مغربی ایشیا میں ایک اور بڑی جنگ کی آہٹ

0

لینسٹ کی ایک رپورٹ میں غزہ میں مرنے والے افراد کی تعداد کے بارے میں چونکا دینے والی انکشافات کیے گئے تھے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ گزشتہ 7اکتوبر 2023کو ہونے والے حملے کے بعد اسرائیل نے اب تک غزہ میں تقریباً ایک لاکھ 86 ہزار سے زائد افراد کو ہلاک کردیا ہے۔ پوری دنیا غزہ میں بڑے پیمانے پر بے گناہ مردوں ، بچوں اور معصوم عورتوں کی ہلاکت کی باببانگ دہل مذمت کررہی ہے۔ اسرائیل کے قریب ترین حلیف امریکہ اور برطانیہ بھی اسرائیل کو کھری کھوٹی سنا رہے ہیں مگر حالات دن بہ دن خراب سے خراب ہوتے جارہے ہیں اور اب حالات یہ ہیں کہ ترکی نے بھی اپنی منشا ظاہر کی ہے کہ ہوسکتاہے کہ وہ غزہ میں مداخلت کرے۔
ترکی کے صدر طیب اردگان جو اسرائیل کے سخت مخالف سمجھے جاتے ہیں انہوںنے اپنے آبائی وطن رز میں کہا ہے کہ ترکی کو طاقت اور فوجی قوت اس لیے حاصل کرنا چاہیے تاکہ وہ ایسے حالات میں مداخلت کرسکیں۔ ترکی اور غزہ کے معاملے میں بہت پہلے سے ہی سخت نظرہ رکھتا ہے ۔
غزہ کی جب گھیرا بندی اسرائیل کررہا تھا اور اس چھوٹے سے قطع اراضی کے گرد ایک اونچی اور مضبوط دیوارتعمیر کررہاتھا تو ترکی کے طیب اردگان نے محصور فلسطینیوں کو ضروریات زندگی کی سپلائی بہم پہنچانے کے لیے اپنے ملک کے رضا کاروں کا ایک بحری قافلہ بھیجا تھا جس کا نام فلوٹیلا رکھا گیا تھا۔ اسرائیل نے اپنی غلطی کو سدھارنے اور عالمی برادری کی منشا کا احترام کرنے کی بجائے اس بحری قافلہ غزہ ویڈم فلوٹیلہ جس میں کھانے پینے کے اشیا، ادویات ، پانی تھا۔ ایک فوجی کارروائی کرکے تباہ کردیا تھا۔ اسرائیل کی اس بربریت آمیز کارروائی میں فلوٹیلہ کے بہت سے رضا کار اور عملے کے لوگ شہید ہوئے تھے۔ اس کے بعد سے دونوں ملکوں میں کئی سال تک کشیدگی رہی اور سفارتی تعلقات بری طرح متاثر ہوئے۔
طیب اردگان کی پارٹی اے کے پی اسلام پسند پارٹی سمجھی جاتی ہے اور دنیا کے کئی اہم ایشوز پر ان کی رائے عرب اور مغربی دنیا کے اصولوں اور موقف سے الگ ہوتی ہے۔ کئی دفعہ ان کو اسلام پسندوں کی حکومت قائم کرنے کے منصوبے پر عمل کرنے کے الزامات لگے ہیں۔ جیسا کہ قارئین کو معلوم ہے کہ ترکی یوروپی اور امریکی ممالک کی فوجی اتحاد ناٹو کا ایک اہم رکن ہے۔ ترکی کی فوج کا شمار امریکہ کے بعد دنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت کے طور پر ہوتا ہے۔
امریکہ اور ترکی کے درمیان کئی اہم ایشوز پر سخت اختلافات ہیں مگر ناٹو ممالک کی رکن ہونے کی وجہ سے دونوں ممالک ایک دوسرے کے حلیف ہیں۔ ترکی کئی دیگر ناٹو ممالک کو ایک آنکھ نہیں بھاتا اور کئی امور پر بطور خاص ایف16طیاروںکی سپلائی کو لے کر ترکی اور امریکہ میں ایسے سخت اختلافات ہیں جن کو امریکہ کے کئی صدور حال نہیں کرپائے ہیں۔ ترکی کی شکایت ہے کہ ایک ناٹو ملک کی حیثیت سے جو فوجی طاقت اور جنگی ہوائی جہاز ایف 16اور اس کل پرزے اس کو ملنا چاہیے تھے ان کی سپلائی میں امریکہ رکاوٹیں کھڑی کررہا ہے۔
بہر کیف مغربی ایشیا میں یہ صورت حال انتہائی نازک مستقبل کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ ترکی کی افواج اعلیٰ تربیت یافتہ ہیں ان کو اسرائیل جیسی طاقت سے نمٹنے کا ہنر آتا ہے۔ اس کے علاوہ ترکی نے کئی ممالک میں فوجی مداخلت کرکے عسکری مہمات کو پلٹ دیا ہے جو اس کے اعلیٰ پیشہ وارانہ اور تربیت یافتہ فوج ہونے نیکورا کارہ باخت نے اس نے جو رول ادا کیا اس کا اعتراف تمام بڑی فوجی اور مغربی طاقتیں کرتی ہیں۔ یہی نہیں ترکی نے افریقہ کے ایک اہم ملک لیبیا میں فوجی مداخلت کرکے وہاں پر اپنی حمایت یافتہ ایک لیڈر کو وزیراعظم بنائے رکھنے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ 2020سے لیبیا میں ترکی کی فوجیں کام کررہی ہیں اور وہاں پر اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ وزیراعظم عبدالحمید محمد الدبیہ کو پوری حمایت دے رہا ہے۔ یہ حکومت فوجی اتحادی حکومت کہی جاتی ہے اور لیبیا راجدھانی طرابلس میں اس کا ہیڈکوارٹر ہے۔
ترکی اس حکومت کو حمایت دیتا ہے ۔ لیبیا جیسے ملک میں جہاں پر قبائیلی ، علاقائی اور نسلی بنیادوں پر سخت اختلافات ہیں اور خانہ جنگی پھیلی ہوئی ہے۔ وزیراعظم کا حکومت میں برقرار رہنا بڑی کامیابی سمجھا جاتا ہے۔ لیبیا میں فرانس ، امریکہ، برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک کی افواج یا ماہرین ہیں۔ روس نے تو اپنی فوجی اڈے بھی بنائے ہوئے ہیں۔ جہاں سے وہ افریقہ کے کئی ملکوں میں اپنی فوجی موجودگی بنائے ہوئے ہیں۔
مغربی ایشیا میں اس وقت ایک ہاہاکار سی مچی ہوئی ہے۔ مغربی ایشیا کے اہم فوجی اور اقتصادی طاقتیں اپنی اپنی مفادات کو بچانے کے لیے بہت بڑی تعداد میں اپنی فوجی اور فوجی اڈے بنائے ہوئے ہیں۔ ایسے حالات میں جولان کی پہاڑیوں میں بھی ایک ایسی تباہ کن صورت حال پیدا ہوگئی ہے جس سے نکلنا فی الحال مشکل نظرآرہا ہے۔ جولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل نے 1967میں قبضہ کرلیا تھا اور بعد میں امریکہ کی مدد سے اپنی مملکت قائم کرلی ہے۔
یہ سرسبز وشاداب علاقہ شام کا ہے جہاں پر بڑی تعداد میں دروز نسل کے لوگ رہتے ہیں جو کہ شام اور مغربی ایشیا کا ایک منفرد شناخت ، ثقافت اور نظریات کا حامل الگ قبیلہ ہے جو اپنی منفرد وضع قطع کے لیے مشہور ہیں۔ یہ علاقہ لبنان سے لگا ہوا ہے اور لبنان میں دروز ایک بڑی طاقت ہے۔ جولان کی پہاڑیوں پر تقریباً 50فیصد کی آبادی ان ہی دروزوں کی ہے۔ حز ب اللہ اور اسرائیل کے درمیان حالیہ کشیدگی اور ٹکرائو میں اس مقام کا ’ امن ‘ برباد کردیا ہے۔ پچھلے دنوں حزب اللہ نے اسرائیل کی اس علاقہ میں قائم فوجی چوکی پر حملہ کیا تھا۔ جن میں اسرائیل کو بڑے پیمانے پر نقصان اٹھانا پڑا۔
امریکہ اور اسرائیل کا الزام ہے کہ اس حملہ میں دروز وں کا جانی ومالی نقصان ہوا ہے۔ اسرائیل کا الزام ہے کہ حزب اللہ نے فوجی کارروائی کرکے اس علاقہ میں دروزوں کو جانی ومالی نقصان سے ہمکنار کیا ہے۔ امریکہ نے بھی حزب اللہ پر الزام لگا ہے کہ اس حملہ میں عام لوگوں کی جان گئی ہے۔ اسرائیل کے الزامات کی مذمت نکتہ چینی کی ہے اور کہا ہے کہ اس کے حملوں میں دروز آبادی کو نقصان نہیں پہنچا یا گیا اور یہ سب کیا دھرا اسرائیل کا ہے۔ مغربی ایشیا میں اسرائیل پہلے ہی غزہ میں جنگ چھڑی ہوئی ہے۔ اس کو کئی محاذوں پر فوجی کارروائیاں کررہا ہے اور ان ممالک کے اقتدار اعلیٰ کی خلاف ورزی کررہا ہے۔ ان میں عراق ، شام شامل ہیں۔ اب لبنان کا محاذ کھلنے سے ا ن کو کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اس لیے وہ کھلم کھلا طور پر یہ قبول کرنے کو تیار نہیں ہے کہ وہ لبنان میں اسی فوجی کارروائی میں شامل ہونا چاہتا ہے مگر لبنان میں اسرائیل کی فوجی کارروائیاں حزب اللہ اور جنوبی لبنان کے اہم علاقے وادی بقا میں مسلسل کارروائیاں چل رہی ہیں جو اسرائیل کے ناپاک عزائم کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ اس طرح اس وقت پورا مغربی ایشیا بڑی جنگ کے خطرے کا سامنا کررہا ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS