عبدالماجد نظامی
قارئین کو یاد ہوگا کہ رواں سال کے مئی مہینہ میں امریکہ کی معروف تنظیم ’’دی یونائٹیڈ اسٹیٹس کمیشن آن انٹرنیشنل ریلیجیس فریڈم‘‘ (USCIRF) نے اپنی سالانہ رپورٹ پیش کی تھی جس میں ہندوستان کے اندر بسنے والے مذہبی اقلیتی طبقوں کے بارے میں بھی کچھ آرا پیش کی گئی تھیں جس کو مودی سرکار نے فوراً ہی جانبدار قرار دیتے ہوئے رد کر دیا تھا اور یہ کہا تھا کہ یو ایس سی آئی آر ایف کو اس طرح کی کوششوں سے باز آنا چاہیے اور ہندوستان کی تکثیریت، یہاں کی جمہوری قدروں اور دستوری طریقوں کے بارے میں اچھی سمجھ پیدا کرنی چاہیے۔ لیکن آخر اس رپورٹ میں ایسا کیا کہا گیا تھا کہ مودی سرکار نے اس کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور اس کو جانبدار قرار دیا تھا؟ میڈیا رپورٹوں کے مطابق اس میں کہا یہ گیا تھا کہ گزشتہ ایک دہائی کے دوران ہندوستانی سرکار نے بھید بھاؤ پر مبنی ایسی پالیسیاں بنائیں اور نافذ کی ہیں، جن کا نشانہ مذہبی اقلیتیں رہی ہیں۔ اس حوالہ سے رپورٹ میں جن پالیسیوں کا ذکر کیا گیا تھا، ان میں بطور خاص تبدیلیٔ مذہب کا قانون، گئو کشی سے متعلق قانون، مذہب کی ترجیحات کی بنیاد پر شہریت عطا کرنے سے متعلق قانون اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کو بیرون ملک سے ملنے والی فنڈنگ پر پابندیاں عائد کرنے جیسے قوانین کا ذکر کیا گیا تھا۔ لیکن کیا پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ2023میں یو ایس سی آئی آر ایف نے اپنی سالانہ رپورٹ میں ایسی باتیں لکھی ہیں؟ جی نہیں! ایسا بالکل نہیں ہے بلکہ2020سے ہی لگاتار یہ تنظیم امریکی سرکار کو مشورہ دیتی چلی آ رہی ہے کہ ہندوستان کو خاص فکرمندی والے ممالک کے دائرہ میں داخل کرے کیونکہ وہاں مذہبی اقلیتوں کے حقوق کو خطرہ لاحق ہے۔ لیکن اب تک ایسا لگتا ہے کہ امریکی سرکار نے یو ایس سی آئی آر ایف کے مشورہ پر کان نہیں دھرا ہے۔ البتہ اس معاملہ میں ایک نیا پہلو یہ شامل ہو گیا ہے کہ مذکورہ بالا تنظیم نے بدھ کے روز ہندوستان میں مذہبی آزادی کے معاملہ پر ایک سماعت کا انعقاد کیا تھا جس کا اعلان اس نے بہت پہلے ہی کر رکھا تھا۔ اس سماعت کے دوران اقلیتی معاملوں پر اقوام متحدہ کے خاص نمائندہ فرنانڈ دی ویرینیس نے یو ایس سی آئی آر ایف کو بتایا کہ ہندوستان میں جو صورتحال ہے، اس کو تین لفظوں میں بیان کیا جا سکتا ہے: یہ معاملہ بہت بڑا، منظم اور بھیانک ہے ۔ انہوں نے اس پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہندوستان اس بات کا خطرہ مول لے رہا ہے کہ کہیں یہ ملک دنیا بھر میں عدم استحکام، مظالم اور تشدد پیدا کرنے والا اصل ملک نہ بن جائے کیونکہ حقوق کی پامالی بہت بڑی سطح پر ہورہی ہے اور مذہبی اقلیتوں کو اور دیگر اقلیتوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انہوں نے اس ضمن میں خاص طور سے مسلم، عیسائی اور سکھ اقلیتوں کا ذکر کیا اور اس پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے اس بات کی وضاحت کی کہ ایسا نہیں ہے کہ حقوق کی پامالی کا یہ مسئلہ کوئی انفرادی یا مقامی نوعیت کا ہو بلکہ یہ سب کچھ منظم ڈھنگ سے کیا جا رہا ہے اور مذہبی قومیت کا عکس پیش کرتا ہے۔ اسی سے مماثل باتیں یو ایس سی آئی آر ایف کے چیئرپرسن ابراہم کوپر نے بھی کہی تھیں اور ان کا دعویٰ تھا کہ مسلمان، عیسائی، سکھ، دلت اور آدیواسیوں پر ہندوستان میں حملے بڑھے ہیں اور انہیں دھمکیاں جھیلنی پڑتی ہیں۔ کوپر نے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ ملک کی سرکار نے مسلسل طور پر اقلیتوں کی آواز کو دبایا ہے اور جن لوگوں نے مقہور لوگوں کے حق میں کچھ بولا ہے، ان کو طرح طرح سے خاموش کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں۔ کبھی ان پر نظر رکھی گئی ہے تو کبھی پریشان کیا گیا ہے۔ کبھی ان کے گھر اور جائیدادوں کو توڑا گیا ہے تو کبھی یو اے پی اے کے تحت انہیں پس زنداں ڈال دیا گیا ہے۔ انہوں نے امریکی سرکار کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ امریکی خارجہ پالیسیوں میں ان ٹرینڈس اور ان سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کا جو اثر ہوگا، ان کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔
اس قسم کی رپورٹیں کسی بھی سرکار کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہونی چاہئیں اور انہیں اپنی پالیسیوں میں مثبت تبدیلی کی طرف قدم بڑھانا چاہیے۔ ایک صحت مند جمہوریت کی علامت یہی مانی جاتی ہے کہ وہاں کی اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرایا جائے، ان کی ترقی کی راہیں مسدود نہ ہوں اور ان کی تہذیب و ثقافت اور زبان و کلچر کو پھلنے پھولنے کے لیے مناسب اور سازگار ماحول کی فراہمی کا انتظام کیا جائے۔ یہ باتیں امریکہ کی تنظیم اور اقوام متحدہ کے نمائندہ کے ذریعہ ایسے وقت میں ہو رہی ہیں جب نریندر مودی کی دو ملاقاتیں امریکی صدر جو بائیڈن سے ہو چکی ہیں۔ ایک بار وہائٹ ہاؤس میں ان کا شاندا استقبال ہوا اور دوسری بار جی-20 چوٹی کانفرنس کے موقع پر دہلی میں بائیڈن سے ملاقات ہوئی۔ لیکن انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کا معاملہ کسی نہ کسی صورت میں اٹھتا ضرور رہا۔ وہائٹ ہاؤس میں ’’وال اسٹریٹ جرنل‘‘ کی نامہ نگار نے ہندوستان میں اقلیتوں کے مسائل پر سوال کر دیا جس سے مودی جی کے حامیوں میں بڑی کھلبلی مچ گئی اور صحافیہ پر ہی نشانہ لگا دیا گیا اور انہیں ٹرول کیا گیا۔ یہاں تک کہ امریکی ادارہ کو اس میں مداخلت کرنی پڑی اور بیان جاری کرکے نامہ نگار اور میڈیا کی آزادی پر امریکی سرکار کے موقف کو واضح کیا گیا جس سے ہندوستان کے بارے میں ایک منفی امیج دنیا بھر میں بنی۔ جی-20 کے موقع پر بھی جب امریکی میڈیا کو بائیڈن-مودی ملاقات کو کور کرنے کی اجازت نہیں ملی اور سوال کا سیشن نہیں رکھا گیا تو اس سے مزید رسوائی ہوئی کیونکہ امریکی صدر نے وہی باتیں ویتنام میں جاکر کہیں جو وہ ہندوستان میں کہنا چاہتے تھے۔ ویتنام میں انہوں نے مذہبی آزادی اور انسانی حقوق کے معاملہ پر مودی سے ہوئی بات کا ذکر کیا۔ یہ باتیں واضح کرتی ہیں کہ ملک میں آواز کو دبایا جا سکتا ہے اور حقوق کی پامالی کی جا سکتی ہے لیکن دنیا کی آنکھیں بند نہیں ہیں، وہ ہمیں دیکھ رہی ہیں۔ اگر ہم واقعی ایک مضبوط اور قابل اعتبار جمہوریت کی طرح اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں مذہبی آزادی، اقلیتوں کے مسائل کا بہتر حل، انسانی حقوق اور میڈیا فریڈم جیسے معاملوں پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا اور کوتاہیوں کو ختم کرنا ہوگا۔ عالمی قیادت کے لیے ارباب اقتدار کویہ اصول ہمیشہ ذہن نشیں رکھنا چاہیے کہ سرکار کی اولین ترجیح انصاف کی بالادستی ہوتی ہے، اپنوں کی خوشنودی نہیں۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]