کانوڑ یاترائیں کیا روحانیت کے حصول کیلئے ہوتی ہیں؟: عبدالماجد نظامی

0

عبدالماجد نظامی

ہمارا ملک عزیز ہندوستان مذاہب و ادیان کے تعدد اور تہذیب و ثقافت کی تکثیریت کے لیے چہار دانگ عالم میں معروف ہے۔ ایسا ہونا فطری بھی ہے کیونکہ یہاں ہر مذہب اور طرز حیات کو پنپنے اور پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔ ہندوازم، بدھ مت، جین دھرم، سکھ ازم جو اسی ملک کی دھرتی پر خدا کی عبادت کرنے اور اس کی حقیقت کو سمجھنے کی کوششوں کے طور پر نمودار ہونے والے مذاہب ہیں اور تمام لوگوں کو ایک ہی پرماتما کی پوجا اور اس کے سامنے جبینِ نیاز خم کرنے کی دعوت دیتے ہیں، اس بات کے گواہ ہیں کہ اس ملک میں مذہب سے گہرا لگاؤ اور ایک دوسرے کے ساتھ محبت و آشتی کے ساتھ رہنے کا تصور ان ہی مذاہب سے آیا۔ مذہب کو قبول کرنا اور خالقِ کائنات سے لو لگانا تو ویسے بھی انسان کی فطرت میں ودیعت ہے لیکن ہندوستان میں یہ عقیدہ دیگر قوموں کے مقابلہ میں زیادہ گہرا اور واضح رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام مذاہب و ادیان کو یہاں اپنی تعلیم پھیلانے اور اپنے عقیدہ کی طرف دعوت دینے کی آزادی حاصل رہی۔ کبھی بھی کسی مذہب کو پھلنے پھولنے سے روکنے کی کوشش بہت طویل مدت تک جاری نہیں رہی۔ مذاہب اور عقائد کی بنیاد پر بہت سے مسائل بھی تاریخ کے مختلف ادوار میں پیدا ہوئے لیکن ان مسائل کے حل کا متبادل راستہ بھی جب تلاش کیا گیا تو اس کے لیے بھی مذہب کی ہی راہ ملی۔ گویا یہ کہا جا سکتا ہے کہ مذہب یہاں کے بسنے والوں کی رگ و پے میں سرایت ہے۔ گاؤں اور قبیلوں سے لے کر شہر کی زرق برق والی زندگیوں تک میں ہر جگہ خدا سے اس کے بندوں کو قریب کرنے والے آپ کو مل جائیں گے۔

اکثر ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ ہندوستانی عوام کی اسی مذہب پرستی کا غلط اور بیجا استعمال بھی ان نام نہاد مذہبی رہنماؤں کے ذریعہ ہوا ہے جنہوں نے دھرم اور مذہب کا استعمال انسان کو اس کے خالق سے قریب کرنے کی غرض سے نہیں بلکہ اپنی دنیا سنوارنے کی خاطر کیا ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایسے ٹھگوں کا پردہ فاش نہیں ہوتا ہے اور لوگ دوبارہ سے اپنے حقیقی رب کی تلاش میں سرگرداں نہیں ہوجاتے۔ لیکن چونکہ ہر انسان کے لیے اتنا آسان نہیں ہوتا کہ وہ تلاشِ حق کی جدوجہد میں جلدی اور آسانی سے منزل تک پہنچ جائے، لہٰذا مذہبی قزاقوں کے ہاتھوں وہ لٹ بھی جاتے ہیں۔ اس کا برا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ حقیقی روحانیت سے محروم ہوجاتے ہیں اور مذہب کو پوری انسانیت کے لیے خیر کا ذریعہ بنانے کے بجائے وہ اسے شر کا ہتھیار بنا لیتے ہیں۔ ہمارے ملک کی بد قسمتی یہ ہے کہ چونکہ ان دنوں ہر طرف مذہب کا شور تو ہے لیکن اس میں سے روحانیت کا عنصر غائب ہوگیا ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ مذہب کا استعمال سطحی سیاسی اغراض کے لیے اس شدت کے ساتھ ہوا ہے کہ اس میں انسانی و روحانی عناصر کو پروان چڑھنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا ہے۔

