خون چوستی پالیسیوں کا ننگا ناچ

0

جب کسی قوم کو بیدار شعور سے محروم کر دیا جائے تو اس کی سانسیں گنی جاتی ہیں اور اس کے خواب ٹیلی ویژن کی اسکرین پر چیختے چنگھاڑتے مباحثوں میں دفن ہو جاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ آج ہندوستان کے عوام کسی المیہ ناول کے کردار بن چکے ہیں،جہاں ہر روز کی زندگی ایک نئی اذیت،ایک نیا طنز،ایک نیا زخم ہے۔ حکومت نے ایک بار پھر مہنگائی کا ایسا زہریلا تیر چھوڑا ہے جس نے غریب کے چولہے کو خاموش،اس کے بچوں کی آنکھوں سے چمک چرا لی ہے۔ ادھر وقف بل پر شور، ادھر اورنگ زیب کے مزار پر ہنگامے کے بیچ میں ایک خاموش سازش، جس کی کوکھ سے نکلا ایندھن کی قیمتوں میں ایسا اضافہ جو کسی ایٹمی دھماکے سے کم نہیں۔

یہ کوئی عام خبر نہیں کہ ایل پی جی کی قیمت میں 50 روپے کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ نہیں،یہ ایک ایسے گھر کے خلاف اعلان جنگ ہے جہاں روزی روٹی ویسے ہی انگاروں پر رکھی گئی تھی۔ اب اجولا اسکیم کے تحت دیا جانے والا سلنڈر 503 سے بڑھ کر 553 روپے کا ہوچکا ہے۔اس اسکیم کا اصل چہرہ اب راکھ میں لپٹا ہوا دکھائی دیتا ہے اور جنہیں حکومت سبسڈی کے لالی پاپ سے بہلانا بھول گئی، وہ عام صارفین اب 1,028.50روپے میں ایک سلنڈر خریدیں گے۔ کولکاتا میں جو رسوئی گیس سلنڈر 829کا ملتاتھا، وہ اب 880 روپے کا ہوگیا ہے، اسی طرح دیگر ریاستوں میں قیمتیں اضافہ کی مروجہ شرحوں کے مطابق مختلف ہوں گی۔

اس اضافہ کے بعد غریب عوام حیرت سے دیکھ رہے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ کیا یہ وہی سرکار ہے جو ہر الیکشن میں چولہا جلا کر دکھاتی ہے؟ اور اب ان سے وہی چولہے چھینے جارہے ہیں اور ان کی جگہ باقی رہ گئے ہیںبے صدا دھوئیں اورخالی برتن؟

ستم تو یہ بھی ہے کہ ظلم کا بس یہیں نہیں ہوا بلکہ ایل پی جی کے ساتھ ہی پٹرول اور ڈیزل بھی مہنگے ہو چکے ہیں۔ 2 روپے فی لیٹر کی اضافی ایکسائز ڈیوٹی لگائی گئی ہے اوراس کا اطلاق بھی ہوچکا ہے۔ اس کے بعدپٹرول پر اب 13 روپے فی لیٹر اور ڈیزل پر 10 روپے فی لیٹر ایکسائز ڈیوٹی لی جا رہی ہے۔ حالانکہ خام تیل کی قیمتیں عالمی منڈی میں 77 ڈالر سے گر کر 64 ڈالر پر آ گئی ہیں۔ ابرینٹ کروڈ 64.05 ڈالر اورڈبلیو ٹی آئی کروڈ 60.57 ڈالر فی بیرل پر دستیاب ہے۔ تاہم عوام کیلئے ایک عبوری راحت یہ ہے کہ اس اضافے کے باوجود پٹرول اور ڈیزل کی خردہ قیمتوں میں کوئی فوری تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔

وزیر پٹرولیم و قدرتی گیس ہردیپ سنگھ پوری کا کہنا ہے کہ چونکہ خام تیل کی قیمتیں 65 ڈالر فی بیرل تک گر چکی ہیں،اس لیے تیل کمپنیوں کے پاس قیمتوں کو کم کرنے کیلئے کچھ گنجائش موجود ہے۔لیکن اس کا فائدہ عوام کو نہیںدیاجاسکتا ہے اور حکومت اس گنجائش کو اپنے اور تیل کمپنیوں کے حق میں استعمال کررہی ہے۔یعنی حکومت نے اسے اپنا خزانہ بھرنے کانیا ذریعہ بنایا اور عوام کو راحت دینے کا تو خیر کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ حالانکہ دستور کے مطابق جب بین الاقوامی منڈی میں خام تیل کی قیمتیں ڈھلوان کی مانند نیچے اتر رہی ہوںتواس کا فائدہ عوام کو ملنا چاہیے لیکن یہ بچت،یہ نفع،تیل کی مارکیٹنگ کمپنیوں اور حکومتی خزانے میں شامل کیاجارہاہے۔

حیرت ہے کہ دنیا کی پانچویں بڑی معیشت والے ہندوستان کی قوم پرست سرکار میں گزشتہ 12برسوں سے فائدہ صرف کارپوریٹس کا اور نقصان صرف غریب کا ہی ہوتا آرہا ہے۔ یہ قوم پرستی سمجھ سے بالاتر ہوتی جارہی ہے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ کولکاتا میں پٹرول فی لیٹر105.01روپے اوردہلی میں94.77 روپے فی لیٹرہے۔اگر تمام ٹیکس ہٹا دیے جائیں تو پٹرول کی اصل قیمت صرف 55روپے فی لیٹر بنتی ہے۔ 55روپے پر 50روپے کا بھاری ظالمانہ ٹیکس حقیقت میں ٹیکس نہیں ایک خراج ہے جو عوام کو غلام سمجھ کر ان سے زندہ رہنے کی قیمت کے طورپر سلطنت(حکومت) وصول کر رہی ہے۔

ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ صرف معاشی بوجھ نہیں، یہ سیاسی بے حسی کا آئینہ ہے۔ایساآئینہ جس میں اقتدار کی سنگ دلی اور عوام کی ستم پذیری دونوں عیاں ہوجاتی ہیں۔حکومت کی بے حسی تو سمجھ میں آتی ہے کہ اگروہ حساس ہو جائے تو ظلم کا کاروبار بند ہو جائے، خزانے کی تجوریاں خالی ہوجائیں اور ووٹ کی منڈی میں مہنگے خواب سستے پڑ جائیں۔ مگر تعجب اور افسوس اس وقت ہوتا ہے جب مظلوم عوام بھی مسلسل استحصال سہتے ہوئے بے حسی کی چادر اوڑھ لیتے ہیں۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS