نئے سیاسی کلچر کی طرف ایک اور جست

0

شاہنوازاحمد صدیقی
پنجاب کے اسمبلی انتخابات میں عام آدمی پارٹی کو جو کامیابی ملی ہے وہ بے مثال ہے۔دہلی کے بعد اس سرحدی ریاست میں ایک غیر روایتی سیاسی جماعت کو اتنا عوامی بھروسہ ملنا کئی سماجی رویوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ انا ہزارے کی تحریک کے بعد جب اروند کجریوال اور ان کی ٹیم نے سیاسی پارٹی بنانے کا اعلان کیاتو ان کی چوطرفہ مذمت کی گئی اور یہ باورکرانے کی کوشش کی کی گئی کہ شاید اروندکجریوال کا کرپشن کے خلاف تحریک چلانا اور سیاسی جماعت بنانا سوچی سمجھی منصوبہ بندی کاحصہ تھا۔ مگر جس طریقے سے اعلیٰ تعلیم یافتہ سیاسی ماحول اور کلچر سے نالاں ہوگیاتھا،خاص طور پر ایسے حالات میں جب سادہ زندگی اور اعلیٰ اقدار کی بات کرنے والی کمیونسٹ پارٹیاں اپنے غلبے والے علاقوں مغربی بنگال ،تریپورہ اور کیرالہ وغیرہ سے سمیٹتی جارہی تھیں، ایسا لگاکہ شاید نئی نسل اور اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقے نے نئے ڈھنگ سے سیاست کی تشریح کرنے والی سیاسی جماعت کو قبول کرنا شروع کردیا ہے اور اس کلچر سے ترغیب پاکر شاید سماج کے سوچنے والے طبقات ڈاکٹر ،انجینئر ، لکچرراور اساتذہ وغیرہ اپنے ڈرائنگ روم سے باہر نکل کر میدان عمل میں آئیں گے اور عام آدمی کو وہ راحت وریلیف فراہم کریں گے جس کی کمی کی شکایت طویل عرصے سے کرتے آرہے ہیں۔ عام آدمی کو ہمیشہ سے یہ شکایت رہی ہے کہ سیاسی جماعتوں میں کچھ خاندانوں، اعلیٰ طبقات کے علاوہ کسی کا عمل دخل اب ممکن نہیں رہ گیا ہے۔نتیجہ یہ نکلا کہ ان طبقات نے سیاسی ڈسکورس میں شامل ہونا ہی چھوڑدیا تھا۔مگر انا ہزارے کی تحریک کے بعد حالات بدلے اگر چہ دہلی میں اروند کجریوال 2017اور اس سے قبل کے اسمبلی انتخابات میں غیر معمولی طور پر اپنی موجودگی درج کراچکے تھے۔مگر پنجاب اور اسی طرح چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں عام آدمی پارٹی جس طریقے سے سنجیدہ طبقات کو متوجہ کررہی ہے وہ قابل ذکر ہے۔پنجاب میں جو امیدوار کامیاب ہوئے ہیں ان کا جائزہ لیں توایسا احساس ہوتاہے کہ شاید یہ تو ناممکن تھا۔بکرم سنگھ مجھیٹھیا، نوجوت سنگھ سدھو، چرنجیت سنگھ چنی ،پرکاش سنگھ بادل، من پریت بادل ، امریندر سنگھ جیسے طاقتور ، دولت مند لیڈروں کو شکست دے کر معمولی پس منظر کے سیدھے سادے لوگ اسمبلی میں پہنچے ہیں۔یہ صورت حال ایسی ریاست میں ناممکن دکھائی دے رہی تھی جہاں پر ذات پرستی اور فرقہ واریت سماجی رویہ کو طے کرنے میں اہم رول ادا کررہے تھے اور یہی صورتحال پنجاب کے عام شہری کو پریشان کررہی تھی، اگر چہ کسان تحریک کے دوران اس کااحساس ہورہاتھا کہ ریاست کا کسان اور عام شہری بہت غصے میں ہیں اور کسان تحریک کی طویل تھکادینے والی جدوجہد اس محروم ،مجبوراور حاشیہ پر رہنے والے لوگوں کوایک الگ راہ اختیار کرنے پر مجبور کررہی ہے۔ عام آدمی پارٹی پچھلے ڈیڑھ سال میں جس خاموشی اور تدبر کے ساتھ کام کررہی تھی اس کا کسی کو احساس نہیں تھا کہ یہ معمولی پس منظر کے لوگ پنجاب میں وہ کردکھائیں گے جو غیر متوقع تھا۔عام آدمی پارٹی نے بغیر شورشرابے ، باجے گاجے کے ساتھ اپنے امیدواروں کی فہرست دوسری پارٹیوں کے مقابلے میں بہت پہلے ظاہر کردی تھی۔ان کم حیثیت رضاکارو امیدواروںنے جو کسی گنتی میں بھی نہیں آتے تھے اور جن کے بیانات اور دورے کسی اخبار کی سرخی نہیں بنتے تھے ۔انہوں نے انتہائی مستقل مزاجی کے ساتھ معمولی شہری کو اپنی توجہ کا مرکز بنائے رکھا۔
عام آدمی پارٹی نے اپنی پالیسی میں بھی اسی غریب شہری کے کرب والم پر توجہ دی جس کا کہیں ذکر نہیں ہوتاتھا۔ہر بالغ لڑکی یا عورت کو اقتصادی طور پر مدد کرنا ،بجلی ، پانی کے معمولی مگراہم مسائل کا حل پیش کرنے کی خواہش اور شفاف نظام بنانے کا وعدہ شاید پنجاب کے ہرشہری کو متاثر کرگیا اور اس نے عام آدمی پارٹی کو اقتدار سونپ دیا۔ اب دیکھنایہ ہے کہ کیا عام آدمی پارٹی پنجاب جیسی حساس اور مسائل سے گھری ہوئی ریاست میں اپنی ذمہ دیاریاں بحسن خوبی انجام دے پائے گی یا نہیں۔مگر دہلی میں جس طرح عام آدمی پارٹی نے ایک نئے سیاسی کلچر کو فروغ دیاہے اس سے یہ لگتاہے کہ شفافیت کے بل بوتے پر یہ کام اتنا ناممکن نہیں ہے جتنا دکھائی دے رہاہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS