محمد حنیف خان
فلسطینیوں کی زندگی کی کیا اہمیت ہے؟یہ ایک ایسا سوال ہے جو نیا نہیں ہے لیکن فلسطین اور اسرائیل کے مابین جنگ کے سو دن گزر نے کے بعد اس سوال نے مزید شدت اختیار کرلی ہے۔یہ سوال اس لیے بھی ضروری ہے کہ ہر طرف ان مغویہ افراد سے متعلق گفتگو ہوتی ہے جنہیں حماس نے 7اکتوبر 2023کو اغوا کیا تھا، جب اس جنگ کے سو دن مکمل ہوئے تو امریکی صدر جو بائیڈن نے ایک پریس کانفرنس کی جس میں اسرائیلی مغویہ افراد سے نہ صرف اظہار ہمدردی کیا بلکہ ان کے اہل خانہ سے اپنے دکھ درد کا اظہار کیا، حماس کے اس عمل کو انہوں نے بربریت سے تعبیر کرتے ہوئے غیر انسانی قرار دیا لیکن انہوں نے اسرائیل کے حملوں میں 25ہزار سے زائد مارے گئے افراد کا کوئی ذکر نہیں کیا،جن میں بوڑھے،بچے،معذور اور خواتین بھی شامل ہیں۔
امریکی صدر کی گفتگو اس بات کا اظہار یہ ہے کہ فلسطینیوں کی زندگی کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے،اگر ان کی نظر میں ذرا بھی اہمیت ہوتی تو کم از کم وہ فلسطینیوں کی اموات پر بھی اپنے دکھ درد کا اظہار کرتے مگر ایسا نہیں ہوا۔یہ معاملہ امریکی صدر جو بائیڈن تک محدود نہیں ہے بلکہ دانشوروں اور عام افراد کی اس طرح سے ذہن سازی کی گئی ہے کہ وہ بھی اسرائیلیوں سے ہی اظہار ہمدردی کر رہے ہیں اور فلسطینیوں کو بطور ظالم پیش کر رہے ہیں۔نیو یارک ٹائمس میں بریٹ اسٹیفنس(Bret Stephens)کا ایک مضمون The Meaning of Gaza’s Tunnelsشائع ہوا ہے،جس میں مضمون نگار نے فلسطینیوں اور خاص طور پر حماس کو نشانہ بنایا ہے۔اس مضمون میں اسرائیل کو اس طرح پیش کیا گیا ہے گویا اس نے فلسطین پر رحم و کرم کی بارش کی ہے جس کا غلط فائدہ اٹھا کر حماس نے زیر زمین سرنگیں اسرائیل پر حملے کے لیے بنائی ہیں۔اسرائیلی فوج کے حوالے سے ان سرنگوں کی تعداد بتائی گئی ہے جس میں ’نیو یارک ٹائمس‘ اور ’وال اسٹریٹ جنرل‘ کا حوالہ دیا گیا ہے کہ ان اخبارات میں شائع رپورٹ کے مطابق غزہ میں 350سے 450سرنگیں ملی ہیں جن کی طوالت لندن کی سرنگوں سے زیادہ ہے جو صرف 245میل کی ہیں۔بعض سرنگیں ایسی بھی ہیں جن میں کار تک جا سکتی ہیں۔مضمون نگار نے فلسطینیوں کو ایسے افراد کے طور پر پیش کیا ہے جو امدادی سامان کا غلط استعمال صرف اس لیے کررہے ہیں تاکہ وہ اسرائیل کو نشانہ بنا سکیں اور اسرائیل اس کے باوجود فلسطین کے ساتھ رحم و کرم کا معاملہ کر رہا ہے۔
جتنی بھی باتیں کی گئی ہیں، وہ اسرائیلی فوج کے حوالے سے ہیں، جس کی مہارت اور سچائی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ تین ماہ کا عرصہ گزر چکاہے لیکن ابھی تک وہ یہ پتا نہیں لگا سکی ہے کہ اس کے مغویہ افراد کہاں رکھے گئے ہیں۔الشفا اسپتال پر جب اس نے بمباری کی تھی تو بہت سے دعوے کیے تھے اور بتایا کہ اس نے سرنگیں تلاش کرلی ہیں اور یہ اسپتال حماس کا ہیڈ کوارٹر تھا مگر امریکی اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ نے اس خبر کا تجزیہ کرکے اسرائیلی فوج کے دعوؤں کے غبارے کی ہوا نکال دی تھی۔
فلسطینی بھی انسان ہیں،اگر اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق ہے، اسی لیے اس نے اپنی افواج کا نام اسرائیل ڈیفنس فورس رکھا ہے تو فلسطینیوں کو بھی اپنی زندگی جینے کا حق ہے۔ 1948سے قبل جس اسرائیل کا نام و نشان تک نہیں تھا، وہاں کا صدر ببانگ دہل اعلان کرتا ہے کہ وہ فلسطین نام کی ریاست کے وجود کو قبول نہیں کرسکتا ہے۔ امریکہ جو جمہوریت کا ٹھیکہ دار اور انسانی اقدار کی عظمت کا علمبردار ہے، وہ کہہ رہا ہے کہ اسرائیل اور فلسطین کے مابین کشمکش کے خاتمہ کا واحد حل دو ریاستی حل ہے مگر اسرائیلی وزیراعظم جنگی کابینہ کی میٹنگ میں کہتا ہے کہ میں واحد شخص ہوں جو امریکی صدر کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر نہ صرف بات کر سکتا ہوں بلکہ ان کو نفی میں جواب دینے کی بھی ہمت رکھتا ہوں۔
یہ وہ باتیں ہیں جو پوری دنیا کے سامنے ہیں، اس کے باوجود فلسطینی ظالم اور اسرائیلی مظلوم ہیں،یہ در اصل مغربی ذرائع ابلاغ اور اشرافیہ کی دین ہے۔اون جونس (Owen Jones)کا ایک مضمون برطانوی اخبار ’دی گارجین‘ میں شائع ہوا ہے جس کا عنوان The west’s complete contempt for the lives of Palestinians will not be forgotten ہے۔
اون جونس نے اپنے مضمون میں بڑی چشم کشا اور حقائق پر مبنی باتیں کی ہیں۔وہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان کشمکش کی بنیادوں کو اس مضمون میں تلاش کرتے ہیں اور پھران وجوہ و اسباب پر روشنی ڈالتے ہیں جس کی وجہ سے دنیا کی نظروں میں فلسطینی زندگیاں بے وقعت ہوئی ہیں۔وہ صاف طور پر لکھتے ہیں کہ ہماری سیاسی اشرافیہ اور مغربی میڈیا اس کے لیے ذمہ دار ہے جس نے اپنی اخلاقیات کو بالائے طاق رکھ دیا ہے۔اون جونس لکھتے ہیں:
if the world powerful nations had not so brazenly shrugged off three quarters of million palestinians being driven from there homes 76 years ago,accompanied by an estimated 1500 suffering violent deaths,the seed of todays bitter harvest would not have been planted.
کتنی سچی بات ہے کہ اگر 76برس قبل طاقتور قوموں نے اتنی ڈھٹائی کے ساتھ فلسطینیوں کو اپنے گھروں سے نکلنے پر مجبور نہ کیا ہوتا اور پندرہ ہزار پرتشدد اموات نہ ہوئی ہوتیں تو آج درد و کرب کا یہ بیج برگ و بار نہ لاتا۔لیکن تعجب کی بات ہے کہ اس جانب مغربی اقوام تو چھوڑیے عرب ممالک بھی توجہ نہیں دیتے ہیں۔اون جونس نے ہی 7اکتوبر سے قبل کے واقعات کی جانب دنیا کی توجہ دلائی ہے جس جانب کسی نے توجہ نہیں دی اورہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ حماس نے اس جنگ کا آغاز کیا ہے۔مضمون کے یہ جملے بھی دیکھئے:
How many know that last year ,before the indefensible atrocities committed by Hamas on 7 October ,234 Palestinians had been killed by Israeli forces in the West Bank alan,more then three dozen of them children?Life is Cheap.the say.it is apparently meaningless if you are Palestinians.
کتنے لوگ ہیں جو یہ جانتے ہیں کہ 7اکتوبر کے واقعے سے قبل 234فلسطینیوں کو ویسٹ بینک میںاسرائیلی فوج نے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا،جن میں تین درجن سے زائد بچے تھے۔وہ کہتے ہیں زندگی سستی ہے،اگر آپ فلسطینی ہیں۔
یہ ایک ایسا مضمون ہے جو حقائق پر مبنی ہے اور بہت سے سوالات جنم دیتا ہے۔دنیا کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ وہ کیا کر رہی ہے۔اس مضمون میں انسانیت کا درد ہے،زندگی سے محبت ہے۔یہ حقیقت ہے کہ دنیا کی نظروں میں فلسطینیوں کی زندگی کی کوئی اہمیت نہیں ہے،ورنہ 25ہزار افراد کی موت پر ضرور بات ہوتی،دنیا کی نظروں میں ان اموات سے کہیں زیادہ اہمیت ان مغویہ اسرائیلیوں کی ہے جو خود اس کی فوج کے ہاتھوں مارے جا رہے ہیں۔حماس کے ترجمان ابوعبیدہ نے اس بات کا بھی اعلان کیا ہے کہ بہت سے مغویہ افراد اسرائیلی فوج کی بمباری میں جاں بحق ہوچکے ہیں۔ایسا نہیں ہے کہ اموات صرف فلسطینیوں کی ہور ہی ہے،اسرائیلی فوج کے لوگ بھی مر رہے ہیں۔ابھی دو دن قبل اس وقت اسرائیل کے 21فوجی جاں بحق ہوگئے جب وہ ایک عمارت کو مہندم کرنے کی تیاری کر رہے تھے، جس کے بعد اسرائیل نے حماس کو مغویہ افراد کی رہائی کے عوض دو ماہ کی جنگ بندی کی پیشکش کی مگر حماس نے اسے یہ کہتے ہوئے ٹھکرا دیا کہ ایسی جنگ بندی کے کوئی معنی نہیں ہیں۔حماس آزاد فلسطین چاہتا ہے جو اس کا حق بھی ہے مگر اسرائیل اس کے لیے تیار نہیں ہے۔دنیا کو آزاد فلسطینی ریاست کی تشکیل اور جنگ کے خاتمے کے لیے سامنے آنا چاہیے، اگر وہ ایسا نہیں کرتی ہے تو لوگ یونہی مرتے رہیں گے اور زندگیاں ضائع ہوتی رہیں گی۔حق آزادی کا نعرہ یوں ہی بے وقعت ہوتا رہے گا اور ہونے والی اموات اشرافیہ کے منھ پر طمانچے لگاتی رہیں گی۔
[email protected]