امام علی مقصود فلاحی
متعلم: جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن۔
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد۔
آج کل ہمارے ملک ہندوستان میں نہ جانے کتنے آلام و مصائب کے دروازے کھول دئیے گئے ہیں، ہر شخص ہر جگہ پریشان ہے، کوئی کھانے پینے کو ترس رہا ہے تو کوئی غریبی کی چنگل میں پھنسا ہوا ہے، کیونکہ ملک کی حالت ہی ایسی ہو چکی ہے کہ ہر شخص حیران و ششدر نظر آرہا ہے، ملک کی اکانومی بربادی ہو رہی ہے، امیر تو امیر تر ہو رہا ہے اور غریب غربت کا بچھونا اوڑھ رہا ہے، مہنگائی آسمانوں کو چھو رہی ہے، اور لوگوں کی نوکریاں بد حال ہو رہی ہیں۔
لیکن آج وہ جمہوری ملک کا چوتھا ستون جسے ہم اور آپ میڈیا کا نام دیتے ہیں، جسکا کام یہ تھا کہ وہ غیرجانبدار ہو کر لوگوں کی آواز اٹھائے، قطع نظر ہندو مسلم کے اپنا فریضہ نبھائے، غریبوں کی غربت اور آسمان کو چھوتی ہوئی مہنگائی کی بات کرے، مظلوموں کی رہائی اور ظالموں کے ظلم پر سوال کرے، لیکن افسوس صد افسوس آج یہ میڈیا اپنے ملک کی حالت کو چھوڑ کر دن و رات افغانستان اور طالبان کی بات کر رہا ہے، جب بھی ٹی وی چالو کرو افغانستان کی بات ہوتی ہوئی نظر آتی ہے، طالبان کی بات کہی جاتی ہے، اور انہیں دہشت گرد بتا کر ہندو مسلم کے درمیان مزید نفرت پھیلائی جارہی ہے، جسکا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ ہر داڑھی ٹوپی والوں کو دہشت گرد کے شبہے سے دیکھا جارہا ہے، ٹوپی کرتا والوں کو طالبان سے جوڑا جا رہا ہے، اور ہندو مسلم نوجوانوں میں ایک جوش پیدا ہو رہا ہے، وہ یہ کہ ہم امن و سلامتی والے ہیں داڑھی ٹوپی والے دہشت گرد ہیں۔
قارئین! تو آئیے ذرادیکھتے ہیں کہ کیا واقعی طالبان دہشت گرد ہیں؟ کیا واقعی کٹر مسلمان دہشت گرد ہیں؟
دہشت گردی یا دہشت گرد کے الفاظ کو پہلی مرتبہ مارچ 1773ء سے جولائی 1794ء تک فرانسیسی حکومت کے برپا کیے ہوئے عہد ِدہشت کے لیے استعمال کیا گیا۔ حکومت مخالف سرگرمیوں کے اظہار کے لیے دہشت گرد کا لفظ 1866ء میں آئر لینڈ اور1883ء میں روس کے حوالے سے تحریری شکل میں آیا۔ لیکن دہشت گردی کی اصطلاح کی کوئی عالمی طور پر متفقہ تعریف نہیں ہے مگر اس میں بار بار دہرائے جانے والے چند موضوعات ہیں، جن میں مندرجہ ذیل شامل ہیں:
وہ تشدد جو سیاسی یا سماجی مقصد کے تحت ہو ،اور لوگوں کو خوف زدہ کرنے کی کوشش ہو اسے دہشت گردی کہتے ہیں ۔ دہشت گردی سیدھے سادھے تشدد سے بڑھ کر ہے، جس میں صرف دو فریقین کی ضرورت ہوتی ہے، ایک جارحیت کرنے والا اور دوسرا اس کا شکار (Victim)۔
دہشت گردی کے لیے ایک تیسرے فریق کی بھی ضرورت پڑتی ہے ، جو ان تمام واقعات سے مرعوب یا خوف زدہ ہو جائیں جو جارحیت کے شکار کے ساتھ پیش آرہے ہیں۔
اب مذکورہ بالا فقرے کو مد نظر رکھتے ہوئے ذرا طالبان کا جائزہ لیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں؟ کیا طالبان سیاسی و سماجی مقصد کے تحت لوگوں پر تشدد کر رہے ہیں؟ کیا وہ لوگوں کو خوف زدہ کر رہے ہیں، کیا وہ لوگوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں؟
نہیں ہر گز نہیں، بلکہ وہ اپنے ملک کو آزاد کرا رہے ہیں، وہ ملک جس پر کبھی امریکہ حکومت کرتا رہا، کبھی روس حکومت کرتا رہا۔ افغانستان میں لڑی جانے والی سوویت یا روسی لڑائی 9 سال تک لڑی گئی۔ اس کا آغاز دسمبر 1979ء میں ہوا جبکہ اس کا اختتام فروری 1989ء میں ہوا۔ اس لڑائی میں ایک طرف تو افغان فوج کے نام پر روسی فوج لڑ رہی تھی تو دوسری طرف ساری دنیا کے مجاہدین روس کے خلاف بر سر پیکار تھے۔
کبھی وہاں کے بچوں پر ظلم ہوتا رہا، کبھی انکی عورتوں کو شکار بنایا جاتا رہا، غرض یہ کہ افغانستان میں برسوں سے غیروں کی حکومت رہی۔
اسی کو آزاد کرانے کے لئے اور اپنے قبضے میں لینے کے لئے، وہاں کی عورتوں کی حفاظت کرنے کے لئے، انکی لڑکیوں کی حفاظت کرنے کے لئے، وہاں کے تہذیب کو اجاگر کرنے کے لئے، اور سسٹم سے ملک کو چلانے کے لئے ایک اسلامی حکومت کا قیام چاہتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ افغان طالبان نے ماسکو میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم دہشت گرد نہیں آزادی پسند ہیں ہم اپنے ملک کی آزادی کے لیے لڑرہے ہیں،افغان فورسز کی بڑی تعداد ہمارے ساتھ مل رہی ہے ،چین کی سرحدی علاقے کے لوگوں نے خوش آمدید کہا،افغانستان کے 245 پر کنٹرول حاصل کرلیا ہے،افغانستان میں کئی دارالحکومتوں کا محاصرہ جاری ہے،ہمارا مقصد افغانستان کو غیرملکی تسلط سے آزاد کرانا ہے۔
طالبان نے کہا تھا کہ ہم افغانستان میں پرامن تصفیہ چاہتے ہیں، ہم انسانی حقوق کی پاسداری کریں گے، اسلامی اور افغان روایات کی پاسداری کرنے والی خواتین کے حقوق کا تحفظ کریں گے۔
نیوز اٹین کے مطابق طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا تھا وہ کوئی اندرونی یا بیرونی دشمنی نہیں چاہتے ، وہ معیشت کی ترقی اور خوشحالی کے حصول کے لیے ہر ایک کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ افغانستان میں ایک مضبوط اسلامی حکومت قائم کی جائے گی ۔ ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ افغان سرزمین دہشت گردی کےلیے استعمال نہیں ہونے دیں گے، سبھی غیرملکی اداروں کو تحفظ فراہم کریں گے۔ ہم یقین دلاتے ہیں طالبان افغانستان میں پُرامن رہیں گے۔ خواتین کو تمام حقوق حاصل ہوں گے۔
وہیں طالبان نے یہ بھی واضح کیا کہ طالبان افغانستان میں خواتین کو اسلامی قانون کی بنیاد پر کام کرنے اور تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دیں گے ، اور انہیں اسلامی اصولوں کے تحت تمام حقوق فراہم کیے جائیں گے ، کیونکہ خواتین معاشرے کا اہم حصہ ہیں۔ انشاء اللہ شرعی قانون کے مطابق ، ہم خواتین کو کام بھی کرنے دیں گے۔ اب آپ ہی فیصلہ کریں کہ اگر کوئی شخص اپنے کی حفاظت کے لئے جد وجہد کرتا ہو، ملک میں امن و سلامتی قائم کرنا چاہتا ہو، خواتین کی حفاظت اور ملکی معیشت کو پروان کرنا چاہتا ہو اور ملک میں امن و امان قائم کرنے کی جد وجہد کرتا ہو تو کیا وہ شخص دہشت گرد ہے؟
یاد رکھیں وہ طالبان جو اپنے ملک کی آزادی کی خاطر جہد مسلسل کر رہے ہیں، وہ مسلمان ہیں، انکا تعلق اسلام سے ہے، اور اسلام امن و سلامتی کا درس دیتا ہے، دہشت گردی کا نہیں۔
تشدد اور اسلام میں آگ اور پانی جیسا بیر ہے، جہاں تشدد ہو وہاں اسلام کا تصور نہیں کیا جاسکتا ہے، اسی طرح جہاں اسلام ہو وہاں تشدد کی ہلکی پرچھائیں بھی نہیں پڑسکتی۔ اسلام امن وسلامتی کا سر چشمہ اور انسانوں کے مابین محبت اور خیر سگالی کو فروغ دینے والا مذہب ہے، جس کی بابت اللہ رب العزت خود فرماتا ہے: ’’اے مومنو! امن و سلامتی میں پورے پورے داخل ہوجاؤ اور شیطان کے قدموں کی تابعداری نہ کرو۔‘‘ (البقرۃ:۲۰۸)۔
اسی طرح دوسرے مقام پر کچھ یو ں حکم دیتا ہے: ’’اور زمین میں اس کی درستگی کے بعد فساد مت پھیلاؤ۔‘‘ (الاعراف :۵۶)۔