انور جلال پوری کا پیغام۔۔۔انسانیت کے نام

0

ڈاکٹر سید محمد حسان نگرامی

یہ ایک اتفاق رہا کہ ہم نے انور جلال پوری مرحوم کو بس ایک بڑے پائے کے ناظم مشاعرہ کی حیثیت سے زیادہ دیکھا اور سنا اور یہ فطری عمل ہے جس طرح انہوںنے ملک زادہ منظور کے بعد مشاعروں کو نیارخ دینے کی عملی جدو جہد کا مظاہرہ کیا، اس وجہ سے ان کے بغیر مشاعرے نہ صرف بے جان لگتے تھے بلکہ اکثر لوگ مشاعروں سے کم اور ان کی نظامت سے لطف اندوز ہونے میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے حالانکہ سچائی یہ ہے کہ وہ ادب کے بڑے شاعر تھے اور مشاعروں کے شہنشاہ بھی۔ وہ تنہا ادیب،شاعر،نثر نگار،سوانح نویس، تنقید نگار،مترجم اور بے باک مبصر تھے جنہیںکسی مخصوص خانہ یا زاویے میں تقسیم کرکے دیکھنا ان کے ساتھ اور اردو ادب کے ساتھ حسن سلوک نہیں کہا جا سکتا۔
ان تمام اوصاف و کمالات کے ساتھ انسانیت ان کی انسانی دوستی، محبت اور اتحاد، قومی یکجہتی، سماج کے دبے کچلے طبقے کی ترجمانی، ظلم و جبر کے خلاف صدائے احتجاج،خود ٹوٹ کر اور بکھر کردوسرے کو بنانے اور سنوارنے کا جذبہ عمل،سود و زبان کی پروا کیے بغیر بے لوث خدمات اور ایثار کی تبلیغ اس طرح کے اوربہت سے عنوانات ان کی شخصیت کو با کمال اورممتاز بناتے ہیں۔ اپنے اس جذبہ کے اظہار کے لیے انہوں نے شاعری کو اپنایا، شخصی تجزیہ کے ذریعہ عمائدین کی قابل اتباع دعوت و نصیحت کو اجاگر کیا اور مشاعروں کی نظامت کو پیشہ ورانہ اور محض لفاظی کے ماحول سے الگ ہٹ کے اسے ایک مشن کی طرح پیش کیا۔ان کی نظامت کو سنئے تو ان کے اندر چھپی اصلاحی تنقید اور انسان دوستی کے تئیں ان کے جذبے کے اظہار کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ان کی نظامت اور شاعری دونوں قومی یکجہتی کا بہترین مثال ہیں ایک مشاعرے میں اختتامی خطبہ دیتے ہوئے انور صاحب کہتے ہیں:
مشاعروں کا تعلق اردو زبان سے ہے۔ یہ زبان قومی ایکتا کی علامت ہے۔یہ زبان اور اس کی شاعری ہندوستان کی جنگ آزادی کا سب سے بڑا اسلحہ رہی ہے۔کروڑوں لوگوں کو نہ سمجھ میں آنے کے باوجود یہ زبان اچھی لگتی ہے اس کا مطلب یہ ہواکہ انسانی فطرت کے حسن سے اس زبان کا ایک جذباتی رشتہ ہے اورمشاعرے اس زبان کے گلدستے کی خوشبو ہیں۔ اس خوشبو کو حاصل کرنے کے لیے قوم کی رنگا رنگیوں کا چہرہ مشاعروں کے ہجوم میں دیکھا جا سکتا ہے شاید اس لیے یہ کہنا قطعی غیر مناسب نہیں ہے کہ مشاعرے قومی یکجہتی کی ضمانت ہیں۔
انور صاحب مشاعروں کی نظامت کے حوالے سے سماج میں پھیلی ان تمام خرابیوں پر بڑی خوبصورتی سے گرفت کرتے نظر آتے ہیں۔
مشاعروں میں بڑھتی تالیوں کی طلب، اور اس کے معیار کے تئیں رو زوال سے وہ بڑے فکرمند تھے درج ذیل تقریر میں ان کی تشویش کو بخوبی محسوس کیا جا سکتا ہے۔
جو نفسیاتی جنگ مجھے لڑنی پڑرہی ہے وہ جسم نہیں احساس میں تھکن پیدا کرتی ہے۔ چوتھائی صدی سے زیادہ عرصے کے مشاعروں کی زندگی میں خلوص کم اور منافقت زیادہ محسوس ہوئی۔غیبت کا بول بالا رہا اور صاف گوئی سر جھکائے بیٹھی رہی۔خود غرضیاں حاوی رہیں اور باہمی تعاون بھی مصلحتوں سے بھرا رہا۔گانے بجانے والوں کی پذیرائی ہوتی رہی۔ با صلاحیت اور خون دل سے شعر لکھنے والے افراد حاشیے پر نظر آئے۔متشاعر اور ناشاعر بھی زرق برق لباسوں میں اسٹیج کی زینت بنے رہے۔اردو سے نا واقفیت اور صحیح تلفظ سے نابلد مترجم خواتین کو بھی مشہور شاعرہ کہہ کر آواز دینی پڑی۔ایک مدت سے ضمیر پر ایسا بوجھ ہے جسے کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔ متشاعروں اور متشاعرات کے کلام کے مجموعے بھی چھپتے رہے اور ستم بالائے ستم یہ کہ ان پر مستند ادیب اور معتبرنقاد اپنی مثبت رائے بھی لکھتے رہے ان تمام مناظر کے چشم دید گواہ رہنے والے شخص کی زندگی کی جنگ کتنی خطرناک ہوگی آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔
انور صاحب کا یہ مشاہدہ موجودہ دور کے مشاعروںکے تالیوں کے طلبگار اور محض ترنم کے سہارے اپنے کو عظیم شاعر بنانے والوں کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے جس کی طرف اگر توجہ نہ دی گئی تو آگے چل کر دیہات میں ہونے والی نو ٹنکیوں اور مشاعروں میں فرق کرنا مشکل ہو جائے گا۔
ان کی شاعری ٹوٹتے، بکھرتے جسم و جاں کی ایک ان کہی داستان ہے لیکن ہم نے کبھی روتے، بلکتے اور واویلا کرتے نہیں دیکھا حالانکہ اس کے لیے انہیںکبھی جھوٹی ہنسی کا سہارا بھی لینا پڑاوہ نا سازگار حالات میںیاسیت کا شکار ہوئے بغیر سامنے کے آدمی کوامید اور جہد مسلسل کی ترغیب دیتے رہے۔
ہم سدا عزم مصمم کا سہارا پیکر
جہل کی ہرکسی زنجیر کو ہم توڑیں گے
دوستو آئو اسی وقت یہ وعدہ کر لیں
ہم کبھی جہد مسلسل سے منہ نہ موڑیں
مخالف ہوائوں، ناسازگار حالات، قید حیات و بندغم کی پریشانیوں،گردش ایام کی تباہ کاریوں،فرداور معاشروں کی بد سلوکیوں، اپنے اور پرایوں کی جانب سے ہوئی بے وفائیوں کا ان کے پاس ایک ہی علاج تھا جسے وہ پیار کرتے تھے اور اسے پیار و محبت کے پیغام کو عام کرنے کے لیے اپنی ساری زندگی وقف کردی تھی۔
ابھی آنکھوں کی شمعیں جل رہی ہیں پیار زندہ ہے
ابھی مایوس مت ہونا ابھی دل بیمار زندہ ہے
کتنا سکھ ملتا ہے معلوم نہیں ہے تم کو
تم دشمن کو کلیجے سے لگاکر دیکھو
یہ صرف انور جلال پوری کا کلیجہ تھا جو سب کچھ دیکھتے سنتے اور سمجھتے ہوئے بھی کہتے تھے:
تم پیار کی سوغات لیے گھر سے تو نکلو
رستہ میں تمھیں کوئی دشمن نہ ملے گا
سماج میں ٹوٹتے دلوں کو جوڑنے اور اپنے کو ہمیشہ محبت کا علمبردار ثابت کرنے کا سلسلہ آخر ی دم تک جاری رہا۔
ہم کاشی کعبہ کے راہی ہم کیا جانیں جھگڑا بابا
اپنے دل میں سب کی الفت اپنا سب سے رشتہ بابا
پیار ہی اپنا دین دھرم ہے پیار خدا پیار صنم ہے
دونوں ہی اللہ کے گھر ہیں مسجد ہو کہ شوالہ بابا
نفرت کو وہ سماج کی سب سے خراب شے سمجھتے تھے ان کا کہنا تھا۔
پیار کی شبنم ہر آیت میںپریم کا امرت ہر شلوک
پھر کیوں انسان خون کا پیاسا میں بھی سوچوں تو بھی سوچ
ایک خدا کے سب بندے ہیںایک آدم کی سب اولاد
تیرا میرا خون کا رشتہ میں بھی سوچوں تو بھی سوچ
اس کے علاوہ اپنے متعدد اشعار کے ذریعہ انور بھائی اخوت اور باہمی تعاون، خودی اور خود داری، دیانتداری اور وضع داری، خوف خدا کے ساتھ بندوں کے احترام، غریبوں، ضرورت مندوں،ہمدردی، اسلاف کے ورثہ کی حفاظت،شاندار ماضی پر فخر اور تابناک مستقبل کے لیے جد وجہد، صاف گوئی کی تلقین اور منافقت اور منافقوں سے دور رہنے کی نصیحت، اور سب سے اہم بات کی خدا کی قدرت اور اس پر ایمان و توکل کے ذریعہ دنیا و آخرت کی کامیابی پر گامزن رہنے کی تبلیغ بڑے منفرد اور موثر انداز میں ملتی ہے بلا شبہ ان پر عمل پیرا ہو کر اک اچھے انسان، وفادارمحبت وطن اور با عمل مسلمان بن کر انسانیت کے لیے اک خوبصورت نمونہ عمل پیش کر سکتے ہیں۔
بطورنمونہ چند اشعار پیش خدمت ہیں:
جو اپنی خوش لباسی پر ہیں نازاں
حقیقت میں وہی ننگے بہت ہیں
جو مذہب اوڑھ کر بازار نکلیں
ہمیشہ ان اداکاروں سے بچنا
دل کسی کا ہو مقدس ہے حرم کی مانند
اس عمارت کو گرانے کی سزا پائو گے
………
کبھی پھولوں کبھی خاروں سے بچنا
کبھی مشکوک کرداروں سے بچنا
کوئی گرتی ہوئی دیوار دیکھو اور پھر سوچو
کسی مجبور کا کیسے سہارا ختم ہوتا ہے
بے ثبات دنیا میں ہر غرور چھوٹا ہے ہرانا ہے بے قیمت
وقت خود بتا دے گا کون کتنا گہرا ہے کس میں کتنا پانی ہے
آج کی حسیں صورت کل بگڑ بھی سکتی ہے
آنکھ میںکبھی کا جل دیر کرنہیں رہتا
لگنے لگے کا تجھ کو ہمارا بھی قد بلند
اپنی انا کے خول سے باہر نکل کر دیکھ
اور آخری پیغام جوبر حق ہے اس سے انکار ممکن نہیں
نہ یہ دن یہ رات باقی رہے گی
بس اللہ کی ذات باقی رہے گی
نہ گردش میں صدیوں زمانہ رہے گا
سدا تو کسی کا نہ سکہ چلے گا
ہمیشہ نہ کوئی جنازہ اٹھے گا
نہ خوشیوں کی برسات باقی رہے گی
بس اللہ کی ذات باقی رہے گی
اڑے گی فلک پر جو چادر تنی ہے
پھٹے گی زمین جس کا دل آہنی ہے
نہ رہ پائے گی جو بھی محفل سجی ہے
نہ بزم خیالات باقی رہے گی
بس اللہ کی ذات باقی رہے گی

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS