کورونا وائرس نے دنیا بھر کے حالات بدل کر رکھ دیے ہیں اور جب دنیا کے حالات بدل جائیں تو یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ ملک بدلتے حالات کے اثرات سے محفوظ رہے، خاص کر ایسی صورت میں جبکہ کورونا متاثرین کی تعداد کے لحاظ سے وطن عزیز ہندوستان دوسرے نمبر پر ہے۔ امریکہ کے بعد ہندوستان دوسرا ملک ہے جہاں کورونا متاثرین کی تعداد 3کروڑ سے زیادہ ہے۔ کورونا کی وجہ سے خط افلاس کے نیچے رہنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ بڑی تعداد میں لوگوں کو نوکریاں گنوانی پڑی ہیں۔ ملک کی 46.2 فیصد آبادی وہ ہے جس کی روزانہ کی آمدنی 3.20 ڈالر نہیں ہے توپچھلے سال 15سے 24 سال کے 23.8 فیصد لوگ بے روزگار تھے۔ یہ صورت حال اس وقت تھی جب پچھلے مالی سال میں ہندوستان کی شرح نمو -7.3 فیصد تھی اور حکومتی قرض 89.6 فیصد تھا۔ رواں مالی سال کے بالکل پہلے ہی ماہ سے کورونا نے تیور دکھانے شروع کیے، پھر مئی میں بھی اس سے متاثر ہونے والوں کی تعداد لاکھوں میں رہی، اس لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ حکومتی قرض میں اضافہ نہیں ہوگا یا اقتصادی شرح نمو 2016 سے پہلے والی نہیں تو 2019 سے پہلے والی ہی ہو جائے گی۔
اس وقت لوگوں کو مایوسیوں کے اندھیرے سے نکالنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے اور ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ ہیلتھ سیکٹر پر خصوصی توجہ دی جائے۔ اس سلسلے میں ایک اہم قدم اٹھاتے ہوئے وزیرخزانہ نرملا سیتا رمن نے ہیلتھ سیکٹر کے لیے 50 ہزار کروڑ کے راحت پیکیج کا اعلان کیا ہے۔اسی کے ساتھ نرملا نے 8 اقتصادی راحت اُپایوں کا اعلان کیا ہے۔ ان میں ہیلتھ سیکٹر کے لیے راحت پیکیج کے ساتھ کورونا وائرس سے متاثرہ ہونے والے علاقوں کے لیے 1.1 لاکھ کروڑ روپے کی کریڈٹ گارنٹی اسکیم کا اعلان شامل ہے۔ وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن کے مطابق، ’کریڈٹ گارنٹی اسکیم کے تحت، جو ایک نئی اسکیم ہے، 25 لاکھ لوگ مستفید ہوں گے۔ چھوٹے اقتصادی اداروں کے ذریعے چھوٹے سے چھوٹے ادھار لینے والوں کو دیا جانے والا قرض اس میں شامل ہے۔ زیادہ سے زیادہ 1.25 لاکھ روپے قرض دیے جائیں گے۔ پرانے قرضوں کی دوبارہ ادائیگی پر نہیں بلکہ نئے قرض دینے پر توجہ دی جائے گی۔ ‘
وزیر خزانہ نے اور بھی کئی اہم اعلانات کیے ہیں۔ مثلاً: عالمی سیاحوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد ہندوستان آنے والے پہلے 5 لاکھ سیاحوں کو ویزا کی فیس نہیں دینی ہوگی۔ یہ اسکیم 31مارچ، 2022 تک نافذ رہے گی۔ اس سے سیاحوں کو راغب کرنے میں کامیابی ملے گی مگر حکومت 5 لاکھ سیاحوں سے ویزا کی فیس نہ لینے کے ساتھ یہ بھی بتاتی کہ وہ ہندوستان آنے والے سیاحوں کو کیا سہولتیں دے گی تو بہتر ہوتا، کیونکہ کورونا کی دوسری لہر میں اسپتالوں میں داخلہ نہ ملنے، آکسیجن یا دیگر طبی امداد نہ ملنے سے کورونا متاثرین کے ہلاک ہونے کی خبریں آئی تھیں، اس لیے سیاحوں کو یہ بات سمجھانی ضروری ہے کہ اس وقت صورت حال پیچیدہ بن گئی تھی اور دنیا کی کوئی بھی حکومت ہوتی تو اسے حالات پر کنٹرول کرنے میں دشواری ہوتی۔ ویسے یہ بات ناقابل فہم ضرور ہے کہ نئے اسپتالوں کی تعمیر، اسپتالوں میں بستروں کے اضافے ، آکسیجن پلانٹس لگانے، بہتر وینٹی لیٹرس منگوانے اور دیگر طبی سہولتیں فراہم کرانے پر توجہ پہلے ہی کیوں نہیں دی گئی تھی۔ اگر یہ سہولتیں ہوتیں کیا تب بھی صورت حال اتنی ہی سنگین نظر آتی جتنی نظر آئی؟ پچھلے سال بھی 20 لاکھ کروڑ روپے کے پیکیج کا اعلان کیا گیا تھا۔ وزیرخزانہ کو یہ بتانا چاہیے کہ اس پیکیج نے ملک کے حالات کو سنبھالے رکھنے میں کیا رول ادا کیا اور اس کی وجہ سے کیا اہم کام ہوسکے، کیونکہ پچھلے مالی سال میں ہونے والی اقتصادی شرح نمو نے یہ تشویش پیدا کر دی ہے کہ پچھلے سال کورونا کی وجہ سے حالات زیادہ خراب نہیں تھے تو ملک کی معیشت پر اتنا برا اثر پڑا تھا، اس سال حالات زیادہ خراب ہوئے، بڑی تعداد میں لوگوںکو جانیں گنوانی پڑیں تو حالات کے کیسے اثرات اقتصادی شرح نمو پر پڑیں گے؟ سوال یہ ہے کہ وزیرخزانہ نے ہیلتھ سیکٹر کے لیے جس راحت پیکیج کا اعلان کیا ہے، کیا وہ کورونا کی متوقع تیسری لہر کے مدنظر کیا گیا ہے یا اس کا مقصد کچھ اور ہے؟ یہ بات نظرانداز نہیں کی جانی چاہیے کہ عام آدمی کے لیے جتنی اہمیت کی حامل یہ بات ہوتی ہے کہ کس مد کے لیے کتنے کروڑ روپے کے پیکیج کا اعلان کیا گیا اتنی ہی اہمیت اس بات کی ہے کہ اس کے کیسے اثرات عام لوگوں پر پڑے!
[email protected]
راحت پیکیج کا اعلان
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS