سماج اورسسٹم کی بے حسی

0

ایک بار پھر ملک میں انسانیت شرمسار ہوئی۔ اترپردیش اور بہار میں دل کو جھنجھوڑ دینے والے 2واقعات رونما ہوئے۔ جن کی نہ تاویل کی جاسکتی ہے اورنہ لیپاپوتی بلکہ ان پر جتنا بھی افسوس کیا جائے اورشرمندہ ہواجائے کم ہے۔ سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ملک میں اس طرح کے کتنے واقعات رونما ہوچکے ہیں اورجس طرح کا سسٹم ہے ، آگے بھی ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ ہم واقعات سے سبق حاصل نہیں کرتے اوراس کے مطابق خود کو اور سماج کو ڈھالنے یا سسٹم کوبدلنے کے بجائے کچھ دنوں بعد ان کو بھول جاتے ہیں۔جب کوئی نیا واقعہ پیش آتا ہے تب ہی پرانے کی یاد تازہ ہوتی ہے، لیکن دل ودماغ اورذہن پر کوئی اثر مرتب نہیں ہوتا۔بہار کے کٹیہار اوراترپردیش کے پریاگ راج میں انسانیت کو شرمسار کرنے والے جو2اندوہناک واقعات پیش آئے ، ان کو نہ نظر انداز کیا جاسکتا ہے اورنہ ان پر پردہ ڈالا جاسکتا ہے۔ وہ واقعات صرف متاثرہ کنبہ کی لاچاری کو نہیں بیان کرتے بلکہ ان سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارا سماج کتنا بے حس اور سسٹم کتنا خراب ہوچکا ہے کہ ایسے واقعات کا کوئی اثر مرتب نہیں ہوتا۔ غور طلب امرہے کہ دونوں رپورٹیں ایک ہی دن کے فرق سے ہفتہ اوراتوار کو آئیں ۔
پہلا واقعہ پریاگ راج کا ہے جہاں ایک پرائیوٹ اسپتال نے علاج کیلئے مطلوبہ 5 لاکھ روپے جمع نہ کرنے پر 3سال کی معصوم بیٹی خوشی کو آپریشن کے دوران ہی چیرے ہوئے پیٹ پر ٹانکہ لگائے بغیر والدین کو سونپ دیا اورجبراً اسپتال سے باہر نکال دیا ۔ معصوم کے والد مکیش مشرا نے اسپتال انتظامیہ سے بہت التجا کی اور گڑگڑائے کہ تقریباً 2لاکھ روپے جمع کردیے ہیں، باقی کا انتظام کررہے ہیں لیکن اسپتال انتظامیہ نے ایک نہیں سنی۔لاچار باپ معصوم بچی کو لے کر کئی اوراسپتال گئے لیکن کسی نے ایڈمٹ نہیں کیا۔ اس دوران پھٹے پیٹ کے ساتھ علاج نہ ہونے سے بچی کی حالت بگڑتی چلی گئی اورآخر کار اس کی موت ہوگئی۔ جاتے جاتے معصوم نے بہت سارے سوالات سماج اورسسٹم کیلئے چھوڑ دیا ۔ موت کے بعد جب باپ نے ڈاکٹروں کے خلاف شکایت درج کرائی تو سسٹم حرکت میں آیا اورضلع مجسٹریٹ نے اس غیر انسانی سلوک کی جانچ اورسخت کارروائی کی ہدایت دی ۔قومی کمیشن برائے حقوق اطفال نے بھی اس کا نوٹس لیتے ہوئے رپورٹ طلب کی۔ اس واقعہ کو لوگ بھولے بھی نہیں تھے کہ دوسرے دن ہی کٹیہار میں ایک مجبور باپ کو اپنے 13 سالہ بیٹے کی لاش ایک کٹے میں رکھ کر 3کلومیٹر پیدل چلنا پڑا،جو کشتی سے گر کر ڈوب گیا تھا اورکئی دنوں بعد اس کی لاش بے حد گلی سڑی حالت میں ملی تھی۔ گمشدگی کی رپورٹ درج کرانے اورلاش برآمد ہونے کے باوجود پولیس نے لاش کو قبضہ میں لے کر پوسٹ مارٹم کرانے میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیںکی۔بلکہ 2-2 تھانے کی پولیس لاش دیکھ کر وہاں سے چلی گئی۔بڑی بات یہ ہے کہ مجبور باپ کٹے میں لاش رکھ کرقریبی تھانے پہنچے تو شنوائی نہیں ہوئی ۔ اس کے ساتھ ہمدردی کا مظاہرہ بھی نہیں کیا گیا اور لاش لے جانے کیلئے گاڑی تک فراہم نہیں کی گئی ۔ باپ کو پوسٹ مارٹم کیلئے لاش پہنچانی پڑی۔یہاں بھی جب معاملہ خبروں میں آیا،پولیس پر سوالات اٹھنے لگے تو اعلیٰ افسروں نے کچھ حرکت دکھائی اورکہا کہ جن پولیس اہلکاروں نے لاپروائی برتی، ان کی جانچ کی جارہی ہے اوران کے خلاف کارروائی کی جائے گی ۔
سوال یہ پیداہوتا ہے کہ ہم کس انسانی بستی میں رہتے ہیں ؟کس سماج کا حصہ ہیں؟اورہمارے ملک کا سسٹم کیساہے ؟جہاں ملک میں کروڑ پتیوں کی تعداد بڑھنے پر فخر کیا جاتا ہے اورغریب اپنا علاج تک کرانے سے قاصر ہیں ۔ پیسے کی کمی کی وجہ سے پیسوں کی تنگی کے باعث ان کی موت ہورہی ہے۔موت تو موت غریبوں کو لاش تک لے جانے کیلئے سسٹم اورنہ سماج کی طرف سے گاڑی تک نہیں مل پاتی ہے اورکنبہ غیر انسانی طریقے سے لاش لیجانے پر مجبور ہوجاتا ہے ۔انتظامیہ اس وقت حرکت میں آتی ہے جب سب کچھ ختم ہوجاتا ہے ۔آگے ایسا نہ ہو ، اس کا بھی انتظام نہیں کیا جاتا۔نہ مذکورہ واقعات نئے ہیں اورنہ سماج اورسسٹم کی بے حسی اور غیر انسانی برتائو۔کچھ بھی بدلا نہیں ہے جس کو بدلنے کی اشد ضرورت ہے ۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS