امیگریشن اینڈ فارن نیشنلز ترمیمی بل 2025 کا لوک سبھا میں پیش کیا جانا، صرف ایک قانونی معاملہ نہیں بلکہ یہ ایک سیاسی اور نظریاتی تصادم کی علامت ہے۔ اس بل کے ذریعے حکومت نے نہ صرف امیگریشن قوانین کو مزید سخت کرنے کی کوشش کی ہے بلکہ اس کے پردے میں ایک مخصوص ایجنڈے کی تکمیل کا ارادہ بھی ظاہر ہوتا ہے۔ یہ بل ایک ایسے وقت میں پیش کیا گیا ہے جب ملک میں سیاسی درجہ حرارت اپنے عروج پر ہے اور اگلے برس اہم ریاستوں میں انتخابات منعقد ہونے والے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس بل کی مخالفت میں حزب اختلاف کی جانب سے شدید احتجاج دیکھنے میں آیا۔
یہ بل ایک ایسے وقت میں آیا جب حکومت پہلے ہی شہریت ترمیمی قانون(CAA) اور قومی شہریت رجسٹر(NRC) جیسے متنازع قوانین کے ذریعے امتیازی پالیسیوں کو فروغ دے رہی ہے۔ اس بل کے ذریعے حکومت نے غیر ملکی شہریوں کے داخلے،قیام اور ملک بدری کے معاملات پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی کوشش کی ہے۔ بظاہر، حکومت کا موقف یہ ہے کہ یہ قانون ملک کی سلامتی کو مدنظر رکھتے ہوئے وضع کیا گیا ہے،مگر درحقیقت اس میں کئی ایسی دفعات شامل کی گئی ہیں جو بنیادی حقوق اور آئینی آزادیوں پر براہ راست حملہ کرتی ہیں۔
اس بل کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اس میں حکومتی ایجنسیوں کو لامحدود اختیارات دیے گئے ہیں،جن کے ذریعے کسی بھی شخص کو بغیر کسی وارنٹ کے گرفتار کیا جا سکتا ہے اور اس کی ملک بدری ممکن ہوسکتی ہے۔ مزید برآں، تمام تعلیمی اداروں، اسپتالوں اور نجی رہائش گاہوں کو اس امر کا پابند بنایا گیا ہے کہ وہ اپنے زیر کفالت غیر ملکی شہریوں کی تفصیلات باقاعدگی سے حکومت کو فراہم کریں۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ حکومت کسی بھی غیر ملکی شہری کی نقل و حرکت اور سرگرمیوں کو سخت نگرانی میں رکھنا چاہتی ہے۔
اس بل کو پیش کرنے کا وقت خود ہی حکومت کی بدنیتی کو عیاں کرتا ہے۔ آسام،بہار اور مغربی بنگال جیسی ریاستوں میں ہونے والے انتخابات کے پیش نظر، بی جے پی نے ہمیشہ کی طرح ایک ایسا مسئلہ چھیڑ دیا ہے جو عوام کو مذہب اور قومیت کی بنیاد پر تقسیم کرسکے۔ حزب اختلاف کی جماعتوں نے درست نشاندہی کی ہے کہ اس بل کا بنیادی مقصد بنگلہ دیشی نژاد مسلمانوں کو نشانہ بنانا ہے تاکہ ہندو ووٹروں کو متحد کیا جا سکے۔ یہ بالکل اسی طرز کی پالیسی ہے جو بی جے پی نے ماضی میں سی اے اے اور این آر سی کے نفاذ کے دوران اپنائی تھی۔
اگر واقعی حکومت کو قومی سلامتی کی فکر لاحق تھی تو اسے ایک ایسا متوازن قانون متعارف کروانا چاہیے تھا جو امیگریشن کے مسائل کو مؤثر اور منصفانہ طریقے سے حل کرتا۔ لیکن اس کے برعکس، حکومت نے ایک ایسا بل پیش کیا ہے جو محض ایک خاص طبقے کو نشانہ بناتا ہے اور ریاستی اداروں کو جابرانہ اختیارات عطا کرتا ہے۔ یہ اس حقیقت کو ثابت کرتا ہے کہ بی جے پی کی قیادت میں موجودہ حکومت جمہوریت اور آئینی حقوق کی دشمن بن چکی ہے۔
کانگریس کے رکن پارلیمنٹ منیش تیواری نے بجا طور پر اس بل کی شدید مخالفت کرتے ہوئے اسے آئین کی صریح خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ ان کا موقف یہ ہے کہ یہ بل حکومت کو غیرمعمولی اختیارات فراہم کرتا ہے جس سے بنیادی انسانی حقوق پامال ہونے کا اندیشہ ہے۔ ترنمول کانگریس کے سوگتا رائے نے بھی اس بل کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے اسے ایک جابرانہ قانون سے تعبیر کیا ہے۔
حزب اختلاف کی سب سے بڑی شکایت یہ ہے کہ اس بل پر مناسب بحث و مباحثہ نہیں ہوا اور اسے جلد بازی میں پیش کر دیا گیا۔ درحقیقت،اگر حکومت واقعی امیگریشن کے مسائل کو حل کرنا چاہتی تھی تو اسے اس بل کو مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (JPC) کے سپرد کرنا چاہیے تھا تاکہ تمام جماعتوں کی آرا کو شامل کیا جا سکتا۔ مگر چونکہ حکومت کا اصل مقصد قومی سلامتی نہیں بلکہ سیاسی فائدہ اٹھانا ہے،اس لیے اس نے اپنی اکثریت کے زور پر یہ بل پیش کر دیا۔
یہ کوئی نئی بات نہیں کہ مودی حکومت قومی سلامتی کے نام پر جابرانہ قوانین متعارف کرواتی رہی ہے۔ ماضی میں یو اے پی اے (UAPA) اور این آئی اے (NIA) جیسے قوانین کے ذریعے بھی حکومت نے اپنے اختیارات میں بے تحاشہ اضافہ کیا تھا۔ اس بل میں بھی یہی رویہ اپنایا گیا ہے کہ قومی سلامتی کے بہانے شہری آزادیوں کو محدود کر دیا جائے۔ اگر اس قانون پر فوری نظرثانی نہ کی گئی تو آنے والے دنوں میں یہ حکومت کے لیے ایک نیا ہتھیار بن جائے گا جس کے ذریعے وہ مخالفین کو خاموش کر سکتی ہے۔
یہ بل نہ صرف غیر ملکی شہریوں کے حقوق پر ضرب لگاتا ہے بلکہ ہندوستانی جمہوریت پر بھی سوالیہ نشان لگا دیتا ہے۔ جب ریاست کے پاس غیر محدود اختیارات آ جائیں اور ان پر کوئی مؤثر نگرانی موجود نہ ہوتو یہ اختیارات جلد یا بدیر سیاسی انتقام کیلئے استعمال ہونے لگتے ہیں۔
اگر اس بل کو فوری طور پر رد نہیں کیا گیا یا اس میں ضروری ترامیم نہ کی گئیں تو یہ ہندوستان کی جمہوری تاریخ میں ایک سیاہ باب کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ اپوزیشن کیلئے یہ ایک سنہری موقع ہے کہ وہ عوام کو اس جابرانہ قانون کے خلاف متحد کرے اور ایک مضبوط تحریک کھڑی کرے۔ بصورت دیگر،مستقبل میں ایسے مزید قوانین سامنے آئیں گے جو شہری آزادیوں کو مزید محدود کر دیں گے اور ہندوستان کو ایک جمہوری ریاست سے آمرانہ حکومت میں تبدیل کر دیں گے۔