مذہب اسلام میں جانوروں کے حقوق

0

محمد طارق نعمان گڑنگی

اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ جانوروں کے ساتھ بھی شفقت اور رحم کامعاملہ کرنا چاہئے اور ظلم سے باز رہنا چاہئے۔ اسلام کے جامع مذہب ہونے کی دلیل یہ بھی ہے کہ اس نے جانوروں کے حقوق بھی بیان کردیے ہیں اور ایسا کیوں نہ ہو کہ اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سراپا رحمت بناکر بھیجا ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے ۔ ترجمہ: اورہم نے آپ کو سارے عالم کے لیے رحمت بناکر بھیجا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جانوروں کے حقوق بھی بیان فرمائے؛ بہت سی احادیث اور نصوص سے ثابت ہے کہ جانوروں پر احسان اور ان کے ساتھ نرمی اور شفقت ورحمت عبادت ہے، جو بعض دفعہ اجر وثواب کے اعلی درجات اور اسبابِ مغفرت کے سبب تک پہنچاتی ہے۔ رسولؐ نے ارشاد فرمایا: اس اثنا میں کہ ایک آدمی راستہ چلا جارہا تھا، اسے سخت پیاس لگی (چلتے چلتے)اس کو ایک کنواں ملا، وہ اس کے اندر اترا اور پانی پی کر باہر نکلا، تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک کتا ہے جس کی زبان باہر نکلی ہوئی ہے اور پیاس کی شدت سے وہ کیچڑ کھارہا ہے، اس آدمی نے دل میں کہا کہ اس کتے کو بھی پیاس کی ایسی ہی تکلیف ہے جیسی کہ مجھے تھی (اور وہ اس کتے پر رحم کھاکر)پھر کنویں میں اترا اور اپنے چمڑے کے موزے میں پانی بھر کر اس کو اپنے منہ سے پکڑا اور کنویں سے باہر نکل کر اس کتے کو پانی پلایا، اللہ تعالی نے اس کی اس رحم دلی کو قبول فرمایا، اس کو بدلہ دیا اور اسی عمل پر اس کی مغفرت فرمادی۔ صحابہ نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ!کیا جانوروں(کی تکلیف دور کرنے) میں بھی ہمارے لیے اجر وثواب ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں ، ہر زندہ اور ترجگر رکھنے والے جانور(کی تکلیف دور کرنے)میں ثواب ہے۔ ایک دوسری حدیث میں ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایک زانیہ عورت نے سخت گرمی کے دن ایک کتے کو دیکھا جو ایک کنویں کے گرد چکر لگارہا تھا اور پیاس کی شدت کی وجہ سے اپنی زبان نکالے ہوئے تھا، تو اس نے اپنے چمڑے کے خف سے کنویں سے پانی نکالا اور اس کتے کو پلایا، اللہ تعالی نے اس کے اس عمل کی وجہ سے اس کی مغفرت فرمادی۔
ہر ذی روح کو کھلانا پلانا باعث اجر: ایک صحابی ؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ!میں اپنے اونٹ کو پانی پلانے کے لیے حوض میں پانی بھرتا ہوں اور دوسرے کا اونٹ آکر اس میں سے پانی پی لیتا ہے تو کیا مجھے اس پر ثواب ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں ، اور سنو! ہر زندہ اور ترجگر رکھنے والے جانور کو کھلانا پلانا لائق اجر ہے۔
چرندپرند کودانہ ڈالنے سے صدقے کا ثواب: آدمی جو کھیتی کرتا ہے، یا باغ لگاتا ہے اور اس کی کھیتی اور درخت سے کوئی جانور، یا پرندہ کچھ کھالیتا ہے، یا چگ لیتا ہے تو اس میں بھی مالک کو ثواب ملتا ہے، خواہ صاحبِ کھیت اور درخت والے کو اس کا علم نہ ہو۔حضورؐنے ارشاد فرمایا: جو مسلمان کوئی درخت لگاتا ہے، یا کھیتی کرتا ہے اور اس درخت یا کھیتی میں سے کوئی چڑیا، یا آدمی، یا جانور کھاتا ہے تو اس لگانے والے یا بونے والے کو صدقہ کا ثواب ملتا ہے۔
حیوانات کو تکلیف دینا گناہ: شریعت نے حیوان کے ساتھ برا سلوک، بلا وجہ اس کو تکلیف وعذاب دینے اور پریشان کرنے کو گناہ اور معصیت میں سے گردانا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک عورت کو ایک بلی کی وجہ سے عذاب دیاگیا، جس کو اس نے باندھ کر رکھا تھا، یہاں تک کہ بھوکی پیاسی مرگئی؛ اس لیے وہ عورت جہنم میں داخل ہوئی، نہ اس نے خود اسے کھلایا پلایا جب اس نے اس کو قید کیا اور نہ ہی اس نے اس کو چھوڑا کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑوں کو کھاکر اپنی جان بچاتی۔
جانوروں کو عذاب دیناحرام : اسلام نے جانور اور حیوان کو عذاب دینا حرام قرار دیا ہے۔ مختلف احادیث میں اس کی ممانعت آئی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک مرتبہ ایک گدھے کے پاس سے ہوا جس کے چہرے کو لوہا گرم کرکے داغا گیا تھا، تو آپ نے فرمایا: کیا تم لوگوں کو یہ بات نہیں پہنچی کہ میں نے لعنت بھیجی ہے اس آدمی پر جو چوپایے کے چہرے کو داغے، یا اس کے چہرے پر مارے؟ پس آپ نے اس سے منع فرمایا۔ اور ترمذی کی حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جانور کے چہرے کو داغنے اور مارنے سے منع فرمایا۔ ایک اورحدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت بھیجی ہے اس آدمی پر جوجانور کا مثلہ کرے یعنی زندہ جانور کے اعضا (ہاتھ، پیر، ناک، کان، دم وغیرہ)کاٹے۔
جانوروں پر تیر چلانا:اسلام نے جانور کو قید کرکے اسے نشانہ بنانے سے منع فرمایا، جیسے کسی پرندے کو یا بکری کو باندھ دیا جائے اور اس کو تیریا گولی سے نشانہ بنایا جائے اور مارا جائے یہاں تک کہ وہ مرجائے؛ اس لئے کہ یہ اس حیوان کو عذاب دینا اور تکلیف پہنچانا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم ایسی چیز کو نشانہ مت بنائو جس میں روح اور جان ہو۔ ایک اورحدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت بھیجی ہے اس آدمی پر جو جاندار چیز کو نشانہ بنائے۔
جانوروں کو آپس میں لڑانے کی ممانعت: ہر وہ عمل جس سے جانور کو تکلیف اور ایذا دینا لازم آئے شریعت مطہرہ میں ممنوع ہے جیسے دو بیلوں یا سانڈوں کو آپس میں لڑانا، یا مرغا، یا مینڈھا کو آپس میں لڑانا، یا پرندوں کو بلافائدہ قید کرکے رکھنا، یا عمل دشوار کے ذریعہ جانور کو ذبح کرنا۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جانوروں اور چوپایوں کو آپس میں لڑانے سے منع فرمایا۔ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ اپنے رسالہ جانوروں کے حقوق میں اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں : مرغ بازی، بٹیر بازی اور مینڈھے لڑوانا اسی طرح کسی جانور کو لڑانا سب اس میں داخل ہے او ر سب حرام ہے کہ خواہ مخواہ ان کو تکلیف دینا ہے اور اسی کے حکم میں ہے۔ حاصل یہ ہے کہ چوپایوں کو آپس میں لڑانا، بھڑانا حرام اور ممنوع ہے، کسی کو اس کی اجازت نہیں ہے؛ اس لیے کہ آپس میں لڑنے والے دوجانوروں میں سے ہر ایک دوسرے کو تکلیف پہنچاتا ہے اور زخمی کرتا ہے(جس کا سبب لڑانے والا بنا ہے) اور اگر خود جانوروں کو لڑانے والا اپنے ہاتھ سے ایسا کرے تو اس کے لیے یہ جائز نہیں ہے (لہٰذا جانورکو تکلیف پہنچانے اور زخمی کرنے کا سبب بننا بھی جائزنہیں ہے)۔

ماکول اللحم جانور کو قتل کرکے یوں ہی پھینک دینا درست نہیں
ماکول اللحم جانور کو قتل کرکے یوں ہی پھینک دینا، اس سے فائدہ حاصل نہ کرنا، اس کو کام میں نہ لانا اور انتفاع نہ کرنا درست نہیں ہے؛ اس لیے کہ اللہ تعالی نے اس کے ذبح کو جائز قرار دیا ہے اسے کھانے اور اسے کام میں لانے کے لیے، نہ کہ ذبح کرکے عبث وبیکار چھوڑ دینے کے لیے۔ رسولؐ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے چڑیا، یا اس سے بڑے کسی جانور کو ناحق قتل کیا، اللہ تعالی قیامت کے دن اس سے اس کے بارے میں سوال کرے گا اور پوچھے گا، کسی نے دریافت کیا: یا رسول اللہ!اس کا حق کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: اس کا حق یہ ہے کہ تم اس کو ذبح کرکے کھائو، نہ یہ کہ اس کا سرکاٹ کر اس کو پھینک دو۔ ایک اورحدیث میں ہے کہ وہ جانور خود قیامت کے دن اللہ کی بارگاہ میں دعوی کریگا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی چڑیا کو عبث بلافائدہ قتل کیا وہ قیامت کے دن اللہ تبارک و تعالی سے فریاد کرے گی کہ اے اللہ!اس نے مجھے بیکار قتل کیا اور مجھے منفعت اور فائدے کے لیے قتل نہیں کیا۔
بلافائدہ پرندے کو قید کرکے رکھناگناہ
بلافائدہ کسی پرندے کو پریشان کرنا اور اس کے بچوں کو قید کرنا اور پکڑ کر رکھنا بھی درست نہیں ہے۔ حدیث میں ہے، صحابہ فرماتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں تھے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لیے تشریف لے گئے،اسی اثنا میں ہم نے ایک حمرہ پرندہ دیکھا، جس کے ساتھ دو چوزے (بچے) تھے، تو ہم نے اس کے بچوں کو پکڑ لیا، پس وہ پرندہ آیا اور اپنے بچوں پر اپنے پروں کو پھیلانے لگا، اتنے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا: کس نے اس کو اس کے بچوں کی وجہ سے مصیبت میں مبتلا کردیا ہے؟ اسے اس کے بچے لوٹادو۔
جانوروں کو ذبح کرنے میں بھی احتیاط
اللہ تعالی نے بعض جانوروں کو ذبح کرکے اس کے گوشت سے انتفاع جائز قرار دیا ہے، ایسے جانوروں کو ذبح کرنا شریعت کے منشا کے عین مطابق ہے؛ لیکن اس میں بے راہ روی اور ظلم وزیادتی ناروا اور غیردرست ہے۔ ذبح کے سلسلے میں چند فرمانِ رسول اور آداب ملاحظہ فرمائیں :(1) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ذبح کے تین آداب بیان فرمائے ہیں :(1) اچھی طرح ذبح کرے(2) ذبح سے پہلے چھری تیز کرلے (3) ذبح کے جانور کو ٹھنڈا ہونے دے، اس کے بعد کھال اتارے۔ (2)جانور کو مقام ذبح تک نرمی کے ساتھ لے جائے، اس کو بے دردی اور سختی کے ساتھ نہ گھسیٹے، حضرت عمرؓ نے ایک آدمی کو دیکھا جو ایک بکری کو ذبح کرنے کے لیے اس کی ٹانگ پکڑکر گھسیٹتا ہوا لے جارہا تھا تو انہوں نے اس سے فرمایا: یعنی اس کو موت کے لیے لے جائو اچھے طریقے سے۔(3) ایک جانور کے سامنے دوسرے جانور کو ذبح نہ کرے کہ اس سے اس کو تکلیف ہوگی۔(5) ذبح کرنے والاجانور کے سامنے چھری تیز نہ کرے۔ (6) ذبح کے لیے جانور کو بے دردی سے نہ گرائے۔(6) ذبح کرنے میں بھی رحمت وشفقت کا پہلو ملحوظ رہے۔ ایک صحابیؓ نے عرض کیا مجھے بکری کو ذبح کرنے پر رحم آتا ہے؟ یعنی اگر تم اس پر رحم کروگے تو اللہ تم پر رحم کرے گا۔
جانور کو چارہ کھلانا اور پانی پلانا اس کا حق ہے۔
جانور پر سواری اور باربرداری انسان کا حق ہے؛ لیکن اس بارے میں بھی شریعت میں واضح ہدایات موجود ہیں اور جانور کے حق کی رعایت ضروری ہے جیسے جانور کو چارہ کھلاکر سواری کرنا، جانور کی قدرت وطاقت سے زیادہ اس پر بوجھ نہ لادنا، بلا ضرورت اس کو مار پیٹ نہ کرنا، یہ وہ چیزیں ہیں جن کی رعایت ضروری ہے۔رسولﷺ ایک انصاری کے باغ میں قضائے حاجت کے لیے داخل ہوئے، وہاں ایک اونٹ تھا، جب اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو زور سے آواز نکالی اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس تشریف لائے، اس کی گردن پر ہاتھ پھیرا، پھر فرمایا: اس اونٹ کا مالک کون ہے؟ یہ اونٹ کس کا ہے؟ تو انصار کا ایک جوان آیا اور اس نے کہا: میرا ہے، یا رسول اللہ! آپ نے فرمایا: کیا تم ان چوپایوں اور جانوروں کے بارے میں اللہ سے نہیں ڈرتے جن کا اللہ نے تم کومالک بنایا ہے، اس لیے کہ اس(اونٹ) نے مجھ سے شکایت کی ہے کہ تم اس کو بھوکا رکھتے ہو اور اس سے مسلسل کام لیتے ہو اور اس کو تھکاتے ہو۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک اونٹ کے پاس سے گزرے، جس کی پیٹھ پیٹ سے لگ گئی تھی (بھوک کی وجہ سے) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان بے زبان چوپایوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو! پس ان پر اچھی حالت میں سواری کرو اور ان کو اچھی طرح کھلائو اور چارہ دو اور ایک روایت میں ہے ۔ان کو کھلاکر موٹا کرو اور ان پر صحیح طریقے سے سواری کرو۔ حضرت معاذ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک قوم کے پاس سے گزرے، اس حال میں کہ وہ اپنی سواریوں پر کجاوئوں میں بیٹھے ہوئے تھے اور سواریاں کھڑی تھیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: چوپایوں پر سواری کرو، دراں حالیکہ وہ صحیح سلامت ہوں اور سواری کرکے ان کو چھوڑو، دراں حالیکہ وہ صحیح سلامت ہوں اور ان کو اپنی باتوں کے لیے راستوں اور بازاروں میں کرسیاں مت بنائو(ان کو کھڑی کرکے ان کی پیٹھ پر بیٹھ کر لمبی لمبی باتیں نہ کرو، جس طرح تم کرسیوں پر بیٹھ کر گپ شپ مارتے ہو؛ اس لیے کہ اس سے جانور کوبلا ضرورت تکلیف دینا ہے؛ بلکہ اگر باتیں کرنا ہو تو ان کی پشت سے اتر کر باتیں کرو) اس لیے کہ بہت سا مرکوب (سواری کا جانور)اس کے راکب یعنی سواری کرنے والے سے بہتر ہوتا ہے اور راکب سے زیادہ اللہ تبارک وتعالی کا ذکر کرنے والا ہوتا ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS