ایک اور نیا ’ عذاب‘

0

گزشتہ کچھ برسوں میں دنیا بھر میں متعدد نئے وائرس کے بارے میں خبریں گردش کرتی رہی ہیں جنہوں نے انسانی زندگی پر گہرے اثرات ڈالے ہیں۔ کورونا وائرس کی خوفناک وبا کے بعد، انسانی میٹا پنیوم وائرس (HMPV) کا ابھرنا ایک اور اہم چیلنج کے طور پر سامنے آیا ہے۔ ہندوستان میں اس وائرس کے کچھ کیسز رپورٹ ہونے کے بعد احتیاطی تدابیر کی ضرورت شدت اختیار کر چکی ہے۔HMPV پہلی بار 2001 میں دریافت ہوا اور یہ ایک سانس کی بیماری پیدا کرنے والا وائرس ہے جو فلو جیسی علامات کا باعث بنتا ہے۔ اگرچہ یہ وائرس کسی بھی عمر کے افراد کو متاثر کر سکتا ہے،لیکن خاص طور پر پانچ سال سے کم عمر کے بچے،بزرگ اور وہ افراد جن کا مدافعتی نظام کمزور ہوتا ہے،زیادہ خطرے میں ہوتے ہیں۔ ہندوستان میں حالیہ دنوں میں اس وائرس کے کچھ کیسز مختلف شہروں جیسے بنگلورو،احمدآباد، چنئی،سیلم اور ناگپور میں رپورٹ کیے گئے ہیں۔ حالیہ واقعات نے سرکاری و غیر سرکاری صحت کے اداروں کو متحرک کر دیا ہے اور انفیکشن کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے ضروری اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔

کورونا کی طرح ہی یہ وائرس بھی عام طور پر کھانسی،چھینک اور متاثرہ افراد کے قریبی رابطے سے پھیلتا ہے اور اس کی علامات میں بخار،گلے کی خراش،کھانسی،ناک بند ہونا اور سانس لینے میں دشواری شامل ہیں۔ بعض صورتوں میں یہ انفیکشن برونکائٹس یا نمونیا کی شکل اختیار کر سکتا ہے،جو خاص طور پر بچوں اور کمزور مدافعتی نظام والے افراد کیلئے مہلک ہو سکتا ہے۔ HMPV کے خلاف کوئی ویکسین یا مخصوص اینٹی وائرل دوا دستیاب نہیں ہے اور اس کا علاج زیادہ تر علامات کو کنٹرول کرنے پر مبنی ہے۔

چین میں اس وائرس کی حالیہ لہر نے دنیا بھر میں تشویش پیدا کر دی ہے۔ وہاں اسپتالوں میں مریضوں کا ہجوم اور نظام صحت پر بڑھتا ہوا دباؤ واضح کرتا ہے کہ اس وائرس کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق،اکتوبر سے اس وائرس کے کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے۔ چین کے سرکاری ذرائع کا دعویٰ ہے کہ یہ موسم کی تبدیلی کا اثر ہے اور عام نزلہ زکام کی طرح ہے،لیکن ماہرین کے مطابق یہ مسئلہ اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہو سکتا ہے۔

ہندوستان میں بھی صحت کے شعبے نے اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیا ہے۔ انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ (ICMR) اور انٹیگریٹڈ ڈیزیز سرویلنس پروگرام (IDSP) کے نیٹ ورک کے ذریعے مسلسل نگرانی کی جا رہی ہے۔ اگرچہ اب تک انفلوئنزا جیسی بیماری یا شدید ٹائیفائیڈ بخار کے کیسز میں کوئی غیر معمولی اضافہ نہیں ہوا ہے،لیکن موجودہ حالات میں مستعدی برقرار رکھنا ضروری ہے۔ وزارت صحت نے ریاستوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنی نگرانی میں اضافہ کریں،عوام میں آگاہی پیدا کریں اور احتیاطی تدابیر اختیار کریں،جیسا کہ کورونا وبا کے دوران کیا گیا تھا۔ ان تدابیر میں صابن اور پانی سے ہاتھ دھونا، کھانسی اور چھینک کے دوران منہ اور ناک کو ڈھانپنااور متاثرہ افراد کے قریب جانے سے گریز شامل ہیں۔

اس وائرس کے حوالے سے ایک اہم بات یہ ہے کہ زیادہ تر کیسز میں یہ معمولی نوعیت کی بیماری کا باعث بنتا ہے اور مریض علامتی علاج اور آرام سے صحت یاب ہوجاتے ہیں۔ تاہم سنگین صورتوں میں اسپتال میں داخل ہونا، آکسیجن تھراپی یا کورٹیکوسٹیرائیڈ علاج کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم کسی بھی غیر ضروری خوف یا گھبراہٹ کا شکار نہ ہوں، بلکہ حقیقت پسندانہ انداز میں اس وائرس کا سامنا کریں۔کورونا وبا کے تجربے نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ مشترکہ کوششوں اور مؤثر حکمت عملی کے ذریعے ہم کسی بھی بڑے چیلنج کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ حکومت،صحت کے ادارے اور عوام،سب کو مل کر اس وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے کام کرنا ہوگا۔ اس میں میڈیا کا کردار بھی اہم ہے۔ افواہوں اور بے بنیاد خبروں کے بجائے درست معلومات فراہم کرنا وقت کی ضرورت ہے تاکہ عوام میں بلا وجہ خوف و ہراس نہ پھیلے۔

ہمیںیہ بھی سمجھنا ہوگا کہHMPV کے خلاف ہماری سب سے بڑی ڈھال نہ تالی ہے اور نہ تھالی بلکہ وہ ’احتیاط‘ ہے۔ روزمرہ کی زندگی میں احتیاط برتتے ہوئے معمولی تبدیلیاں، جیسے بار بار ہاتھ دھونا،اپنی قوت مدافعت کو مضبوط بنانااور کسی بھی بیماری کی علامات ظاہر ہونے پر فوری طبی مشورہ لینا،اس وائرس کے خلاف ہماری حفاظت میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ وائرس اور بیماریوں کا ظہور انسانی تاریخ کا حصہ رہا ہے،لیکن ان کے خلاف ہماری مزاحمت،علم اور تعاون ہمیشہ کامیابی کی کنجی رہی ہے۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS