ڈاکٹرمرضیہ عارف (بھوپال)
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغؔ
ہندوستان میں دھوم ہماری زباں کی ہے
داغؔ دہلوی کا یہ شعر اردو زبان کی مقبولیت کے ساتھ اس کی گنگا جمنی قدروں کا بھی نمائندہ ہے اور اس سے واضح ہوتا ہے کہ اردو ہندوستان کی ایک محبوب زبان اور مشترکہ تہذیب کی علامت ہے، اس ہندوستان کی جو کئی مذہبوں، تہذیبوں اور زبانوں کا قدیم زمانہ سے گہوارہ رہا ہے اور بقول علامہ اقبال یہی اس ملک کی طاقت کا راز ہے ؎
یونان ومصر روما سب مٹ گئے جہاں سے
اب تک مگر ہے باقی نام ونشاں ہمارا
اردو کے اس مشترکہ کلچر کو پروان چڑھانے اور اسے میل جول، اخوت ومحبت اور باہمی رواداری کی زبان بنانے میں کسی ایک کا نہیں ہندوئوں، مسلمانوں، سکھوں، عیسائیوں اور پارسیوں کا مساوی حصہ ہے، جس طرح اردو کا خمیر ہندی، عربی، فارسی، افغانی، پرتگالی اور انگریزی زبانوں سے اٹھا ہے اسی طرح اس زبان کو ترقی دینے میں ہندوستان کی سبھی قوموں اور تہذیبوں نے حصہ لیا ہے۔ اپنے اس ’’پنچ میلی‘‘ وصف کی وجہ سے اردو زبان ہندوستان کے مشترکہ کلچر کی مظہر بن گئی ہے، اس زبان نے اپنے صدیوں کے ارتقائی عمل سے ایک ایسے معاشرہ کو جنم دیا ہے جو مذہبی اور لسانی تعصب سے بلند ہوکر کثرت میں وحدت کے تصور کو عام کرتا ہے، اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اردو کا وصف ہمہ قومی ہونے کے باوجود اس کا کردار صرف ہندوستانی ہے اردو کے رگ وریشہ میں خالص ہندوستانی خون دوڑ رہا ہے جو رنگ ونسل ، علاقے اور جغرافیائی امتیازات سے پاک ہے۔
جس طرح اردو کی سگی بہن اور ہندوستان کی موجودہ قومی زبان ہندی کے ارتقائی مراحل میں حضرت امیر خسرو سے لے کر ملک محمد جائسی، رس خان، کبیر، رحیمن، شیخ شرف الدین، یحيٰ منیری، شیخ بہاء الدین باجن، قطبن، شیخ عبدالقدوس گنگوہی ،شاہ علی محمد، شیخ جیون کی خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اسی طرح اردو زبان وادب کے پودے کو تناور درخت بنانے اور اس میں برگ وبار لانے میں برادرانِ وطن خصوصیت سے ہندو حضرات کا ناقابل فراموش حصہ رہا ہے۔اگر للو لال جی کوی اردو آمیز زبان میں ’’پریم ساگر‘‘، ماسٹر رام چندر ’’مضمون نگاری‘‘، راج نرائن موزوں ’’اردو فارسی میں شاعری ‘‘، پنڈت دیا شنکر نسیم ’’مثنوی گلزار نسیم‘‘ ،رتن ناتھ سرشار ’’فسانۂ آزاد‘‘ ،نہال چند لاہوری ’’چہار گلشن‘‘ یادرگا سہائے سرور جہاں آبادی ’’حب الوطنی پر نظمیں‘‘ ،برج نرائن چکبست ’’حزنیہ شاعری‘‘ ،پریم چند ’’سلگتے سماجی مسائل پر افسانے ‘‘ ، تلوک چند محروم اور نوبت رائے نظر ’’ عصری موضوعات پر نظمیں ‘‘ ،جگت موہن لال رواں ’’رباعیات‘‘، رگھوپتی رائے فراقؔ ’’ محاکاتی شاعری ‘‘، برج موہن دتا تریا کیفی ’’ نثری وشعری تخلیقات‘‘، کرشن چندر ، مہندر ناتھ، رام لعل، عصری موضوعات پر افسانہ نگاری یا آنند نرائن ملا، جگن ناتھ آزاد، کنہیا لال کپور،اپیندر ناتھ اشک، گیان چند جین، گوپی چند نارنگ، خوشتر گرامی، نریش کمار شاد، فکر تونسوی، راج نرائن راز اور کالی داس رضا وغیرہ اردو زبان کو اپنی تخلیقات وتحقیقات کا وسیلہ نہیں بناتے تو یہ زبان کبھی اس معیار پر نہیں پہنچتی جہاں آج ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اردو کسی طرح کی سرکاری سرپرستی نہ ہونے کے باوجود آج بھی ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی اور پارسیوں کی بول چال کی زبان ہے اور کل بھی رہے گی خواہ کوئی اس کے دیس نکالنے یا بھیس بدلنے کا مشورہ ہی کیوں نہ دے، اس زبان کی آب وتاب میں کمی نہیں آئے گی کیونکہ اس کے پھلنے، پھولنے اور پھیلنے میں غریب، امیر، فقیر ، راجا ، پرجا، دربار، سرکار اور بازار سبھی نے حصہ لیا ہے بلکہ اردو زبان کی ارتقائی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس کے فروغ میں مسلمانوں کی طرح غیر مسلموں کا بھی اہم حصہ ہے جنہوں نے اردو زبان کی ترقی سے لے کر اس کو سنوارنے ، سجانے اور آگے بڑھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
یہ وہ زبان ہے جس نے اپنے دور نونہالی میں فاتح ومفتوح کے درمیان کی خلیج پاٹنے کی سعی کی، زبان سے ہی اس کا ادب پیدا ہوتاہے ، اردو ادب نے قومی یک جہتی کی روایت کو مضبوط کیا اور اس کو فروغ بھی دیا، اسے نئے دلائل سے آراستہ کرنے والوں میں سرسید احمد خاں، حالی، آزاد، شبلی جیسے ان کے رفیقوں کے نام آتے ہیں سبھی نے اپنے ادب پاروں کے ذریعہ جہاں قومی اتحاد کے تصور کو مستحکم کیا وہیں اپنے تخلیقی جوہر اور نت نئے اسالیب کو برت کر وسیع النظری اور مذہبی رواداری کو لوگوں کا مزاج بنانے کی کوشش کی اور ایک ایسی فضا تیار کی جس میں مذہب، رنگ ونسل ، طبقے اور علاقائی حد بندیوں کا احساس معدوم ہوجاتا ہے۔
اسی طرح اردو نے تحریک آزادی میں نہایت ولولہ انگیز کردار ادا کیا ’’انقلاب زندہ باد‘‘ جیسا عوامی نعرہ عوام کودیا اور
’’سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے‘‘
جیسا پرجوش نغمہ اور
’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘
جیسا وطن کی محبت میں ڈوبا ہوا ترانہ سنایا اور ہر ہندوستانی کو یہ سبق دیا کہ آزادی کی لڑائی کو وہ مل جل کر ہی سر کرسکتے ہیں اس کے علاوہ اردو کے تمام ادیبوں ، قلم کاروں ، شاعروں اور صحافیوں نے بھی اپنی تحریروں سے ملک کے مختلف فرقوں کے درمیان کی دوری کو ختم کرنے اور انگریز حکمرانوں کی طرف سے کھڑی کی گئی نفرت کی دیوار کو گرانے کا اہم کام انجام دیا۔
وہ زبان جس کے لہجہ سے انکساری وخاکساری جھلکتی ہو، نرمی، گھلاوٹ اور شیرینی جس کے رگ وریشہ میں پیوست ہو، جس کے الفاظ وتراکیب نے اخوت ومحبت کے نغمے گنگنائے ہوں جس کے اندر سے رواداری ، وفا جوئی، بے تعصبی، حب الوطنی اور انسان دوستی کے سرچشمے پھوٹتے ہوں، ایسی زبان جو ہندوستانی مزاج کی سادگی اور وسیع مشربی سے لبریز ہو بھلا اس میں قومی یک جہتی کے عناصر کی تلاش کون سا مشکل کام ہے؟۔
یہ غالباً ہندوستان کی واحد زبان ہے ، جس نے ملکی وغیر ملکی زبانوں کو نہایت فراخ دلی کے ساتھ گلے لگایا ہے، اس میں انگریزی اور پرتکیزی زبانوں کے الفاظ ملتے ہیں تو سنسکرت ، عربی، فارسی کے الفاظ وتراجم پائے جاتے ہیں اور ہندو مذہب وفلسفہ پر کتابوں کی مجموعی تعداد کا شمار ہوتو تین ہزار سے بڑھ جاتی ہیں۔
اردو زبان کی ایک بڑی خصوصیت یہ بھی ہے کہ برصغیر کی تمام زبانیں اس میں ملتی ہیں اور یہ خود سب زبانوں میں شامل ہے، صرف ایک ’’بھوجپوری زبان‘‘ کی مثال کافی ہوگی، جو اترپردیش میں بنارس سے اعظم گڑھ تک اور بہار میں سارن سے چھوٹا ناگپور تک بولی جاتی ہے اور جب کوئی اس زبان کو بولتا ہے تو بھوجپوری اردو زبان اور اردو بھوجپوری زبان میں شامل نظر آتی ہے۔ اسی طرح برصغیر کی دوسری زبانیں پنجابی، کھڑی بولی، ہریانوی اور بندیلی میں لہجہ کا فرق توہے لیکن زبان یا ذخیرہ الفاظ میں زیادہ تفریق نظر نہیں آتی۔ اردو صرف کہنے کو نہیں حقیقت میں محبت کی زبان ہے، اس کی وقعت کا اندازہ یوں بھی ہوتا ہے ۔ اس زبان میں ہر مذہب کی کتابیں اور ان کے تراجم کثرت سے موجود ہیں۔ ایک اندازہ کے مطابق صرف رامائن کے پونے تین سو کے قریب اور گیتا کے 18 سے زیادہ ترجمے پائے جاتے ہیں اور ہندو مذہب وفلسفہ پر کتابوں کی مجموعی تعداد تین ہزار سے بڑھ جاتی ہے بلکہ پورے پورے فقرے، ضرب الامثال اور محاوروں کو پڑھا جاسکتا ہے اور ’’سب رس‘‘ ، ’’پدماوت‘‘ ’’رانی کیتکی‘‘ جیسی کہانیاں ملتی ہیں جنہیں ہندی والے ہندی اور اردو والے اردو قرار دے کر نہ صرف پڑھتے پڑھاتے ، ان کے ہندی اردو ہونے پر اصرار بھی کرتے ہیں۔
ایسی زبان جس کے خمیر سے خاکِ وطن کی خوشبو آتی ہو کیسے کسی ایک فرقہ و طبقہ کی زبان ہوسکتی ہے ، اسے توہم صرف ایک زبان نہیں، ایک ثقافت، ایک تہذیب، ایک طرز زندگی سے موسوم کرسکتے ہیں ،جو ملک کی سبھی نسلوں اور مذہبی گروہوں کے آپسی اشتراک سے آج تک پھلتی پھولتی رہی ہے۔
