خواجہ عبدالمنتقم
زمانۂ مستقبل یعنی نومبر2022 میں ہندوستان کے چیف جسٹس کا حلف لینے والے سپریم کورٹ کے جج جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے اپنے ایک حالیہ دورے میں انگلینڈ کی ایک لاء سوسائٹی میں شرکا و مندوبین کو مخاطب کرتے ہو ئے یہ بات کہی تھی کہ ہمارے آئین کی دفعہ15، جس میں واضح طور پر یہ بات کہی گئی ہے کہ حکومت مذہب، نسل، ذات، جنس، مقام پیدائش کی بنیاد پر کسی طرح کا امتیاز نہیں برتے گی،کا اطلاق پرائیویٹ اداروں میں ملاز مت کرنے والے افراد پر بھی ہونا چاہیے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ اگر اس طرح کے معاملے میں کسی کے ساتھ کسی سرکاری ادارے میں کوئی بھیدبھاؤبرتا جاتا ہے تو وہ سرکار کے خلاف، حسب صورت، ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں بالترتیب دفعہ 226 یادفعہ32کے تحت رٹ پٹیشن داخل کر سکتا ہے لیکن پرائیویٹ سیکٹر میں اگر اس طرح کے معاملے میں کوئی امتیاز برتا جاتا ہے تو متاثر شخص کو اس طرح کی دادرسی کا حق حاصل نہیں لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں نکالا جاسکتا کہ کسی پرائیویٹ ادارے میں کام کرنے والے شخص کے ساتھ جانبداری برتی جاسکتی ہے یا اس کے ساتھ کوئی زیادتی کی جاسکتی ہے۔ہر پرائیویٹ ادارے میں کام کرنے والے شخص کو بھی اس کے کام کی نوعیت کے اعتبار سے جو وہ کررہا ہے متعلقہ قوانین کے تحت تحفظ حاصل ہوتا ہے۔
جج موصوف نے واضعین آئین کی تنقید نہ کرتے ہوئے یہ بات بھی کہی کہ جس دور میںیہ آئین وضع کیا گیا تھا، اس دور میں ملازمت دینے کے معاملے میں پرائیویٹ سیکٹر کا رول اتنا وسیع الحدود اور اہم نہیں تھا جتنا کہ آ ج ہے۔ اس سلسلہ میںان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اب اس طرح کے بنیادی حقوق اور آ زادیاں ہر شعبۂ حیات میں ہر شخص کو دستیاب ہونی چاہئیں۔اگرچہ دستیاب مختصراطلاعاتی رپورٹ میں صرف دفعہ 15 کا حوالہ ہے جبکہ دفعہ 16میں بھی دیگر باتوں کے ساتھ یہ التزام موجود ہے کہ تمام شہریوں کو مملکت کے تحت کسی عہدہ پر ملازمت یا تقرری سے متعلق مساوی مواقع حاصل ہوںگے اور کوئی شہری محض مذہب، نسل، ذات، جنس، نسب، مقام پیدائش، بودوباش یا ان میں سے کسی کی بنا پر مملکت کے تحت کسی ملازمت یا عہدے کے لیے نہ تو نااہل ہوگا اور نہ اس کے ساتھ امتیاز برتا جائے گا۔
اس وقت ہمیں 2017 میں ذیشان نامی ایک نوجوان کے ساتھ ہونے والی وہ زیادتی یاد آرہی ہے جب اسے ایک پرائیویٹ کمپنی میں صرف اس بنیاد پر ملازمت دینے سے انکار کردیا گیا تھا کہ وہ مسلمان ہے۔ جہاں تک لفظ ’زیادتی‘ کی صحیح تعریف کی بات ہے بہت سے معاملوں میں بشمول ویریندر موہن بنام ریاست پنجاب والے معاملے میں(پنجاب 1999(3) آ ل انڈیا لاء رپورٹر449) میں یہ فیصلہ دیا جا چکا ہے کہ زیادتی سے ایسا برتاؤ یا رویہ مراد ہے جو نہایت متشدد یا بے ہودہ، فاسقانہ، مجرمانہ، ظالمانہ اور انتہائی صدمہ انگیز و دہشت خیز ہو۔ اُس وقت ہم نے روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گوشۂ دستاویز میں،جس کے لیے اس وقت ہم سے بڑی پابندی کے ساتھ لکھایا جاتا تھا، شائع مضمون میں عوام اور ارباب حکومت کی توجہ اس جانب مبذول کرائی تھی۔اس مضمون میں شامل بیشتر باتوں کی معنویت تا ہنوز باقی ہے۔
سیاسی جمہوریت کی بقا،دوام، دیر پائی اور یہاں تک کہ اس کے وجود کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس میں ہر شہری کو کما حقہ سماجی،معاشی و سیاسی انصاف ملے اور بہ اعتبار حیثیت و موقع اسے عملی طور پر حق مساوات، جس کی آئین کی دفعہ 14میں ضمانت دی گئی ہے، حاصل ہو مگر ملکی قوانین و بین الاقوامی تحفظات کے باوجو نہ صرف ہمارے ملک میں بلکہ پوری دنیا میں گاہے بگاہے کم و بیش ایسا ہوتا رہا ہے۔
