کیا ایک بار پھر غزہ میں جنگ بندی کی امیدیں ماند پڑ رہی ہیں؟ : ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ

0

ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ

غزہ جہاں ایک طرف فلسطینی مزاحمت کار سنگین ترین حالات میں بھی جرأت و دلیری اور بہادری و طول نفسی کی نئی تاریخ لکھ رہے ہیں ،وہیں دوسری طرف اسرائیل عام فلسطینیوں کا قتل عام کرکے پوری دنیا کے سامنے یہ بدترین مثال پیش کر رہا ہے کہ انسانی قوانین اور جنگی اخلاق جیسی کسی شئے کا سرے سے اس نئے عالمی نظام میں وجود ہی نہیں ہے جس کی قیادت امریکہ کر رہا ہے۔ چونکہ اس مغربی نظامِ عالم کی مکمل پشت پناہی اسرائیل کو حاصل ہے اس لئے عالمی برادری خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے اور غزہ میں جاری جنگ کو روکنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہی ہے۔

گزشتہ کئی دنوں سے گرچہ یہ امید پیدا ہوچلی تھی کہ شاید اس بار جنگ بندی کے امکانات پیدا ہوجائیں کیونکہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو دونوں نے اپنے بیانات جاری کئے تھے کہ اس ہفتہ یا آئندہ ہفتہ تک غزہ میں جنگ بندی ہوجائے گی۔ اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو کے حالیہ امریکی دورہ کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جا رہا تھا اور یہ قیاس آرائیاں ہو رہی تھیں کہ ٹرمپ یقینا نتن یاہو پر دباؤ بنائیں گے کہ وہ اپنے موقف میں نرمی پیدا کریں اور جنگ بندی کیلئے راستہ ہموار کریں، لیکن اب جس قسم کی خبریں میڈیا میں مسلسل آ رہی ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ نتن یاہو ہر بار کی طرح اس دفعہ بھی جنگ بندی کے لئے دوحہ میں جاری بات چیت کو ناکام بنانے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ گرچہ بات چیت کا سلسلہ ابھی پورے طور پر بند نہیں ہوا ہے اور ثالثی کا کردار نبھانے والے ممالک قطر ،مصر اور امریکہ تینوں کے نمائندے اپنی طرف سے انتھک کوشش کر رہے ہیں کہ جنگ بندی کی امیدوں کو برقرار رکھا جائے اور اسرائیل و حماس کو راضی کیا جائے کہ جس مسئلہ کی وجہ سے اس بات چیت کے ختم یا ناکام ہونے اور ایک غیر معروف مستقبل کے اندھیرے میں غزہ کے لوگوں کی زندگیاں گم ہوجانے کا خدشہ ہے اس کو فی الحال ٹال دیا جائے تاکہ اگلے مرحلہ میں اس پرگفتگو ہوسکے۔ لیکن وہ مسئلہ ہے کیا جس کی وجہ سے جنگ بندی کی کوششیں ناکام ہوتی نظر آ رہی ہے؟