اردو کے نثری ادب کی طرح اس کے شعری سرمایہ میں بھی قومی اتحاد ویک جہتی کی لہریں دوڑتی نظر آتی ہیں۔ جانثار اختر کے الفاظ میں کہا جائے تو ’’اردو شاعری اپنی ابتداء سے مشترکہ تہذیب کی امین رہی ہے۔ ‘‘ولیؔ اورنگ آبادی ہوں یا میر تقی میرؔ،اسد اللہ خاں غالبؔ ہوں یا نظیرؔ اکبر آبادی اور دوسرے شعراء سبھی نے اپنی غزلوں ، مثنویوں، قصیدوں، نظموں، قطعوں یہاں تک کہ مرثیوں کے ذریعہ عہد بہ عہد ہندوستان کی رنگا رنگ معاشرتی، تمدنی اور سیاسی زندگی کی عکاسی کی ہے، کہیں موسموں کے بیان کی صورت میں، کہیں مناظر قدرت کی منظر کشی میں تو کہیں براہ راست وطنیت اور قومیت کے جذبہ سے سرشار ہوکر حالی، آزاد ، اسماعیل میرٹھی، چکبست، اقبال، جوش اور سیماب تک تمام ہم عصر شعراء اور ان کے بعد آنے والی ترقی پسند شاعروں کی نسل نے ملک کی ہر دھڑکن ، ہر کروٹ اور ہر انگڑائی کو شاعری کا جامہ پہنایا ہے ، خاص طور پر فیض، سردار جعفری، مجروح سلطان پوری، وجد ، مجاز، مخدوم، اختر الایمان، کیفی ، تاباں، جذبی، روش، جاں نثار اختر، وامق ، ساحر وغیرہ کی نظموں اور غزلوں میں مختلف انداز میں یہ احساسات پیش کئے گئے کہ ایک انسان کے دوسرے انسان سے اختلافات خواہ مذہبی ہوں یا طبقاتی ان کی شدت سے ثقافتی زندگی کا ارتقاء متاثر ہوتا ہے، لہذا اس سے اجتناب ضروری ہے، نئے عہد کے شعراء نے بھی اپنی تخلیقات کے ذریعہ جمہوری اقدار ، تہذیبی آزادی اور سیکولر روایات کے حق میں آواز بلند کرکے انسانیت کو مستحکم بنانے پر زور دیا اور اس طرح اردو زبان نیز اس کے ادب میں قومی اتحاد ویک جہتی کو سمونے میں ان کی فکر ونظر نے قابل ذکر کردار ادا کیا ہے۔
مثال کے طور پر جہاں ہندو شعراء نے عید، شب ِ برأت، عید میلاد النبیؐ اور عاشورۂ محرم جیسے مسلمانوں کے اہم ایام کو اپنے اشعار کا موضوع بنایا وہیں ہولی، دیوالی، دسہرہ، راکھی اور بسنت جیسے برادران وطن کے تہواروں کو مسلم شعراء نے منظوم کیا، یہی نہیں اردو کے عام شاعروں نے اپنے کلام میں باہمی رواداری، سیر چشمی اور اخوت کی روشن مثالیں پیش کی ہیں، کبھی ہندو شعرا ء نے پیغمبر اسلام رسول پاکؐ، حضرت علیؓ اور امام حسینؓ کو منظوم خراج عقیدت پیش کیا تو کبھی مسلم شعراء نے رام چندر جی، کرشن جی، گوتم بودھ، مہاویر سوامی، مہاتما گاندھی جیسی عظیم ہندو شخصیتوں کی شان میں الفاظ وجذبا کا دریا بہایا۔ اگر غیر مسلم شعراء نے مسلمانوں کے سیاسی وسماجی رہنمائوں کی خدمات کو گراں قدر الفاظ میں یاد کیا تو مسلم شعراء نے ہندوئوں کے سماجی وسیاسی رہنمائوں کے تئیں نہایت فراخ دلی کے ساتھ گلہائے عقیدت پیش کئے۔
اس اجمالی جائزہ سے یہ حقیقت بخوبی ظاہر ہوجاتی ہے کہ اردو زبان کے آغاز سے آج تک اس میں نہ صرف ہمارے ملک ہندوستان کی گنگا جمنی قدروں کی بھرپور نمائندگی ہے بلکہ ہر دور میں وسیع المشربی ، مذہبی رواداری، قومی اتحاد وفرقہ وارانہ یک جہتی کی مثالیں بآسانی تلاش کی جاسکتی ہیں۔
٭٭٭