کیا ہم رسول اکرم ﷺ کا یہ ارشاد بھول گئے جس میں آپ ؐ نے فرمایا تھا :’’سب سے بہترین جہاد ظالم بادشاہ کے سامنے کلمہ حق کا اظہار کرنا ہے ۔‘‘(ترمذی)کیا ہمارے ذمہ داران ظالم بادشاہ سے بھی بڑے ظالم ہیں کہ ان کے دربار میں ہم گونگے بہرے بنے رہتے ہیں۔ذمہ داران ادارہ سے بھی گزارش ہے کہ آپ کا تقدس اپنی جگہ ،آپ کا تقویٰ اپنے مقام پر ،لیکن آپ کو اللہ نے جس منصب پر فائز کیا ہے اسے کانٹوں کا تاج سمجھ کر قبول کیجیے ،اپنی شخصیت میں مداہنت کا عنصر اس مقدار میں مت شامل کیجیے کہ وہ منافقت کی حدود میں داخل ہوجائے ۔ملت کے وسائل کو اپنی ذات پر بے دریغ استعمال کرتے ہوئے خوف کھائیے ،اپنی تعریف کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کیجیے ،تنقید کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کیجیے ،جو لوگ ہماری کمزوریوں سے ہمیں آگاہ کرتے ہیں وہی ہمارے دوست ہیں۔ہر آن اپنا جائزہ لیجیے ۔جس دن ہم خود احتسابی اور اپنی جماعتوں کے ذمہ داران ،تنظیموں کے رہنمائوں اور لیڈروں کا احتساب شروع کردیں گے ،یقین جانئے اسی دن سے پستی کی جانب اٹھنے والے قدم رک جائیں گے اور ہم بلندی کی سمت چلنے لگیں گے۔
کیوں ہر طرف تو خوار ہوا احتساب کر
ناراض کیوں ہے تجھ سے خدا احتساب کر
٭٭٭