لگتا ہے کہ ڈاکٹر امبیڈکر نے 25نومبر1949 کو یعنی آئین ساز اسمبلی کے ذریعہ آئین کے adopt کرنے سے صرف ایک دن قبل آئین کے مسودہ پر بحث کے اختتام کے بعد آئین ساز اسمبلی میں اپنی آخری تقریر میں یہ صحیح ہی کہا تھا کہ سیاسی جمہوریت کو بغیر سماجی جمہوریت کے( یعنی ایسی جمہوریت جس کی social base نہ ہو) کو کبھی استحکام نصیب نہیں ہو سکتا۔ اب سے تقریباً 26سال قبل خود ہمارا سپریم کورٹ بپن چندرا جے دیوان بنام ریاست گجر ات والے معاملے میں(1996 (3)گجرات لاء رپورٹر 92 (ایس سی) یہ بات کہہ چکا ہے کہ سماجی انصاف کا قطعی مفہوم کچھ بھی ہو مگر اس میں کمز ور طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد کو انسان سمجھتے ہوئے ان کی ضروریات کا اعتراف و قدر شناسی یقینی طور پر شامل ہے۔ ارباب حکومت کے لیے یہ نہ صرف باعث تشویش ہونا چاہیے بلکہ مہاراشٹر جیسی ریاست میں اس طرح کا واقعہ پیش آنا اس کے شایان شان نہیں تھا۔ پرائیویٹ اداروں کو بھی قانون کی حدود پار کرنے کی ہر گز ہر گز اجازت نہیں۔ اگرچہ اس معاملے میں قصوروار کمپنی نے معافی مانگ لی تھی اور یہ بھی مان لیا تھا کہ ایسا غیر ارادی طور پر ہوا ہے اور یہ ایک غیر ذ مہ دار ملازم کی لغزش کا نتیجہ تھا۔ کمپنی نے اس ملازم کے خلاف تادیبی کارروائی بھی کی تھی۔ کمپنی نے یہ بھی کہا تھاکہ اس کمپنی میں کافی تعداد میںاقلیتی ملا زمین کام کررہے ہیں۔ دریں صورت یہ ’ ’ لغزشِ غیر ارادی‘‘ نظر انداز کی جاسکتی ہے مگر مستقبل میں ایسی بے ارادہ یا با ارادہ لغزشوں کو روکنے کے لیے سخت قدم اٹھانے ہوںگے اور اگر قانون بھی بنانا پڑے تو حکومت کو بخل سے کام نہیں لینا چاہیے، بالکل اسی طرح جس طرح SCs/STs کے لیے درج فہرست ذاتیں اور درج فہرست قبائل (زیادتیوں کا تدارک) ایکٹ، 1989 بنایا گیا تھا۔اس ایکٹ کے بنانے کا مقصد ان ذاتوں سے تعلق رکھنے والوں کے خلاف کی جانے والی عام زیادتیوں کو روکنا، زیادتیاں کرنے والوں کو سزا دینا اور متاثرین کو راحت پہنچانا تھا۔ اس ایکٹ کی دفعہ 3میں ان مختلف زیادتیوں کا ذکر ہے جو ان لوگوں کے ساتھ کی جاتی ہیںجیسے ان کی بے عزتی، ان کے ساتھ بد کلامی، فقرہ کشی، ان کے راستہ میں قابل اعتراض و غلیظ اشیا پھینکنا، ان کی زمینوں پر غاصبانہ قبضہ کرنا،ان کے خلاف جھوٹی قانونی کارروائی کرناوغیرہ۔
ہم نے اپنے مضامین میں بار بار یہ اشارہ کیا ہے کہ آئین کی تمہید میں مستعمل لفظ ’ہم ‘ کثرت الوجود کا مظہر ہے نہ کہ مختلف دھڑوں میں بٹنے یعنی پولرائزیشن کا۔ انسان اور حیوان میں بنیادی فرق نطق اور شعور کا ہے۔ ان خداداد صلاحیتوں نے ہی انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ عطا کیا ہے۔ لہٰذا ہم سب انسانوں کا یہ فرض ہے کہ ہم حقیقی معنوں میں اشرف المخلوقات ہونے کا ثبوت دیں او ر اپنے ذاتی وسیاسی مفادات کے لیے ایک دوسرے پر کیچڑ نہ اچھالیں اور ایک دوسرے کا احترام کریں۔یہ ایسی خصوصیات ہیں جو ہمیں ترقی کی معراج تک لے جاسکتی ہیں۔حالات کا تقاضا ہے کہ صبرو تحمل سے کام لیا جائے،اپنی شکایات کے ازالہ کے لیے سڑک پر آنے کے بجائے قلم اور ہوشمندی سے کام لیا جائے۔عافیت اسی میںہے۔
(مضمون نگار آزاد صحافی، مصنف، سابق بیورکریٹ اور عالمی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تاحیات رکن ہیں)
[email protected]