وساطت و ثالثی کی ذمہ داریاں ادا کرنے والوں نے میڈیا کو جو باتیں بتائی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے اسرائیل کی ضد اس کیلئے ذمہ دار ہے۔ دراصل اسرائیل نہیں چاہتا کہ غزہ سے اپنی فوج کو نکالے اور فلسطینیوں کو آرام کی سانس لینے کا موقع فراہم کرے۔ اسرائیل کا مقصد یہ ہے کہ 60 دنوں کی جنگ بندی کے بعد وہ دوبارہ غزہ میں داخل ہو اور اس کی اراضی پر اپنے قبضہ کو برقرار رکھے۔ جنگ بندی سے متعلق ساری بات چیت کا محور یہی نقطہ بن گیا ہے۔ حماس کا مطالبہ ہے کہ اسرائیل ان علاقوں سے باہر جائے جن کو اس کی فوج نے گزشتہ دو مہینوں میں اپنی تحویل میں لے لیا ہے اور اسرائیل دوبارہ ان علاقوں میں اپنی فوج کو تعینات نہ کرے۔ اس کے برعکس اسرائیلی فریق اس بات پر بضد ہے کہ وہ حماس کے اس مطالبہ کو قبول نہیں کرے گا۔ ایسی صورت میں ثالثوں بالخصوص امریکہ کی جانب سے یہ مشورہ دیا جا رہا ہے کہ اسرائیلی فوج کے انخلاء کے مسئلہ کو بات چیت کے آخری دور کے لئے ملتوی رکھا جائے۔ یہ کوشش صرف اس لئے ہو رہی ہے کیونکہ امریکی ادارہ بھی بظاہر یہ نہیں چاہتا کہ ایک بار پھر جنگ بندی کی یہ بات چیت ناکام ہوجائے۔ میڈیا کی خبروں کے مطابق ٹرمپ نے اس سلسلہ میں نتن یاہو پر دباؤ بھی ڈالا ہے کہ وہ اپنے موقف میں نرمی سے کام لیں ورنہ اس کا امکان ہے کہ حماس اس شرط کو قبول نہیں کرے گا۔ کیونکہ حماس کے مطابق یہ نتن یاہو کی چال بازی ہے اور وہ اپنی فوج کو غزہ میں رکھنے کا بہانہ تلاش کر رہے ہیں۔ صہیونی لیڈر اپنی فوج کو غزہ میں ہی رکھنا چاہتے ہیں کیونکہ ان کا اصل مقصد فلسطینیوں کو جبرا ًان کی زمین سے جلد از جلد نکالنا اور جنگ بندی کے بعد ملٹری زون بناکر انہیں ان میں قید رکھنا ہے۔ حماس کو اس بات کا بھی خدشہ ہے کہ اسرائیل جنگ بندی کے معاہدہ سے اسی طرح پلٹ سکتا ہے جیسا کہ پچھلی بار وہ کر چکا ہے۔ ایسی حالت میں عدم انخلاء کی شرط مزید نقصان دہ ہو سکتی ہے۔ہفتہ کے روز دو فلسطینی مصادر نے جو باتیں میڈیا کو بتائی ہیں ان سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ حالیہ بات چیت کو اپنے منطقی انجام تک پہنچنے میں سب سے بڑی رکاوٹ نتن یاہو اور اس کے شدت پسند حلیفوں کی ضد ہے۔ اسرائیل کم سے کم غزہ کے چالیس فیصد علاقہ کو اپنے قبضہ میں رکھنا چاہتا ہے۔ یہی بات حماس کو منظور نہیں ہے۔ فرانس اسوسیئٹیڈ پریس کو ایک فلسطینی مصدر نے یہ بتایا کہ حماس کی جانب سے بات چیت کر رہی ٹیم اسرائیل کے ذریعہ پیش کردہ نقشوں کو قبول نہیں کر سکتی ہے۔ کیونکہ ان کو قبول کرنے کا سیدھا مطلب یہ نکلتا ہے کہ غزہ کی تقریبا ًنصف اراضی پر اسرائیلی قبضہ کو جواز فراہم کر دیا جائے اور غزہ کو ایسے ٹکڑوں میں تبدیل کرنے کا راستہ تیار کر دیا جائے جو باقی دنیا سے بالکل الگ تھلگ ہو۔ نہ تو وہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ ہو اور نہ ہی وہاں بسنے والے انسانوں کو آزادی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ آنے جانے کی اجازت ہو۔ بالکل نازی کیمپوں کی طرح پورے علاقہ کو فوجی نگہ داشت میں رکھا جائے۔ اب ظاہر ہے کہ حماس ایسی کسی شق پر کیسے دستخط کر سکتا ہے؟

کیا جان بوجھ کر وہ اپنے لوگوں کو ابدی قید کے جہنم میں ڈال دے؟ یہی وجہ ہے کہ حماس کو اس طرح کی شرط کے قبول کرنے سے انکار ہے۔ پوری بات چیت کے دوران حماس کا مطالبہ یہ رہا ہے کہ اسرائیل اپنی فوج کو ان علاقوں سے نکالے جن پر اس نے 2 مارچ کے بعد سے قبضہ جمایا ہے۔ یہ وہی تاریخ ہے جب اسرائیل نے دو مہینے تک جاری رہنے والی جنگ بندی کے بعد معاہدہ کو اپنی جانب سے ختم کر دیا تھا اور فلسطینیوں کے قتل عام میں دوبارہ سے ملوث ہوگیا تھا جس کا سلسلہ تاہنوز جاری ہے۔ جہاں تک ثالثوں مثلا ًقطر اور مصر کا تعلق ہے تو وہ فریقین کو اس بات کیلئے راضی کر رہے ہیں کہ فوج کے انخلاء کے مسئلہ پر بات چیت کو تب تک کیلئے ملتوی رکھا جائے جب تک امریکی نمائندہ اسٹیو ویٹکوف دوحہ نہیں آ جاتے ہیں۔ یہ مشورہ اس لئے دیا جا رہا ہے کیونکہ اہل غزہ تک امدادی اشیاء پہنچانے اور قیدیوں کے تبادلہ جیسے مسئلوں میں کافی پیش رفت ہو چکی ہے۔ وہ نہیں چاہتے کہ انخلاء کے مسئلہ کی وجہ سے یہ بات چیت ناکام ہوجائے۔ نیوز پورٹال ‘‘اکسیوس’’ کے مطابق امریکہ نے بھی حماس سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ غزہ سے اسرائیلی فوج کے انخلاء کا حجم کیا ہوگا اس مسئلہ پر گفتگو کو موخر رکھے اور دوسرے مسئلوں پر بات چیت کو جاری رکھے تاکہ قیدیوں کی آزادی سے متعلق گفتگو ڈگر سے نہ ہٹ جائے۔ لیکن امریکہ کے حماس سے کئے گئے اس مطالبہ میں اس کا نفاق صاف ظاہر ہو رہا ہے۔ اسرائیل کی طرح امریکہ کی نیت بھی یہی ہے کہ کسی طرح پہلے حماس کے ہاتھوں سے اسرائیلی قیدیوں کو آزاد کروا لیا جائے اور اس کے بعد اسرائیل کو کھلی چھوٹ دے دی جائے کہ وہ جیسے چاہے اہل غزہ کے ساتھ غیر انسانی برتاؤ کا سلسلہ جاری رکھے۔ مصر کے سابق معاون وزیر برائے امور خارجہ رخا احمد حسن کی یہ بات درست معلوم ہوتی ہے کہ اسرائیل اپنی شرطیں اس لئے تھوپنا چاہتا ہے کیونکہ ان شرطوں سے اس کا امکان پیدا ہوتا ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کو جبری ہجرت پر مجبور کرے گا۔ اسی وجہ سے وہ غزہ کے کئی علاقوں سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے۔ ان میں سے ایک علاقہ موراغ کا جنوبی گزرگاہ بھی ہے جس کو ایک کھلا جیل بنانے کا ارادہ اسرائیل رکھتا ہے اور اس کو انسانی شہر کا نام دے رہا ہے۔

اس کے علاوہ شمالی علاقہ ہے جہاں سے فلسطینیوں کو نکال کر اس پر اپنا فوجی قبضہ اسرائیل رکھنا چاہتا ہے۔ اسرائیل ایسا اس لئے بھی کر رہا ہے کیونکہ اس کا ارادہ ہے کہ جب جنگ بندی کی مدت ختم ہو تو فلسطینیوں کو وہاں سے نکالنا آسان رہے۔ ایسی صورت میں امریکہ کو چاہئے تھا کہ اسرائیل پر دباؤ بنائے کہ وہ اپنے موقف سے باز آئے۔ لیکن اس نے حماس پر دباؤ بنانا ضروری سمجھا۔ کوئی بھی ذی شعور یہ سمجھ سکتا ہے کہ ان مسائل کو ٹالنے سے کیا خطرہ نہیں ٹل جائے گا۔ اگر امریکی ادارہ اس جنگ بندی کے لئے سنجیدہ ہے تو اس کو چاہئے کہ نتن یاہو کو مجبور کرے کہ وہ اپنی ضد سے باز آئے۔ حماس پورے طور ہر حق بجانب ہے کہ وہ اپنی اراضی سے اسرائیلی فوج کا انخلاء چاہتا ہے تاکہ وہ اپنے لوگوں کی تباہ شدہ زندگیوں کو دوبارہ سے بحال کرنے کا انتظام کرسکے۔ عالمی برادری کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ جنگ بندی کو یقینی بنانے میں اپنا تعاون پیش کرے کیونکہ اب فلسطین کے مظلومین مزید بوجھ اٹھانے کی سکت نہیں رکھتے ہیں۔ انسانی حقوق اور جمہوری قدروں کا راگ الاپنے والا امریکہ ویسے بھی دنیا میں بے نقاب ہوچکا ہے۔ اگر اس ادارہ میں انسانیت کی تھوڑی رمق بھی باقی رہ گئی ہے تو فلسطینیوں کو مزید امتحانات سے نہ گزارے۔ اس بار جنگ بندی کیلئے دوحہ میں جاری بات چیت کا نتیجہ اگر جنگ بندی معاہدہ کی شکل میں نہیں نکلتا ہے تو اس کا اصل مجرم نتن یاہو کو سمجھائے گا جس کی پشت ہناہی امریکہ کر رہا ہے۔ ناکامی کیلئے حماس کو مورد الزام ٹھہرانا حقیقت سے چشم پوشی کے مترادف ہوگا۔

(مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS