عمیر انس
ایک معیاری تعلیمی ادارے کا داخلہ کا شاندار اشتہار دیکھنے میں آیا جس میںانہوں نے معیاری تعلیم کا وعدہ کیا تھا۔اشتہار کے درمیان چھوٹا سا باکس بنا تھا جس میں اعلان کیا گیا تھا کہ انہیں اچھے اساتذہ کی ضرورت ہے۔گویا کہ ادارے نے اس بات کا اعتراف بھی کیا کہ اس کے پاس اچھے اساتذہ کی ضرورت باقی ہے۔یہاں اچھے اساتذہ کی کمی صرف اسکولی تعلیم کے لیے زیر بحث ہے،یونیورسٹی کے لیے نہیں۔اچھے اساتذہ کا مطلب یہ ہے کہ سبھی پرائیویٹ اورسرکاری اسکولز میں بہترین صلاحیتوں کے حامل اساتذہ ہوں جن کی تعلیم کے اثر سے ان اسکولوں کے طلبا مقابلہ کی دنیا میں داخل ہونے کا حوصلہ کریں اور کامیاب بھی ہوں۔ اچھے اساتذہ کا راست اندازہ ان کے اداروں کی تعلیمی پرفارمنس سے کیا جا سکتا ہے۔آپ اپنے علاقے کے کسی بھی سرکاری اور پرائیویٹ اسکول میں جائیں اور ان سے صرف ایک سوال کریں کہ گزشتہ پانچ دس سالوں میں ان کے ادارے سے تعلیم حاصل کرنے والے طلبا میں سے کتنے طلبا کہاں کہاں گئے ہیں، میڈیکل، انجینئرنگ، سوشل سائنسز، پولیٹیکنک وغیرہ۔ یہ کوئی مشکل سروے نہیں ہے۔ کوئی بھی کامیاب اسکول اپنے کامیاب طلبا کے نام پر فخر کے ساتھ اپنا اشتہار دیتا ہے۔گزشتہ کئی ہفتوں میں میں نے بہت سارے مسلم انتظامیہ والے اسکولوں سے اسی ایک سوال پر معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی،جواب آپ کو بھی معلوم ہے۔میرے مشاہدات حسب ذیل ہیں۔
بیشتر پرائیویٹ اسکولز اساتذہ کے معاشی حالات بڑے ابتر ہیں۔کچھ ان اسکولوں کی معاشی تنگی اور کچھ ان کی فکری پسماندگی کی وجہ سے بیشتر پرائیویٹ اسکول اپنے اساتذہ کو اچھی تنخواہیں نہیں دیتے۔بلکہ کئی ایسے مسلم ڈگری کالجز ہیں جہاں اسسٹنٹ پروفیسر کی تنخواہیں پندرہ بیس ہزار ہے، آپ کسی ایسے مسلم انتظامیہ کے اسکول کو لیے جہاں پانچ سو سے زائد بچے داخل ہوں یعنی جو کم از کم گھاٹے میں نہیں ہیں۔پرائیویٹ اسکولوں کے اساتذہ کی بدحالی تو کوئی موضوع ہی نہیں ہے ہمارے تعلیمی ڈیبیٹ میں۔مسلم تعلیمی تحریکوں کے پاس پرائیویٹ اساتذہ کی ترقی کے لیے کوئی منصوبہ بھی نہیں ہے۔میں نہیں سمجھتا کہ اترپردیش، بہار، راجستھان وغیرہ کے اچھے پرائیویٹ اسکولوں میں مسلم اساتذہ کو کہیں دس ہزار روپے ماہانہ مشاہرہ ملتا ہو۔ پرائیویٹ ٹیچنگ سب سے مجبوری کا پیشہ ہے۔
کسی بھی اسکول کی مقابلہ جاتی امتحانات میں بہتر کارکردگی کا انحصار بنیادی طور پر ریاضی، فزکس، کیمسٹری، بائیولوجی، انگریزی وغیرہ جیسے مضامین میں مہارت پر منحصر ہے۔اب آپ اگلا سوال پوچھیں کہ مسلمان اسکولوں میں ان مضامین کے اساتذہ کتنے ہیں اور کس معیار کے ہیں۔ سب کو معلوم ہے ان مضامین کے ماہر اساتذہ کم ہیں اور کافی مہنگے ہیں، لیکن اسکولز اپنے نفع کے لیے اکثر ایسے امیدواروں کو ترجیح دیتے ہیں جو کم مشاہرہ پر راضی ہوں۔ قارئین میں جو لوگ آکاش اور دیگر کوچنگ سینٹرز میں ان مضامین کے اساتذہ کی تنخواہیں جانتے ہیں، انہیں معلوم ہے کہ میڈیکل اور انجینئرنگ کے ٹاپ رینکنگ کا انحصار انہی مضامین پر منحصر ہے۔چھوٹے شہروں میں غریب والدین بھاری پیڈ دے کر ٹیوشن بھی نہیں لے سکتے چنانچہ چھوٹے شہروں سے میڈیکل اور انجینئرنگ کے مقابلے میں کامیاب ہونے والے مسلمان طلبا کی تعداد کافی کم ہے۔ لیکن سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ آپ مسلمانوں کے درمیان ہونے والی ساری گفتگو، تقریریں، جلسوں کا جائزہ لیں تو آپ کو اساتذہ کے اس بحران پر بھی شاید ہی کوئی سنجیدہ توجہ نظر آئے گی۔اس بحران کو فوری طور پر اور طویل مدت کے منصوبے سے ہمیشہ کے لیے حل کیا جا سکتا ہے۔
فوری طور پر ایسے حل تلاش کرنا چاہیے کہ ایسے مسلم منتظم اسکولوں کی نشاندہی کی جائے جہاں اچھے طلبا آتے ہیں لیکن اچھے اساتذہ میسر نہیں ہیں۔ایسے اسکولوں کے لیے سائنس اور ریاضی کے مضامین کے لیے اساتذہ کو اسپانسر کیا جائے۔ شہر کے سب سے اچھے اساتذہ میں سے تقرری کی جائے اور ان کی تنخواہوں کو اسکول اور ملی تنظیمیں یا صاحبان خیر مل کر مکمل کریں، یہ یقینی بنایا جائے کہ طلبا کے مستقبل کو محض تنخواہوں کی وجہ سے اچھے اساتذہ سے محروم ہونا نہ پڑے۔
اچھے اساتذہ تیار کرنا اتنا مشکل بھی کام نہیں ہے، ہزاروں نوجوان پڑھ لکھ کر بیروزگار ہیں جن میں سے بہت نوجوان اچھی تعلیمی صلاحیت کے بھی حامل ہیں، جو مختلف مقابلہ جاتی امتحانات میں محض کچھ نمبروں سے ناکام رہ گئے ہیں یا جو اچھی صلاحیت کے باوجود مناسب مواقع سے محروم رہے ہیں، میرے نزدیک اچھے اساتذہ کا بحران سبھی ملی اور قومی تنظیموں کے درمیان سنجیدگی سے موضوع گفتگو ہونا چاہیے، مختلف سطحوں پر ضروری سروے کرائے جائیں، اسکولوں کے سروے کرائے جائیں اور اساتذہ کی کمی اور ان کی کمی کے نتیجے میں تعلیم اور کریئر میں پسماندگی کے موضوع پر تحقیقی معیار سے بحث ہو کیونکہ کسی بھی مسئلے کے حل کا پہلا قدم یہ ہے کہ اس مسئلے کے ہونے کا اعتراف کیا جائے اور اس کے بارے میں ضروری معلومات جمع کی جائیں۔
اس مرحلے کے بعد اگلا قدم یہ ہو سکتا ہے کہ جیسے اچھے طلبا کو اسکالرشپ دینے کی طرف ملت اور اصحاب خیر کی توجہ ہوئی ہے، ویسے ہی اچھے اساتذہ کو اسکالرشپس اور ضروری مالی اور علمی سپورٹ دلانے پر توجہ دی جائے۔غریب اساتذہ خودداری کے سبب اپنی ضرورتوں کے لیے ہاتھ نہیں پھیلا سکتے لیکن ملت کی ذمہ داری ہے کہ معاشرے کا ایک بھی استاذ محرومی کے احساس سے دوچار نہ ہو، اسے اپنی معمولی معمولی ضرورتوں کے لیے اپنی علمی سرگرمیوں کو چھوڑ کر ادھر اُدھر کے ذریعہ معاش میں اپنا وقت ضائع کرنے کے لیے مجبور نہ ہونا پڑے۔کسی استاذ کو انگلش اسپیکنگ کورس کرنے کی ضرورت ہو، کسی کو کوئی اچھی کانفرنس میں شرکت کی ضرورت ہو، کسی استاذ کو اچھی کتابوں کی ضرورت ہو، ملت کے افراد کو اپنے اساتذہ کی ضرورتوں کا خیال رکھنا ہوگا تاکہ وہ مزید توجہ سے آپ کے بچوں کی تعلیم پر اپنی صلاحیتیں صرف کریں۔ بہت سارے اساتذہ کو بڑی معمولی معمولی ٹریننگ کی ضرورت ہو سکتی ہے جن پر بہت کم وسائل کے ساتھ انہیں تیار کرنا ممکن ہے، اساتذہ کے درمیان مقابلہ کی روح کے ساتھ بعض پروگرام کرائے جاتے رہیں تاکہ وہ علمی اور فنی موضوعات سے وابستہ رہیں، اساتذہ کی علمی اور فنی ارتقا میں سرمایہ کاری اور وسائل لگانا ہرگز گھاٹے کا سودا نہیں ہے۔البتہ یہ ہے کہ یہ کام جتنا زیادہ منظم انداز میں اور پرفارمنس کی بنیاد پر ہو اتنا بہتر ہے۔ایک قابل استاذ ایک چھوٹے سے گاؤں سے بھی دو چار ڈاکٹرز اور قابل انجینئرز پیدا کر سکتا ہے لیکن ایک کمزور استاذ مستقبل کی نسل کو بیروزگار اور کم حوصلہ انسانوں کی تعداد میں اضافے کا سبب ہوگا۔ اس لیے جس طرح سے طلبا کے لیے اچھے اسکولز ہوتے ہیں بالکل ویسے ہی اساتذہ کے لیے بھی بہترین اسکولز اور ٹریننگ سینٹرز کھولے جائیں، ظاہر ہے سرکاری اساتذہ کے لیے بہت سارے پروگرام اور اسکیمیں ہیں لیکن بیشتر اساتذہ تو پرائیویٹ ہی ہیں اور ان کے ارتقا کے لیے ہمارے پاس کوئی خاص پروگرام نہیں ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ دینی تنظیموں کے ذریعہ چلائے جا رہے جدید تعلیمی ادارے سب سے زیادہ کسمپرسی کی حالت میں ہیں۔ اس وقت تین چار لاکھ کی مسلم آبادی والے شہرمیں کم از کم دو سو سے پانچ سو اچھے اساتذہ کی ضرورت ہے، اتنی بڑی ضرورت پوری کرنے کے لیے ہمیں کمر کسنا ہوگا۔
(مضمون نگار سینٹر فار اسٹڈیز آف پلورل سوسائٹیز، تھنک ٹینک کے ڈائریکٹر ہیں۔)
[email protected]