گزشتہ کئی برسوں سے اس کا واضح ثبوت ہمیں کانوڑ یاتراؤں پر نکلنے والے لوگوں کی زندگی میں مل جاتا ہے۔ اکثر یہ دیکھا جاتا ہے کہ کانوڑ یاتری جن راستوں سے گزرتے ہیں، ان پر ایک عجیب سی بے چینی کا احساس عام انسانوں میں پایا جاتا ہے۔ بے چینی کا یہ پہلو بالکل نیا ہے۔ یہ یاترائیں اس ملک میں صدیوں سے کی جا رہی ہیں اور ان کا ایک تقدس ملک کے تمام لوگوں کے دل و دماغ میں پایا جاتا رہا ہے۔ کانوڑ یاتریوں کو یہ عزت اور احترام اس لیے ملا کرتا تھا کیونکہ ان کے بارے میں یہ تصور عام تھا کہ یہ خدا کی طرف نکلنے والے لوگ ہیں جو اپنی زندگی کو دنیاوی آلائشوں سے پاک کرنے اور روحانیت کی خوشبو سے اپنی ذات کو معطر کرنے کے لیے نکلے ہیں۔ جب تک سیاست کا رنگ کانوڑ یاترا پر نہیں چڑھا تھا تب تک یہ جماعت بڑی مہذب ہوتی تھی۔ بڑی خاموشی کے ساتھ اپنے خاص لباس میں ملبوس سڑک کے ایک کنارے سے گزرتی رہتی تھی۔ نہ کوئی شور ہوتا تھا اور نہ ہی اس کے ارد گرد جتھے ہوتے تھے۔ وہ کبھی بیابان میں ٹھہر جاتے تھے تو کبھی کسی گوشہ میں رات بسر کرلیتے اور صبح ہوتے ہی دوبارہ اپنا روحانی سفر پوری شائستگی سے شروع کر لیتے۔

اب یہی کانوڑ یاترا بعض شرپسندوں کی وجہ سے اس قدر پرشور اور نازیبا بنا دی گئی ہے کہ جو حضرات واقعی اپنی روحانیت کو جلا بخشنے کے لیے اس راہ میں نکلتے ہیں، انہیں سخت اذیت اور تکلیف محسوس ہوتی ہے۔ اب یہی کانوڑ یاترائیں ایک خاص قسم کے سیاسی جنون کو درشانے کے لیے نکالی جاتی ہیں تاکہ ایک خاص طبقہ پر اپنی برتری اور عددی قوت کو ظاہر کیا جاسکے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہوا کیونکہ بعض سیاسی جماعتوں نے اس یاترا کے تقدس کو پامال کیا ہے اور اس کا استعمال وہ پاور کے حصول کے لیے کرنے لگی ہیں۔ وہ اس یاترا کے بہانہ اپنی نفرت انگیز سیاست کو پھیلاتی ہیں اور دھرم کے نام پر محبت و آشتی کے اس ماحول کو نقصان پہنچاتی ہیں جو اس ملک کا طرۂ امتیاز رہا ہے۔ ہمارے ملک میں اگر ارباب سیاست مذہب کو اپنی نظریاتی گندگی سے پراگندہ نہ کریں تو آج بھی علامہ اقبالؔ کی یہ بات درست ثابت ہوگی کہ ’مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا‘۔

جس ڈھنگ سے کانوڑ یاترا کے نام پر ملک کے الگ الگ حصوں سے مار پیٹ، لوٹ کھسوٹ اور اوباش گیری کی خبریں آ رہی ہیں، اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اب اس نہایت مقدس مذہبی روایت پر اہل دل خدا پرست کا زور نہیں چلتا ہے بلکہ سیاسی شدت پسندوں نے خود کو ان کی جگہ پر مسلط کر دیا ہے۔ کانوڑیوں کو خدمات عطا کرنے اور ان کی سیوا کے نام پر جس طریقہ سے لوگوں کو پریشان کیا جارہا ہے اور ایک خاص نظریہ کو اس کے ذریعہ سے تھوپنے کی کوشش ہو رہی ہے، اس سے اس بات کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے کہ کہیں صدیوں پرانی اس روایت کا تقدس ہمیشہ کے لیے پامال نہ ہوجائے اور اس عظیم روحانیت کے حصول سے وہ مخلص طبقہ محروم نہ ہوجائے جس کی خاطر وہ خود کو اس طویل اور مشکل سفر پر ڈال دیتا ہے۔ ہندو دھرم کے ان حق پسندوں پر ایک بڑی ذمہ داری آج یہ عائد ہوتی ہے کہ وہ اس کانوڑ یاترا کی اصل روح کی حفاظت کے لیے سامنے آئیں اور اس کو شرپسند عناصر کے ہاتھ کا کھلونا بننے سے بچائیں تاکہ الفت و یگانگت کا وہی تصور ملک میں پروان چڑھ سکے جس کے لیے یہ ملک ہمیشہ سے مشہور رہا ہے۔

(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS