میں آئندہ سال اسمبلی انتخابات ہونے ہیں اور اس سے پہلے بی جے پی کے خیمے میں ہورہی ہلچل کو دیکھ کر جو لوگ حیران وپریشان ہورہے ہیں وہ یا تو بی جے پی کے طریق کار سے واقف نہیں ہے یا پھر ملک کی سیاست میں اترپردیش کی حیثیت کو نظر انداز کررہے ہیں۔الیکشن کو جمہوریت کا تہوار کہا جاتا ہے لیکن اس میں شراکت داری سے متعلق سے اگر ملک کی کسی ایک پارٹی میں جوش وخروش دکھائی دیتا ہے تو وہ بی جے پی ہی ہے۔حکومت سے لے کر تنظیم تک ،ریاست سے لے کر مرکز تک اور کارکنوں سے لے کر قیادت تک الیکشن میں سب کی حصہ داری کو بی جے پی میں ذمہ داری کے طور پر دیکھا جاتاہے۔جنو ب کی ریاستوں میں بھی جہاں بی جے پی کے لئے دائو پر زیادہ کچھ نہیں رہتا، وہاں بھی الیکشن سے قبل ویسی ہی ہلچل عام ہے، جیسی ان دنوں اترپردیش میں دیکھی جارہی ہے ۔
اس کے باوجود یہ بھی صحیح بات ہے کہ اترپردیش میں الیکشن جیتنے کی بی جے پی کسرت میں اس بار یقینا اور بھی کچھ ایسے ’آسن‘دیکھنے کو مل رہے ہیں جو پہلے نہیں دیکھے گئے ۔ الیکشن کا جوش اپنی جگہ ہے لیکن اس بار اس میں بے چینی کا کچھ جزو بھی ہے اور بی جے پی کی پریشانی یہ ہے کہ لاکھ چھپانے کے باوجود اس کا احساس صرف اپوزیشن کو ہی نہیں ، ملک بھر کے تجزیہ کاروں سے لے کر ریاست کے عوام کو بھی ہو رہا ہے۔ سوال اٹھ رہے ہیں کہ پچھلے کچھ دنوں میں آخر ایسا کیا ہو گیا جس نے صوبہ میں دوبارہ سرکار بنانے کے معاملہ میں پر اعتماد دکھائی دینے والی بی جے پی کے بھروسے میں سیندھ لگانے کا کام کیا ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ ایسے تمام سوال واجب ہیں یا پھر یہ صرف بی جے پی کی انتخابی مہم کو متاثر کرنے والی محض سیاسی قیاس آرائی ہے۔ اس شبہ کی وجہ یہ ہے کہ بی جے پی نے صرف 7 مہینے قبل ہی 7 سیٹوں پر ہوئے ضمنی الیکشن میں 6 سیٹیں جیتی ہیں۔ پھر اس کے پاس ریاست کے کونے کونے میں موجود مضبوط تنظیم اور یوگی آدتیہ ناتھ جیسی بااثر قیادت ہے جن کے قد کا دوسرا کوئی لیڈر فی الحال ریاست میں دکھائی نہیں دیتا۔ پھر بے چینی کی آخر کیا وجہ ہو سکتی ہے؟
بی جے پی میں دکھ رہی بے چینی کی ایک وجہ یہ احساس بھی ہو سکتا ہے کہ سیاسی زمین دوبارہ پختہ کرنے کے لیے سرکار اور تنظیم کے پاس اب زیادہ وقت نہیں ہے۔ الیکشن میں اب صرف 8مہینے کا وقت بچا ہے۔ سرکار کے لیے یہ راحت کی بات ہو سکتی ہے کہ پنچایت الیکشن میں امید سے کم تر کارکردگی کے باوجود بی جے پی کو اپوزیشن سے بھی سخت چنوتی ملتی نہیں دکھ رہی۔ اگر سماجوادی پارٹی، راشٹریہ لوک دل اور آزاد سماج پارٹی کے ساتھ اتحاد بھی کر لیتی ہے، تو اس کا اثر مغربی اترپردیش سے باہر شاید ہی دکھے۔
یوگی آدتیہ ناتھ کے دہلی دورے اور وہاں ان کی وزیراعظم سے لے کر وزیر داخلہ اور پارٹی صدر سے ہوئی ملاقاتوں پر خوب مباحثہ ہوا۔ حامیوں سے لے کر ناقدین تک نے ان ملاقاتو ں کا اپنی اپنی جانکاری اور سمجھ کے مطابق تجزیہ کیا۔ گجرات کے سابق نوکر شاہ اروند شرما کی سیاست میں انٹری اور اچانک انہیں اترپردیش بھیجے جانے کے فیصلے کے بھی کئی پوشیدہ مطلب نکالے گئے ہیں۔ گزشتہ جیت کے وقت پارٹی صدر رہے اور فی الحال ڈپٹی سی ایم کی ذمہ داری سنبھال رہے کیشو پرساد موریہ کے متعلق سے بھی سیاسی قیاس آرائیاں مسلسل چل رہی ہیں لیکن یہ سب اس پرسپشن کا کھیل ہے جس کی سیاست کے گلیاروں میں ہمیشہ گنجائش رہتی ہے۔
رہا سوال اینٹی انکم بنسی کا، تو ملک کی کوئی بھی سرکار اس سے اچھوتی نہیں رہ سکتی۔ پھر آبادی اور رقبے کی اپنی وسعت کے سبب سرکار کوئی بھی ہو، اترپردیش میں اس کا چیلنج بھی ہمیشہ سے بڑا رہتاہے۔ موجودہ سرکارکو اس کے ساتھ ہی کام کاج میںافسر شاہی کا بڑھتا دخل اور برہمن ووٹروں کی مبینہ ناراضگی جیسے سوالوں کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔ ان سب کے درمیان کسان تحریک اور کورونا وبا کے خوف و ہراس نے بھی یقیناسرکار کے خلاف ماحول بنانے کا کام کیا ہے۔ پنچایت الیکشن کے نتائج کو بھی اس سے جوڑ کر دیکھا گیا، حالانکہ وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے ریاست میں اپنی سرگرمی بڑھا کر اور سرکار نے بھی کچھ اچھے فیصلوں سے کورونا پر جس طرح قابو پایا ہے، اس نے سرکار سے ناراضگی کو کافی حد تک دور کر دیا ہے۔ وہیں جتن پرساد کو ساتھ لاکر برہمن ووٹروں کو ایک بار پھر پارٹی سے جوڑنے کی کوشش شروع کی گئی ہے۔ اسی طرح کسان تحریک کی کاٹ کے لیے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کو آگے کیا گیا۔
ان تمام واقعات کے درمیان راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سرکاریہ واہ دتا تریہ ہوسبولے کا لکھنؤ دورہ بھی اہم مانا جا رہا ہے۔ حالانکہ سنگھ کے سرکاریہ واہ کے پروگرام کئی ماہ قبل طے ہوجاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ ان کا فوری سیاسی واقعات سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔ بے شک سنگھ کی نظر میں ہوسبولے کا پروگرام عام بات ہو سکتی ہے۔ لیکن اترپردیش جیسی اہم ریاست اور وہاں کے گرم انتخابی ماحول میں اس دورے کی سیاسی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ وہ اس لیے بھی کہ لکھنؤ آنے سے ٹھیک پہلے ہوسبولے دہلی میں اقتدار اور بی جے پی تنظیم کی اعلیٰ قیادت سے مل چکے تھے۔ بی جے پی کے انتخابی پروگرام پر سنگھ کی کتنی بڑی سیاسی چھاپ ہوتی ہے، یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ لکھنؤ میں 2دن کے قیام کے دوران ہوسبولے بھلے ہی کسی سیاسی فرد سے نہ ملے ہوں، لیکن ایسی خبر یں ہیں انہوں نے کورونا کے ساتھ ہی سرکار کے کام کاج کا بھی فیڈ بیک لیا ہے۔ ایسے میں یہ مان لینا بے جواز نہیں ہوگا کہ اترپردیش میں الیکشن کی کمان سنگھ نے ایک طرح سے اپنے ہاتھ میں لے لی ہے اور آنے والے دنوں میں سنگھ اقتدار اور تنظیم ہی نہیں، لکھنؤ اور دہلی کے درمیان بھی پل کے کردار میں دکھائی دے گا۔ اس کا ایک نمونہ اگلے ماہ چترکوٹ میں سنگھ کی ریاستی پرچارک میٹنگ میں دیکھنے کو مل سکتا ہے۔ جہاں سنگھ سربراہ موہن بھاگوت اور دیگر اعلیٰ عہدیداروں کی موجودگی میں اترپردیش کے الیکشن پر بھی غور وخوض ہوگا۔
بی جے پی میں دکھ رہی بے چینی کی ایک وجہ یہ احساس بھی ہو سکتا ہے کہ سیاسی زمین دوبارہ پختہ کرنے کے لیے سرکار اور تنظیم کے پاس اب زیادہ وقت نہیں ہے۔ الیکشن میں اب صرف 8مہینے کا وقت بچا ہے اور سرکار کی سطح پر ماحول کو اپنے حق میں کرنے کے لیے دسمبر تک ہی کوئی بڑا کام کاج کیا جا سکتا ہے کیونکہ پھر الیکشن کے اعلان کا وقت آ جائے گا اور ضابطہ اخلاف نافذ ہو جائے گا۔ ویسے سرکار کے لیے یہ راحت کی بات ہو سکتی ہے کہ پنچایت الیکشن میں امید سے کم تر کارکردگی کے باوجود بی جے پی کو اپوزیشن سے بھی سخت چنوتی ملتی نہیں دکھ رہی۔ اگر سماجوادی پارٹی، راشٹریہ لوک دل اور آزاد سماج پارٹی کے ساتھ اتحاد بھی کر لیتی ہے، تو اس کا اثر مغربی اترپردیش سے باہر بھی دکھائی دے گا، اس میں شبہ ہے۔ یوگی راج میں بہوجن سماج پارٹی او رکانگریس مسلسل حاشیے پر پہنچ چکی ہیں اور ایسا امکان نظرنہیںآ رہا ہے کہ وہ بی جے پی کو کوئی سخت چیلنج دے پائیں گی۔
لیکن مغربی بنگال میں ہار کے بعد بی جے پی اب الرٹ موڈ پر ہے۔ یہ بات بھی صحیح ہے کہ اگر اترپردیش میں نتائج اس کے حق میں نہیں آئے تو اس کا اثر 2024 میں بھی دکھائی دے سکتا ہے۔ ویسے بھی یہ بڑا پرانا تجربہ ہے کہ دہلی کی گدی کی راہ اترپردیش سے ہو کر ہی نکلتی ہے۔ پچھلے 2الیکشن میں تو یہ بات اور بھی مضبوطی سے سامنے آئی ہے۔ اتر پردیش میں شاندار کارکردگی کے سبب ہی این ڈی اے سال 2014 اور 2019 میں مسلسل 2 بار 300 سے زائد کے خواب کو سچ کر پایا ہے۔ ایسے میں دہلی میں ہیٹرک کے لیے لکھنؤ میں جیت کی ’ٹرک‘ اختیارکرنا بھی ضروری ہوگا۔
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)