ظاہری وضع قطع اور روحِ ایمانی: عبدالغفار صدیقی

0

عبدالغفار صدیقی
’’آپ کے داڑھی نہیں ہے ،اس لیے آپ اقامت نہیں کہہ سکتے ۔‘‘ یہ الفاظ ایک عالم ،فاضل ، حافظ ،قاری اور امام مسجد کے ہیں۔ یہ معاملہ کسی ایک مسجد کا نہیں ہے کم و بیش تمام مساجد کا ہے ۔ الا یہ کہ اقامت کہنے والا محلہ کا مال دار اور اثردار انسان ہو۔جس کے سامنے امام صاحب کے اندر لب ہلانے کی جرأت نہ ہو ۔کہیں داڑھی ،کہیں ٹوپی ،کہیں لباس کی پیمائش کا مسئلہ ۔ان امور پر بحث و گفتگو نے ظاہرکو ہی اصل اسلام بنا دیا ہے ۔جبکہ قرآن مجید میں داڑھی رکھنے ،ٹوپی پہننے ، کرتا پائجامہ زیب تن کرنے یا نہ کرنے کا کوئی ذکر نہیں ہے ۔ اگر داڑھی ، ٹوپی اور کرتا پائجامہ مسلمان ہونے کے لیے لازمی ہوتاتو اس کا حکم اللہ تعالیٰ ضرور دیتا ۔
قرآن کے بعد حدیث اور سنت کا مقا م ہے ۔ داڑھی کے بارے میں سب سے مستند اور معتبر حدیث کے الفاظ یہ ہیں ۔’’ مشرکین کی مخالفت کرو،داڑھی بڑھائو،مونچھیں کٹائو‘‘۔یہی الفاظ تھوڑے فرق کے ساتھ حدیث کی کئی مستند کتب میں موجود ہیں ۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اپنی ہمسایہ اقوام سے اختلاف کرنے کے لیے داڑھی بڑھائی جائے ۔کہتے ہیں کہ یہود اود مشرکین داڑھی اور مونچھ دونوں بڑھاتے تھے ،یا داڑھی منڈاتے اور مونچھ رکھتے تھے ۔ان سے الگ شناخت قائم کرنے کے لیے یہ حکم دیا گیا ۔اس طرح کے احکامات دیگر کئی معاملات میں دیے گئے ہیں ۔کہیں کہا گیا :’’ یہود اور عیسائی خضاب نہیں لگاتے تم ان کی مخالفت کرو۔‘‘(بخاری و مسلم )ان دونوں احادیث میں ایک جیسے ہی الفاظ کے ذریعہ دو الگ الگ حکم دیے گئے ہیں ۔دونوں میں یہ بات مشترک ہے کہ ’’ یہود و نصاریٰ کی مخالفت کی جائے ‘‘ ایک میں داڑھی بڑھانے اور دوسری میں خضاب لگانے کا حکم دیا گیا ہے ۔مگر فتووںمیں داڑھی کو فرض اور خضاب کو مستحب قرار دیا گیا ہے ۔اس پر ضرور غور کیا جانا چاہئے ۔
لباس کے متعلق قرآن نے جو ہدایات دی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ سترپوشی کرتے ہوں ،کیونکہ لباس کا اصل مقصدستر پوشی ہی ہے ، اس لیے ایسا لباس پہننا جس سے ستر پوشی کے بجائے عریانیت کا اظہار ہو مناسب نہیں ہے ۔لباس کے متعلق دوسری ہدایت یہ ہے کہ وہ ’لباس تقویٰ ‘ہو ۔ظاہر ہے تقویٰ کسی کمپنی کا نام نہیں ہے بلکہ دل کی اس کیفیت کا نام ہے جس میں انسان کو ہر وقت اور ہر حال میں اللہ کے بادشاہ ہونے اور خود کو غلام ہونے کا احساس کرائے ،یہ احساس بھی دل میں ہوتا ہے ۔اسی لیے نبی اکرم ﷺ نے تقویٰ کا مقام دل فرمایا ہے ۔کسی کا لباس پھٹا ہوا میلا کچیلا ہو،ڈھیلا ڈاھالا اور ٹخنوں سے اوپر لیکن اس کے دل میں ریا کاری اور مکاری ہو وہ اپنی اس وضع قطع سے بندگان خدا کو دھوکا دیتا ہوتو یہ لباس حرام ہے ،اس کے برعکس کسی نے کوٹ پینٹ ، جینس شرٹ ،کرتا پائجامہ ،صاف ستھرا لباس پہن رکھا ہو،جسے پہن کر انسان حسن و جمال کا پیکر لگتا ہو،جس سے اللہ کی نعمتوں کا اظہار ہوتا ہو، اس کے اندر عاجزی و انکساری ہو ،وہ معلامات کا کھرا ہو تو اس کا لباس تقویٰ کا لباس ہے ۔
مختلف مکتبہائے فکر کے دارالافتاء سے یہی فتویٰ دیا جاتا ہے کہ داڑھی مونڈنا اور کاٹنا حرام ہے ،ایسا کرنے والا فاسق ہے ،ٹخنوں سے نیچے ازار کا ہونا گناہ کبیرہ ہے ،انسان کا وہ حصہ جہنم کا ایندھن بنے گا وغیرہ، یہاں تک کہ جینس پہننے والوں کو مذہبی طبقہ اچھی نگاہوں سے نہیں دیکھتا۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب وہ شخص مسلمان کے بجائے فاسق ہے،مسلسل گناہ کا مرتکب ہے تو اس کا نکاح پڑھانا اور اس سے مدرسہ اور مسجد کے لیے تعاون (چندہ) لینا کیوں کر جائز ہوسکتا ہے ۔ جن مساجد میں ایسے اشخاص کو اقامت و اذان کہنے سے روک دیا جاتا ہے ان مساجد کے ائمہ ان لوگوں کا نکاح کیوں پڑھاتے ہیں ،علماء مدارس ان سے چندہ کیوں لیتے ہیں ۔میں دیکھتا ہوں کہ ائمہ مساجد اور ذمہ داران مدارس نہ صرف بغیر داڑھی والوں اور جینس پہننے والوںسے چندہ لیتے ہیں بلکہ ان مالداروں کی چوکھٹ پر گھنٹوں ہاتھ باندھے انتظار فرماتے ہیں جن کی جانب داڑھی اور لباس کی حرا م کاریاں منسوب کی جاتی ہیں ۔آخر یہ دہرا معیار کیوں ہے ؟جب کہ ایک انسان کو آپ اذان و اقامت کا اہل نہیں مانتے تو وہ کسی بہن بیٹی کے لیے اچھا شوہر کیسے ہوسکتا ہے ۔اس کی کمائی حلال کیسے ہوسکتی ہے اور اس کا پیسہ کس طرح دینی کاموں میں استعمال ہوسکتا ہے ،اس کی تو نماز جنازہ بھی نہیں پڑھنی چاہئے اور نہ اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا چاہئے ۔دراصل برصغیر میں احادیث اور ارشادات رسول ؐ کو ان کے پس منظر سے الگ کرکے دیکھا گیا ہے ۔داڑھی کا معاملہ بھی یہی ہے ۔یہ ایک مسلمان کی پہچان ہے ۔جس تکثیری معاشرے میں جس قسم کی داڑھی سے مسلمان پہچان لیے جاتے ہوں اتنی داڑھی کافی ہے اس لئے کہ حدیث میںداڑھی بڑھانے کی ہدایت ایک ’سبب‘ کے ساتھ دی گئی ہے ۔وہ سبب ہے یہود کی مخالفت، اگر کسی ملک میں کوئی قوم یا گروہ لمبی داڑھی رکھنے لگے اور مونچھ صاف کرانے لگے تو وہاں یہ حکم بدل جائے گا۔ اسی طرح ٹخنوں سے نیچے لباس کا معاملہ ہے ،یہ حکم نماز کے باب میں نہیں بیان کیا گیا ہے بلکہ تکبر کے ضمن میں بیان کیا گیا ہے ۔صحیح مسلم کی حدیث نمبر5459میں یہ الفاظ ہیں :
’’حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: میں نے اپنے ان دونوں کانوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ فرما رہے تھے۔’’جس شخص نے اپنی ازار (کمر سے نیچے کی چادر وغیرہ) گھسیٹی اس سے اس کا ارادہ تکبر کے سوا اور نہ تھا تو قیامت کے دن اللہ تعا لیٰ اس کی طرف نظر تک نہیں فرما ئے گا۔‘‘
اس حدیث میں صاف طور پر یہ کہا گیا ہے کہ اگر یہ تکبر کی بنا پر ہے تو اللہ اس کی جانب نہیںدیکھے گا۔دوسرا مطلب یہ ہوا کہ اگر یہ عمل تکبر کی بنا پر نہیں ہے بلکہ عادتاً یا سواًہے تو کوئی گناہ نہیں ہے ۔بخاری کی حدیث نمبر4085میں حضرت ابوکر صدیق ؓ کے متعلق لکھا ہے کہ ان کا ازار لٹک جاتا تھا حضور ؐ کا حکم سن کر آپ ؐ نے اپنے بارے معلوم کیا تو آپ ؐ نے فرمایا ’’یہ تمہارے لیے نہیں ہے تم ان میں سے نہیں ہو‘‘ یعنی تمہارا یہ عمل تکبر کی وجہ سے نہیں ہے ۔
داڑھی اور لباس کے ضمن میں کہاجاتا ہے کہ تم جس قوم کی مشابہت اختیار کروگے تمہارا شمار اسی میں ہوگا ۔بلاشبہ اسی میں ہونا چاہئے ۔لیکن کس قسم کی مشابہت ،مشابہت فی الظاہر یا فی الباطن ۔یہ حدیث کا محض ایک ٹکڑا ہے ۔پوری حدیث کا ترجمہ یہ ہے ’’ابن عمر کہتے ہیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مجھے تلوار کے ساتھ مبعوث کیا گیا ہے۔کہ میں تلوار کے ساتھ جہاد کروں حتیٰ کہ صرف اللہ، جس کا کوئی شریک نہیں کی عبادت کی جائے۔ میرا رزق میرے نیزے کے تحت رکھا گیا ہے۔ اور جو میری مخالفت کرے گا، اس کے لیے ذلت اور میری ماتحتی لکھ دی ہے، جس نے کسی قوم کی مشابہت کی، وہ ان میں سے ہو گا۔‘‘(سنن ابن ماجہ )اس حدیث میں آپ ؐ فرمارہے کہ مجھے جہاد کا حکم ہوگیا ہے ، اب مجھے مال غنیمت حاصل ہوگا ،جو لوگ میری مخالف ہیں وہ شکست کھائیں گے اور ذلیل ہوں گے اور جو بھی ان کے ساتھ ہوگا اس کا انجام بھی شکست و ذلت پر منتج ہوگا ۔میرا مطلب قطعاً یہ نہیں ہے کہ لمبی داڑھی رکھنا یا ٹخنوں سے اونچا پہننا کوئی غیر مطلوب و غیر مستحسن عمل ہے ،میرا مطلب صرف یہ ہے کہ ان امور کو کسی کے مسلمان ہونے یا نہ ہونے ،یا اس کو تکبیر و اقامت بلکہ امامت سے روکنے یا ان افراد کی طرف نظر اکراہ دیکھنے سے بچنا چاہئے کیوں کہ تقویٰ اور ایمان کا تعلق دل سے ہے ،جسموں اور صورتوں سے نہیںہے ۔
جب ہم کسی عمل کو سنت کہتے ہیں تو اس کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ یہ کام رسول اکرم ﷺ نے کیا ہے ۔بلاشبہ داڑھی رسول اکر م ؐنے رکھی ہے ۔ اس لیے اس کا رکھنا سنت ہے ۔عین ثواب کا کام ہے ۔ لیکن صرف یہی سنت کیوں ؟آپ ؐ کے مثل دسترخوان کیوں سنت نہیں جہاں ایک ساتھ دو سالن جمع کرنے کوناپسند فرمایاگیا ہے ۔پھر سفر میں اونٹ اور گھوڑے کے علاوہ باقی ذرائع کا استعمال کیوں ناجائز نہیں ؟پھر یہ لین دین اور امور تجارت میں جدید ذرائع کا استعمال کس طرح خلاف سنت نہیں ہے ؟بس ہمارے علماء دین کو داڑھی ،کرتے ،پائجامے کی پیمائش میں ہی سنتوں کا خیال رہتا ہے ۔ جس زکاۃ کا بڑا حصہ وہ حیلہ تملیک سے ڈکار جاتے ہیں اس کے بارے میں ان کا کیا خیال ہے ؟جس چندہ خوری میں وہ کمیشن لیتے ہیں وہ کس حدیث رسول سے ثابت ہے ؟تراویح کے نذرانہ کے طور پر بڑی بڑی رقموں کا مطالبہ ،نکاح خوانی کے عوض ہزاروں روپے لینا کس کی سنت ہے ؟ جان بوجھ کر حلالہ جیسی ملعون رسم کی ادائیگی کیا کسی عالم و امام کے بغیر مکمل ہوتی ہے ؟ایک رات کا نکاح کون پڑھاتا ہے ؟حقیقت یہ ہے کہ دین پر اپنی اجارہ داری قائم رکھنے اور عوام کو مرعوب و گنہگار ٹھہرانے کی یہ ایک منصوبہ بند سازش ہے ۔جس طرح اہل ہنود کے علماء نے وید کو سمجھنے سے روک دیا اسی طرح علماء اہل اسلام نے قرآن کو سمجھ کر پڑھنے پر پابندی لگا دی ۔انھوں نے دنیا میں روحانی قیادت اور آخرت میں نجات کا ٹھیکہ اللہ تعالیٰ سے اپنے نام کرالیا ہے ۔ علماء کی دعوت کیجیے ، دست بوسی فرمائیے ،موٹا چندہ دیجیے اور مست رہئے۔ آپ چاہیں نماز نہ پڑھیں ،روزے نہ رکھیں ،تجارت میں دھوکا دیں ،سودی لین دین کریں ،اسلام دشمنوں کی پارٹی میں رہیں،آپ سچے مسلمان ہیں اس لیے کہ آپ شیخ صاحب کے عقیدت مند ہیں ۔
جس قدر زور ان امور پر دیا جارہا ہے اتنا زور ہم انسان کے اخلاق پر ،اس کی حلال کمائی پر ،اس کے والدین و اعزہ کے حقوق ادا کرنے پر نہیں دیتے ۔لوگ کھلے عام گالیاں دیتے ہیں ،چغلی اور غیبت کرتے ہیں ،جھوٹ بولتے ہیں ،وعدوں کو وفا نہیں کرتے ،لیکن ہم ایسے لوگوں کو تکبیر و اقامت سے نہیں روکتے اس لیے کہ ان کا ظاہر ہمارے مسلک کے مطابق ہے ،جب کہ ان میں سے ہر گناہ کے لیے قرآن و احادیث میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں ۔
جس معاشرے میں والدین کا احترام نہ ہو ،جہاں اکرام انسانیت مفقود ہو ،جہاں پڑوسی بھوکا ہو،جہاں مسلمان کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان ہی محفوظ نہ ہوں ،جہاں ارتداد سرہانے کھڑا ہو وہاں ہم ایک ایسی سنت پر لوگوں کو اقامت و اذان اور دیگر امور شرعی انجام دینے سے روک دیتے ہیں جس کی حیثیت اسلام میں شعائر و شناخت کی ہے، مناسب نہیں ہے ۔
میری رائے ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ؐکے ہر حکم کو اس کے پس منظر میں رکھ کر سمجھا جائے ۔داڑھی ایک مسنون عمل ہے ۔مردوں کو داڑھی دی ہی اسی لیے گئی ہے کہ رکھی جائے ۔مقدار کا تعین جب شارع نے نہیں کیا ہے تو آپ اپنے قیاس کے گھوڑے کیوں دوڑاتے ہیں ۔ آپ کی انھیں بے جا پابندیوں کی وجہ سے ایک بڑی تعداد چھوٹی داڑھی رکھنے کی سعادت سے بھی محروم ہے ۔ داڑھی اسلام کا ہزارواں رکن ہوسکتا ہے مگر مکمل اسلام نہیں ۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS