برادران وطن کی تہذیب،زبان و دھرم کی قدردانی

0

ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی
ملک کی موجودہ صورتحال حد درجہ تشویشناک ہے۔ اس کی متعدد وجوہات ہیں۔ ان میں سب سے نمایاں وجہ یہ ہے کہ آج بڑی شدومد کے ساتھ اس بات کا ڈھول پیٹا جارہا ہے کہ جب سر زمین ہندوستان میں مسلمان اقتدار پر قابض تھے تو انہوں نے ہندو رعایا کے ساتھ نہ صرف نا انصافی کی بلکہ ان کے ساتھ بھیدبھاؤ کیا، مذہبی منافرت کو فروغ دیا، ان کی تاریخ و تہذیب ، علوم و فنون اور زبان و ادب کے ساتھ سوتیلا برتاؤ کیا۔ جبکہ تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اس الزام کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اس طرح کی باتوں کو اس لیے رواج دیا جارہا کہ عوام میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ماحول پیدا ہو اور سیاسی عناصر اپنی اپنی سیاسی روٹیاں سینکیں۔ اگر ملک کے منظر نامے پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس طرح کی باتیں ہر طرف کی جارہی ہیں۔ حتیٰ کہ ہمارے ملک کا میڈیا بھی اب اس طرح کے موضوعات پر بحث و مباحثہ کرانے کو اپنی سعادت سمجھتا ہے۔ نیز بعض سیاست داں بھی اپنی انتخابی ریلیوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت و اشتعال انگیز بیانات دے کر عوامی سطح پر بد امنی اور نا اتفاقی کو ہوا دے رہے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ اس طرح کے لوگ نہ صرف سماجی رابطوں و تعلقات کو مخدوش کررہے ہیں بلکہ وہ ہندوستان کی تاریخ سے تجاہل عارفانہ برت رہے ہیں۔ چنانچہ سطور ذیل میں یہ بتانے کی سعی کی جائے گی کہ برادران وطن کے دین و دھرم، تہذیب و تمدن ،علوم و فنون ، تاریخ اور خود ان کے ساتھ کس قدر مشفقانہ اور روادارانہ برتاؤ کیا گیا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ہندوؤں کے مذہبی مصادر اور دیگر کتب سنسکرت میں ہیں۔ ہندوستان میں سنسکرت زبان بھی رائج تھی۔ ہندوستان کے کئی علوم و فنون ایسے ہیں جن کو مسلمانوں نے اپنی قوم میں متعارف کرانے کے لیے سنسکرت سے عربی زبان میں ترجمہ کیا۔ اسی طرح ان کے مذہب ودھرم کے متعلق معلومات حاصل کی گئیں۔ چنانچہ اس بابت ، تزک جہانگیری، مآثراالامراء، آئین اکبری وغیرہ میں بڑی  تفصیل سے لکھا ہے۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ دولت عباسیہ سے لے کر مغلوں کے دور تک مسلم حکمرانوں نے ان کے علوم وفنون، تہذیب وتمدن اور دین ودھرم کی قدر کرنے کے ساتھ ان کو مناصب جلیلہ پر بھی فائز کیا۔ دولت عباسیہ میں مختلف زبانوں کے تراجم عربی میں کیے گئے۔ سریانی، عبرانی، قبطی، فارسی کلدانی فنیقی وغیرہ اسی طرح سنسکرت زبان کے ترجمہ کی ابتدا عباسی فرمانروا ابو جعفر منصور کے زمانے میں ہوئی۔ اسی نہج کو برقرار رکھتے ہوئے خلیفہ ہارون الرشید اور مامون الرشید نے بھی اپنے دور میں ہندوستان سے تعلقات بڑھائے۔ حتیٰ کہ ’’ایک مرتبہ ہارون الرشید سخت بیمار ہوا اور پایہ تخت کے اطباء علاج سے عاجز آ گئے، اس زمانہ میں ہندوستان کے ایک پنڈت کی شہرت دور دور پھیلی ہوئی تھی، ابو عمرو عجمی کی تحریک سے ہارون الرشید نے اس کو طلب کیا اور اس کے علاج سے خدانے شفا دی، اس فاضل کا نام منکہ تھا۔ وہ طبابت کے علوم عقلیہ کا بڑا ماہر تھا، بغداد میں رہ کر اس نے فارسی زبان سیکھ لی اور سنسکرت زبانوں کے ترجمہ کرائے۔ علامہ شبلی نے یہ بھی لکھا ہے کہ ہارون الرشید کے دربار کا ایک نامور پنڈت سالی تھا، جس کو عرب مصنف صالح لکھتے ہیں، اسی عہد میں ایک اور مشہور فاضل ہندو تھا جس نے سنسکرت کتابوں کے ترجمے کیے،اس کے باپ کا نام دھن تھا اور اہل عرب اس کو اس کے اصلی نام کے بجائے ہمیشہ ابن دھن یعنی دھن کا بیٹا لکھتے ہیں، برمکیوں نے بغداد میں جو ہسپتال بنایا تھا ، یہ اس کا افسر تھا ۔ جب مورخ مسعودی کھمبھات آیا اور وہاں کے حالات سے واقفیت پیدا کی تھی، وہ لکھتا ہے کہ ’’یہاں کا راجہ مذہبی مناظر کا بہت شائق ہے اور مسلمان اور دوسرے مذہب کے لوگ جو اس شہر میں آ تے ہیں ان سے بحث اور گفتگو کرتا رہتا ہے۔‘‘اسی طرح ابو ریحان بیرونی نے بعض عربی تصنیفات کو ہندوؤں کے لیے سنسکرت زبان میں ترجمہ کیا، سنسکرت علوم وفنون کے متعلق جو کتاب اس نے لکھی ہے اور جس کو جرمنی کے مشہور پروفیسر زخاو نے اپنی تصحیح سے چھپوا یا ہے، یہ کتاب یقینا سنسکرت علوم و فنون کا بیش قیمت سرمایہ ہے۔ مذکورہ تفصیل کی روشنی میں یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ مسلمانوں میں سنسکرت بھاشا کی تعلیم کافی حدتک رائج ہوچکی تھی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہوئی کہ دولت عباسیہ میں قائم بیت الحکمت میں باقاعدہ ایک شعبہ قائم تھا جس میں سنسکرت زبان کے تراجم کیے جاتے تھے۔ یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں نے نہایت توسع کے ساتھ ہندوستانی تہذیب اور ہندوؤں کے علوم ومعارف کو مسلم معاشرے میں رواج دیا ہے۔ علامہ شبلی نعمانی نے ان سنسکرت کتابوں کی فہرست بھی دی ہے جن کو ہندو اہل علم نے تصنیف کیا اور بعد میں عربی زبان میں منتقل کی گئیں۔ علامہ شبلی نعمانی کی تحقیق کے مطابق ایسی بیس کتب ہیں جو سنسکرت سے عربی میں منتقل ہوئیں۔ موضوع کے تنوع اور علوم معارف کے تعدد کی وجہ سے ان کی اہمیت و افادیت سے انحراف نہیں کیا جاسکتا ہے۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ جب ہندوستان میں مسلمان اقتدار میں تھے تب بھی ہندوؤں کی مذہبی اور مختلف علوم و فنون پر مشتمل کتب کا فارسی زبان میں ترجمہ کیا گیا۔ ہندوستان میں سلطان فیروز شاہ جب772ھ میں جوالا مکھی کی سیر کو گیا تو معلوم ہوا کہ کہ یہاں کے بت خانے میں 1300 سنسکرت کی قدیم تصنیفات موجود ہیں، فیروز شاہ نے وہ کتابیں حضور میں طلب کیں اور ان کے ترجمہ کا اہتمام کیا، نجوم کی ایک کتاب کا ترجمہ عز الدین نے نظم کیا اور دلائل فیروز نام رکھا ، یہ کتابیں اکثر موسیقی اور کشتی فنون میں تھیں۔ عبد القادر بدایونی نے منتخب التواریخ میں لکھا ہے کہ 1000ھ میں جب لاہور پہنچا تو یہ ترجمہ شدہ کتابیں میری نظر سے گزریں ، اکبرباد شاہ کو سنسکرت کی زبانوں کا جو اہتمام تھا وہ عام طور سے مشہور ہے۔ یہ سب جانتے ہیں کہ اکبر کو ہندوؤں سے خاصا لگاؤ تھا یہی وجہ ہے کہ اس نے اپنے دربار میں بڑے بڑے قابل اور نامور پنڈتوں کو جمع کیا، ابو الفضل نے اپنی معروف کتاب آئین اکبری میں ان پنڈتوں کی فہرست دی ہے جن کو اکبر نے اپنے دربار میں بلایا اور مذہبی امور میں بحث و مباحثہ و مکالمہ پر مامور کیا۔اکبر نے ملک میں ایک ممتاز و منفرد انجمن بنائی جس میں تمام مذاہب کے علماء و اسکالرس کو جمع کیا۔ اس کا بنیادی طور پر جو مقصد تھا وہ یہ کہ ملک میں رواداری کا رواج ہو،نیز تمام ادیان کے حاملین اپنے اپنے دین کا اتباع کرتے ہوئے باہم احترام سے رہیں۔ آ ج بھی ملک و عالمی منظر نامے پر ہمیں ان خطوط پر عمل کرنا ہوگا جویکجہتی اور اتحاد و یگانگت کی علمبردار ہوں۔ اکبر کے دور اقتدار میں بہت سی سنسکرت زبانوں کے اردو تراجم بھی ہوئے۔ ہندوؤں کی مذہبی کتاب مہا بھارت کا فارسی ترجمہ ،عبدالقادر بدایونی و شیخ سلطان تھانیسری و نقیب خاں کی شرکت سے ہوا، اکبر نے اس ترجمہ کا نام رزم نامہ رکھا اور تمام معرکوں کی تصویریں بنواکر اس میں شامل کیں،مذکورہ بالا فضلاء نے رامائن کا بھی ترجمہ کیا اور اس میں بھی تصویریں بنوائی گئیں، اتھر وید کا ترجمہ حاجی ابراہیم سر ہندی نے کیا اور اس ترجمہ کا قلمی نسخہ شبلی کالج کے کتب خانہ میں موجود ہے۔ لیلاوتی جو فن حساب کی مشہور کتاب ہے، اس کا ترجمہ فیضی نے کیا تاجک جو علم نجوم میں ایک معتبر تصنیف ہے ، مکمل خاں گجراتی نے اسے فارسی میں منتقل کیا۔ کنہیا جی کے حالات میں ہر بنس ایک کتاب ہے، مولانا شیری نے اس کا ترجمہ کیا ، نل اور دمن کا قصہ جو ایک پردرد ناول ہے ، فیضی نے اس کو مثنوی کا لباس پہنایا۔ اکبر کی یہ بھی خدمت قابل تعریف ہے کہ اس نے سنسکرت سرمایہ میں بھی اضافہ کیا یعنی عربی فارسی کی بہت ساری کتابیں سنسکرت میں ترجمہ کرائیں، چنانچہ ’’زیچ میرزائی‘‘ کا  ترجمہ سنسکرت میں ہوا، اس ترجمہ میں فتح اللہ شیرازی، ابوالفضل ، کشن جوتشی، گنگا دھر مہیش ، مہا نند، وغیرہ شامل تھے۔( مقالات شبلی، جلد ششم، صفحہ 87-88) اگر ہندوؤں کی تہذیب اور علم وفن کی قدردانی اور ان کے مذہب کے احترام پر تمام شواہد وحقائق کا احاطہ کیا جائے تو کافی صفحات درکار ہوں گے، لہٰذا مذکورہ سطور سے یہ اندازہ ہوگیا کہ ہندو اہل علم اور ان کے علوم وفنون، نیز تہذیب کو مسلمانوں کے دور اقتدار میں کافی فروغ ملا۔
مذکورہ شواہد کی روشنی میں یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ برادران وطن کے ساتھ ہمیشہ برابری اور انصاف و مساوات کا سلوک کیا گیا ہے۔ اس لیے اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ملک میں باہم قوموں کے مابین بڑھتی خلیج کو مٹانے میں اہم کردار ادا کریں۔ اسی کے ساتھ ہمیں تاریخ کا مطالعہ بھی نہایت توسع اور فراخ دلی سے کرنا ہوگا تاکہ کسی رویہ اور کردار پر ہم الزام عائد نہ کرسکیں، جو لوگ تاریخ کے اوراق کو عوام الناس کے سامنے دھندلا کرکے پیش کررہے ہیں ایک بار انہیں بھی ان تمام حقائق پر نظر ڈالنے کی سخت ترین ضرورت ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS